اپنی اور کیمرے کی آنکھ میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا

نوید جان  اتوار 22 جنوری 2023
 قدرت کے ذرے ذرے میں حسن نظر آتا ہے، ملک کے معروف فوٹوگرافر فخرالزماں آذرالمعروف انکل ٹونی کی جیون کتھا۔ فوٹو : فائل

قدرت کے ذرے ذرے میں حسن نظر آتا ہے، ملک کے معروف فوٹوگرافر فخرالزماں آذرالمعروف انکل ٹونی کی جیون کتھا۔ فوٹو : فائل

 موضوعیت کے لحاظ سے تو کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے جب کہ معروضیت اس خیال کو رد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حسن معروض میں موجود ہوتا ہے مگر خلیل جبران کہتے ہیں کہ ’’حسن چاہے کسی لق ودق صحرا میں کیوں نہ ہو اس کے چاہنے والے ضرور پیدا ہوجاتے ہیں۔‘‘

لہٰذا مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر سے جب اپنے ممدوح انکل ٹونی کی تصویرکشی کو دیکھتے ہیں تو ان کے ہاں دونوں زاویۂ نظر کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔

حسن کی تلاش جب آپ کے لیے قریہ قریہ گھومنے کا باعث ہو تو یہ ذوق مزید نکھرتا جاتا ہے اور ایسے ایسے من موہنے شاہ کار کیمرے میں مقید ہوجاتے ہیں۔

جنہیں دیکھ کر دادوتحسین دیے بنا نہیں رہا جاسکتا۔ حسن کے متلاشی، ملک کے معروف اور موجودہ دور کے سنیئر اور من موجی فوٹوگرافر فخر الزماں آذر المعروف انکل ٹونی جیسے لوگوں ہی کی بابت میرتقی میرنے کہا تھا:

خدا ساز تھا آذر بت تراش

ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں

اس تناظر میں فخرالزماں آذر کا تخلص بھی قدرے اسم بامسمیٰ ثابت ہوا ہے کہ وہ بت تراش یا آدمی بنانے والے تو نہیں مگر آدمیوں کی تصاویر بنانے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور اس پیرانہ سالی یعنی 3 8سال کی عمر میں بھی ہر ساعت اپنے کام میں منہمک وغرق نظر آتے ہیں اور کسی شاہ کار کی تخلیق کے متلاشی رہتے ہیں۔

ہم نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو انہوں نے فوراً قبول کرلی۔ دوپہر کو ملاقات کے پہر کے لیے رکھا۔ وہ پشاور کے علاقے صدر میں ہمارے منتظر تھے۔ ہمیں سامنے پاکر دیدہ دل فرش واکیے بڑی گرم جوشی سے ملے۔

اس عمر میں بھی خوب صورت روشن نیلی آنکھوں میں ایسی چمک، گویا یہ ہماری کسی اینگل سے تصویرکشی کرنے والے ہوں۔ ابتدائی خیروعافیت کے کلمات کے بعد اپنی ایسے ایسے شاہ کار دکھاتے گئے جیسے وہ کوئی ساکت و جامد تصاویر و پوٹریٹ نہیں، پوری کی پوری داستانیں ہوں جو بہ زبان خود اپنی کتھا بیان کیے جا رہی ہوں۔

ملک کے معروف اور سنیئر ترین فوٹوگرافر فخر الزماں آذر المعروف انکل ٹونی کا شمار بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹوگرافروں میں ہوتا ہے جو گذشتہ 60 سال سے شعبہ فوٹوگرافی اور فوٹوجرنلزم سے وابستہ ہیں۔

وہ ملکی اور بین الاقوامی اخبارات، رسائل وجرائد اور متعدد بڑے اداروں میں بطور فوٹو گرافر خدمات سر انجام دیتے آئے ہیں۔

وہ فوٹوگرافی کی کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے رکن بھی ہیں اور اپنے فن پاروں پر ملکی اور غیرملکی ایوارڈ، تعریفی اسناد اور انعامات بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ان کو سابق گورنرخیبر پختون خوا بیرسٹر مسعود کوثر گورنر ہاؤس پشاور میں ان کی اعلٰی خدمات اور کارکردگی کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نواز چکے ہیں۔

انکل ٹونی30 دسمبر 1939ء کو بھارت کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قمرالزماں تقسیم ہند سے قبل فوجی سپاہیوں کے لیے وردیاں وغیرہ فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔

