خوراک کی قلت اور زیاں کا مسئلہ

شکیل فاروقی  جمعـء 20 جنوری 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زرعی پیداوار نہ صرف اِس قدر ہے کہ اپنی ضروریات پوری کی جا سکیں بلکہ اِس کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ پیداوار میں سے اچھا خاصہ حصہ برآمد بھی کیا جاسکے لیکن اِس کے باوجود پاکستان اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کے قابل نہیں ہے۔

ہر سال ہمیں مطلوبہ مقدار میں پیٹ بھرنے کے لیے غلہ درآمد کرنا پڑتا ہے لیکن اگر ہم قرآنِ پاک کی تعلیمات پر صِدقِ دل سے عمل کریں تو خوراک کی کمی کا مسئلہ بخوبی حل کیا جاسکتا ہے۔ خوراک کے استعمال کے بارے میں قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔

قرآن پاک ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم خوراک کے استعمال میں احتیاط سے کام لیں اور اِسے ضایع نہ ہونے دیں۔

خوراک کے بغیر ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ ہمیں خوراک کے معاملے میں اللہ تعالٰی کے احکامات کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہمیں اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ خوراک کا ایک دانا بھی ضایع نہ ہونے پائے کیونکہ اللہ تعالٰی نے خوراک کے زیاں سے منع فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو چاہو وہ کھاؤ پیو لیکن اسراف سے بچو۔ خوراک کا زیاں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو خوراک کی قلت ہے اور دوسری جانب اْس کا زیاں ہے ، جب تک خوراک کے زیاں کو روکا نہیں جائے گا اْس وقت تک خوراک کی کمی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

افسوس کا مقام ہے کہ لوگ عموما اِس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ اْنہیں جتنا کھانا ہے اْتنا ہی اپنی پلیٹ میں نکالیں تاکہ بچا کْچا کھانا ضایع نہ ہو اور اْسے پھینکنا نہ پڑے۔ اِس طرح کی حرکت سے کھانے میں برکت نہیں رہتی اور اﷲ تعالیٰ الگ ناراض ہوتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک ذی روح سے خوراک مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اِسی لیے وہ رازق اور رزاق کہلاتا ہے ، جو لوگ خوراک کی قدر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اْن سے ناراض ہوتا ہے اور اِس کے نتیجہ میں اْن کے رزق سے برکت اٹھا لیتا ہے۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں کھانے کا زیاں معمول کی بات ہے اور کوئی اِس جانب توجہ نہیں کرتا جس کے نتیجہ میں اِس طرح کے لوگ مفلسی اور فاقہ زدگی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اْن پر قہرِ خداوندی نازل ہوتا ہے۔

بعض لوگ ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں اور اپنے پیٹ کو اناڑی کی بندوق کی طرح بھر لیتے ہیں اور اِس کے بعد معدہ کے امراض کا نشانہ بنتے ہیں اور اِنہیں اِس عادت کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اعتدال کا راستہ اختیار کرے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پیدا ہونے والی ۱/۳ ( ایک تہائی ) خوراک بغیر کھائے اور نصف کھائی ہوئی حالت میں پھینک دی جاتی ہے ، جس سے ماحول پر بوجھ پڑتا ہے اور جس کے نتیجہ میں فضا خراب ہوتی ہے ، اگر خوراک کے زیاں کو عالمی سطح پر کم کردیا جائے تو اِس سے بھوک اور افلاس کے سنگین مسئلہ پر قابو پانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

اِس طرح گھریلو اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں صحتِ عامہ ، تعلیم اور انسانی بہبود کے لیے وسائل کو بھر پور طریقہ سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں خوراک کے زیاں کی صورت حال خاصی گمبھیر ہے۔ ہر گھر میں بڑی مقدار میں کھانا پکاتے وقت اور کھاتے وقت ضایع ہوتا ہے۔

اِس کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ اپنی پلیٹ میں ضرورت سے زیادہ کھانا بھر لیتے ہیں جو بھاری مقدار میں ضایع ہوجاتا ہے۔گلی گلی میں فوڈ آؤٹ لیٹس کھْل رہی ہیں اور گھر سے باہر کے کھانے کی رَوِش بہت زور پکڑ رہی ہے۔ لوگوں کا زیادہ تر رجحان گھر سے باہر جَنک فوڈ کے ذائقوں کی طرف مائل ہو رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نئی نئی فوڈ اسٹریٹس معرضِ وجود میں آرہی ہیں اور کھانے پینے کے کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس کی وجہ سے لوگ رات گئے تک کھانے پینے کی اشیاء سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بجلی کی طلب میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جب کہ ملک میں شدید لوڈشیڈنگ کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں خوراک کے معیار کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی اور معدہ کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک طرف پیٹ بھروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب وہ طبقہ ہے جسے بھوک کے مارے چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں۔معیاری خوراک تو دور کی بات ہے اِن افلاس زدوں کو پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھی میسر نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں اْن لوگوں اور اداروں کا دم غنیمت ہے۔

جنہوں نے رات دن لنگر جاری کیے ہوئے ہیں اور جہاں آکر بھوک کے ستائے ہوئے لوگ پیٹ پوجا کرتے ہیں اور اِن غریب نوازوں کو دعائیں دیتے ہیں جنہوں نے بھوکوں کے لیے روٹی پانی کا انتظام کر رکھا ہے۔وطنِ عزیز میں مخیر حضرات نے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں اور فی سبیل اللہ طعام کا بندوبست کر رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی اِن فراخ دلوں کو اجرِ عظیم سے نوازے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