ان کی دہلی اور پشاور میں دکانیں تھیں۔ پشاور میں ان کی دکان معروف فلمی اداکار ونودکھنہ کے والد اور اس وقت کے ہند کے وزیرخزانہ لالہ مہرچند کھنہ کی جائیداد میں واقع موجودہ ارباب روڈ پر تھی۔

لالہ مہر چند کھنہ کی ایک شان دار حویلی بھی تھی جس میں ہندوستان سے اعلیٰ شخصیات آکر ٹھہرتیں۔ انکل ٹونی کا ایک گھر اس جگہ بھی تھا جہاں آج شفیع مارکیٹ ہے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ چھٹیوں میں یہاں آکر قیام کرتے۔ جب تقسیم ہند کا واقعہ رونما ہوا تو فخر زماں اپنے والد کے ساتھ یہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔

انکل ٹونی نے پشاور یونی ورٹی سے ایم اے اردو کیا اور انگلش لٹریچر میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ ساتھ ہی رشین اور فارسی زبان میں ڈپلوما کر رکھا ہے۔ 1960ء میں ہنگری سے فوٹوگرافی کا ڈپلوما بھی حاصل کرچکے ہیں۔

فوٹوگرافی اور سیروسیاحت کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا۔ ان کے والد قمر الزماں اپنے وقت کے نامور اور جانے پہچانے فوٹوگرافر بھی تھے۔

1950ء میں انہوں نے اپنے گھر ہی میں لکڑی کا گلاس شیٹ والاکیمرا لگاکر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو بنایا تھا جس میں وہ اپنے خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں کی تصاویر بناتے، ایک کمرے کو ڈارک روم بناکر وہ ڈیویلپنگ اور پرنٹنگ بھی خود ہی کیا کرتے۔

آج سے 60 سال قبل انہوں نے جرمنی کا ان لارجر اور ایک Rollicordکیمرا خریدا تھا جسے وہ آؤٹ ڈور فوٹوگرافی کے لیے استعمال کیا کرتے۔ والد کی دیکھا دیکھی انکل ٹونی کو بھی کیمرے کی آنکھ سے مناظر فطرت مقید کرنے کا شوق چڑھا۔ وہ کبھی کبھار والد سے چھپ کر کیمرے کے زیروبم سے جان کاری حاصل کرنے لگے۔

اس دوران کیمرے کے کَل پُرزوں سے چھیڑخانی ان کو گراں بھی گزری لیکن اپنے شوق کی خاطر ڈٹے رہے اور یوں انہوں نے کم سنی میں ہی مناظرفطرت کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کاگُر جاننا شروع کردیا جب کہ ان کے والد نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ ان کو کیمرے کی آنکھ سے عکس بندی کے گُر سکھانے لگے جس کے بعد انہوں نے لینڈ اسکیپ، پوٹریٹ اور فوٹوجرنلزم پر بہت کام کیا اور خود کو منوانا شروع کردیا۔

بقول انکل ٹونی،’’مجھے خوب صورت اور دل کش مناظر کی عکاسی سے دل چسپی رہی۔ ویسے میں ہر خوب صورت چیز کو ایک فوٹوگرافر کی نظر سے دیکھنے لگتا ہوں، مجھے قدرت کے ہر ذرے میں حسن نظر آتا ہے۔ میں نے اپنی اور کیمرے کی آنکھ میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔

قدرت کے تخلیق کردہ ہر خوب صورت اور پرکشش منظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔ جب بھی بہار یا پت جھڑکا موسم آیا، میں کیمرا اٹھا کر لندن، جاپان، آسٹریلیا، فرانس اور اندرون ملک تھر کے صحراؤں میں تو کبھی چترال، گلگت، سوات اور ہزارہ کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں پہنچ جاتا، جہاں پھولوں، زرد پتوں، خزاں رسیدہ، زخم خوردہ اور برہنہ درختوں کو اپنے کیمرے میں عکس بند کرلیتا۔‘‘

انکل ٹونی کے مطابق انہیں فوٹوگرافی کے ساتھ سیروسیاحت اور قلمی دوستی کا بھی شوق رہا۔ اس سلسلے میں وہ تقریباً آدھی دنیا گھومے پھرے ہیں۔

قلمی دوستی کے سلسلے میں 1950ء میں پشاور میں ان کے اسکول کے طلباء کو جاپانی اسکول کے طلبہ کی جانب سے دوستی کے تحائف موصول ہوئے۔ انہیں بھی قرعے میں ایک جاپانی طالبہ ہساکوٹو سومی کی جانب سے تحفہ ملا، ہساکوٹوسومی کا تعلق اوساکا جاپان سے تھا۔ وہ دنیا کے نقشے پر ایک نومولود ملک پاکستان کے متعلق جاننے کی شائق تھی۔

انکل ٹونی نے اسے نہ صرف پاکستان سے متعلق معلومات فراہم کیں بلکہ تحفۂ دوستی بھی بجھوایا۔ اس طرح دونوں میں قلمی دوستی کا آغاز ہوا۔

بعد میں دونوں نے مل کر ایک بین الاقوامی قلمی دوستی کی تنظیم Merry Pen Pals Club کی بنیاد بھی ڈالی اور مختلف ممالک میں لاتعداد دوست بنائے۔ اسی قلمی دوستی کے طفیل انہیں سیروسیاحت اور دنیا گھومنے پھرنے کا شوق ہوا۔

فخرالزماں آذر بتاتے ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر ان ہی کی تحریروں کے ساتھ ان کی عرفیت سے ڈیلی پاکستان، روزنامہ جنگ راولپنڈی، روزنامہ امروز، ہفت روزہ اسٹریٹ کراچی، ماہنامہ فلم ایشیا کراچی اور دیگر قومی و بین الاقوامی اخبارات ورسائل میں چھپتی رہیں، جس کی وجہ سے وہ انکل ٹونی کے نام سے جانے پہچانے گئے اور اسی نام سے مقبولیت اور شہرت بھی کمائی۔

ان کی خوش قسمتی رہی کہ ان کو شہرت یافتہ اور تجربہ کار فوٹوگرافروں کی راہ نمائی اور سرپرستی حاصل رہی جن سے فوٹوگرافی کے گُر اور ہنر سیکھا۔ ان اصحاب میں آفتاب احمد خان (ستارہ امتیاز) پاکستان، بھارت کے نام ور فلمی اداکار و ڈائریکٹر اور فوٹوگرافر سجن جی اور انٹرنیشنل انڈیا فوٹوگرافک کونسل کے چیئرمین او پی شرما شامل ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں جدت وندرت آنا فطری امر ہے، یوں فوٹوگرافی بھی اس سے بچ نہ سکی۔ اس سلسلے میں انکل ٹونی کو جس چیز نے زیادہ متاثر کیا وہ جدید کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی ہے، جسے وہ عصرحاضر کا بیش بہا تحفہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یورپ والوں نے اسے بہت عرصہ تک صیغۂ راز میں رکھا۔

جب میں یورپ والوں کی تصاویر دیکھتا کہ بلیک اینڈ وائٹ پوٹریٹ میں لڑکی کے ہونٹ اور اس کے ہاتھ میں تھمایا ہوا سیب سرخ رنگ کا ہے، تو میں دنگ رہ جاتا، لیکن بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ یہ سب کمپیوٹر کے کمالات ہیں جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔

اس بنا پر مجھے کمپیوٹر کی اس سہولت نے بہت متاثر کیا، لیکن ہمارے جیسے فوٹوگرافروں کے لیے یہ صورت حال کسی چیلینج سے کم نہیں تھی۔ ابتدا میں مشکل کا سامنا رہا، لیکن رفتہ رفتہ اس مشکل پر بھی قابو پالیا۔‘‘

فخر زماں آذر کئی ملکی اور بین الاقوامی فوٹوگرافی کی تنظیموں سے وابستہ رہے یا ان سے ان کا تعلق رہا۔ وہ ورلڈ وائیڈ برادرزہڈ انگلینڈ کے اعزازی ممبر اور امریکن پریس واشنگٹن ڈی سی ، نیویارک فوٹو ورلڈ میگزین یو ایس اے، انڈیا انٹرنیشنل فوٹوگرافک کونسل، انٹرنیشنل فری لانس فوٹوگرافرز آرگنائزیشن یوایس اے اور پاکستان آرٹ فوٹوگرافی کے رکن ہیں۔

اس کے علاوہ انکل ٹونی امریکن پریس واشنگٹن، نیویارک فوٹو ورلڈ (یوایس اے) روزنامہ سرحد پشاور، روزنامہ قائد پشاور، ہفت روزہ آئینہ جہاں پشاور سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔

ان کو بہترین عکس بندی اور تصاویر پر جن اداروں نے اعزازات سے نوازا، ان میں پاکستان ٹائمز1956ئ، ماسکو نیوز (یو ایس ایس آر) 1977ئ، ورلڈ یوتھ بڈ اپسٹ (ہنگری) 1959ء ، سرحد ٹورازم ڈیپارٹمنٹ 1995،1996 ،1997ئ، پاکستان سیلون گروپ، انڈیا انٹرنیشنل فوٹو گرافک کونسل (انڈیا)، ایشیا پیسفک کلچرسینٹر یونیسکو سنٹر جاپان، اباسین آرٹس کونسل پشاور، لوک ورثہ اسلام آباد، پاکستان کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، نقد انعامات اور حسن کارکردگی ایوارڈز شامل ہیں۔

یہ من موجی پورے ایشیا، مڈل ایسٹ، ساؤتھ ایسٹ ، یورپ، امریکا، نارتھ امریکا سینٹرل ایشیا، بمبئی (انڈیا) اور دیگر کئی ممالک کی یاترا بھی کرچکے ہیں۔ انگلینڈ میں پولیس کی جانب سے ایک چور کو پکڑتے ہوئے ان کی کھینچی گئی تصویر کو بھی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔

انکل ٹونی کہتے ہیں کہ ’’بہتر فوٹوگرافی کے لیے کیمرے کے بعد تین اہم چیزیں ہوتی ہیں جن کا مطالعہ فوٹوگرافی کے شعبے میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

وہ تینوں چیزیں لائٹ، لینز اور فلم ہیں، لائٹ اور فلم کے درمیان لینز حائل ہوتا ہے جس قدر اچھے معیار کا لینز کیمرے پر لگا ہوگا۔ اس قدر خوب صورتی اور تفصیل کے ساتھ روشنی فلم سے جاکر ٹکرائے گی یعنی لائٹ، لینز اور فلم میں سب سے اہم کردار لینز ہی ادا کرتا ہے۔

لینز کا بنیادی کام ایک امیج کو شارپ فوکس کے ساتھ فلم پر منتقل کرنا ہوتا ہے مگر اس کا کام اس سے بھی بڑھ کر ہے، یہ فوٹوگرافر کو سبجیکٹ کو قریب اور دور کرنے کے قابل بناتا ہے اور تصویر کے فریم کا رقبہ بڑھانے یا کم کرنے میں فوکل لینتھ کو کم یا زیادہ کرتے ہوئے سہولت فراہم کرتا ہے۔

یہ فوٹوگرافر کو روشنی کی مقدارکو کنٹرول کرنے میں جو فلم تک پہنچتی ہے اور شارپنس کے ایریا (Depth of field)کو لینز پر موجود اپرچررنگ کی مدد سے کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ لینز فوٹوگرافر کو سبجیکٹ سے فلم کے فاصلے کے مطابق فوکل لینتھ کو درست کرکے سبجیکٹ کو شارپ اور کلیئر طور پر فلم پر ریکارڈ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فوٹوگرافر کے اسلحہ خانے میں لینز ایک اہم ہتھیار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کمپوزیشن فوٹوگرافی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جب ہم کسی بھی فوٹوگراف کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے متاثر کرنے والی چیز جو ہوتی ہے وہ تصویر کی کمپوزیشن ہے۔

اگر تمام بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تصویر بنائی گئی ہو مگر وہ کمپوزیشن کے لحاظ سے کم زور ہو تو وہ تصویر اچھی تصاویر میں شمار نہیں کی جا سکتی۔ ایک اچھا فوٹوگرافر بننے کے لیے کمپوزیشن کا سمجھنا اور اس کے اصولوں کو ایکسپوزنگ کے دوران مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد تصویر میں سبجیکٹ کا شارپ فوکس ہونا ضروری ہے۔ پھر مطلوبہ اپرچر اور اسپیڈ کا ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح درجہ بدرجہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو ایک اچھے معیار کی فوٹوگرافی کے لیے ناگزیر ہیں جب کہ ڈیجیٹل کیمرے سے فوٹوگرافی کرتے ہوئے ہمیں بہت سی چیزیں فوراً ہی حاصل ہوجاتی ہیں، مثلاً ہم ایل سی ڈی پر اپنی متوقع تصویر کا Preview دیکھ لیتے ہیں۔

اس سے ہمیں کمپوزیشن کو چیک کرنے میں بہت مدد ملتی ہے، جب کہ تصویر بنانے کے بعد ہم اسے فوراً ہی ایل سی ڈی پر چیک کر لیتے ہیں۔ اگر تصویر میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو فوراً ہی دوسری تصویر حاصل کر لیتے ہیں۔

اس عمل سے گزرتے ہوئے ہمیں عام طور پر اسپیڈ اپرچر اور فوکسنگ پر توجہ رکھنا ضروری نہیں ہوتا اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تصویر میں بہتر سے بہتر کمپوزیشن بناکر تصویر کو زیادہ پرکشش اور خوب صورت بنایا جاسکے۔

‘‘ ان کے مطابق ایک اچھے فوٹوگرافر اور جرنلسٹ میں یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ بے خوف و خطر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو پورا کرے اور سماج کی برائیوں کو بے نقاب کرکے اصلیت اور حقائق کو منظرعام پر لائے اور سماجی و سیاسی بے قاعدگیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کو اپنا شعار بنائے۔

انکل ٹونی 1965ء میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے تھے۔ وہ چار بچوں کے باپ ہیں جن میں دو صاحب زادیاں اور دو صاحب زادے ہیں اور چاروں کام یاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔

انکل ٹونی خود کو حسن پرست کہتے ہیں اور حسن کو کیمرے کی آنکھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔

نڈرآدمی ہیں اور بہادر لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ انہیں جھوٹ اور سگریٹ نوشی سے سخت نفرت ہے، جب کہ ہرحال میں سچ بولنے والوں پر مرمٹتے ہیں۔ اسی لیے تو انہیں مخصوص ’’مشروب ‘‘ پسند نہیں جب کہ اسے پینے والے انہیں اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہ سچ بولتے ہیں۔

وہ جب اپنی بیتی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں یک گونہ اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ بھرپور زیست تادم گزار رہے ہیں لیکن کہیں کہیں تشنہ لبی ان کو مضطرب بھی کیے رکھتی ہے کہ اتنا کام کرنے کے باوجود حکومتی سطح پر پذیرائی نہیں ملی۔ ان کے خیال میں اس مقصد کے لیے کسی لابنگ کی ضرورت ہوتی ہوگی جس کے کرنے سے وہ خودکو قاصر سمجھتے ہیں۔

انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ آج تک کسی نے بھی ان کی شاہ کار تصاویر کی نمائش تک نہیں کی۔ اس ضمن میں مختلف لوگوں اور اداروں کی جانب سے وعدے وعید بھی ہوئے لیکن کوئی بھی وعدہ ایفا نہ ہوسکا۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
انکل ٹونی کی ایسی بہت سی تصاویر ہیں جن پر انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا ہے لیکن پشاور صدر میں واقع ایک دوسرے کے قریب واقع مسجد (درویش) اور چرچ (سینٹ مائیکل کیتھولک چرچ) کی کھینچی گئی تصویر کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی جس پر بعدازآں انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

اس تصویر کے ذریعے دنیاکو بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام دیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان میں بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ پیش آیا تھا۔

’’ٹونی‘‘ نام ملکہ ترنم نورجہاں نے رکھا
’’چوں کہ میں بڑی شخصیات کے ساتھ کام کیا کرتا رہا اور ان کی کسی بھی تقریب وغیرہ میں فوٹوگرافی کرنا میری ذمے داری ہوتی تھی، اس لیے جب میں ملکہ ترنم نورجہاں کے فوٹوجینک چہرے کی عکاسی کرتا تو وہ بڑی خوش ہوتیں۔

ایک دن مجھے پاس بلاتے ہوئے کہا کہ زمان آپ کا پورا نام کیا ہے، میں نے کہا فخرالزماں آذر، تو برجستہ بولیں، آج سے میں تجھے تمھاری بلوری نیلی آنکھوں اورشکل وصورت کے باعث ٹونی کہا کروں گی، جس کے بعد میں اسی نام سے جانا پہچانا جانے لگا جو رفتہ رفتہ انکل ٹونی پڑگیا۔

بھٹو کی تصویر کھینچنا مشکل ہوتا تھا
انکل ٹونی کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس جو لاہور میں منعقد ہوئی تھی، میں شرکت کرنے والے تقریباً سبھی سربراہان مملکت کی تصاویر کھینچنے اور ان سے فرداً فرداً ملنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایوب خان سے لے کر میاں نوازشریف اور عمران خان تک تمام ملکی قیادت کی تصاویر کو وہ تاریخ کا حصہ بنا چکے ہیں۔

بقول ان کے سوائے ذوالفقارعلی بھٹو کے کسی کی تصویر کھینچنے میں دقت نہیں ہوئی، کیوں کہ بھٹو ایک شعلہ بیاں مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی متحرک لیڈر تھے، کسی بھی تقریب میں ان کی تصویر لینے میں دقت یوں پیش آتی کہ وہ ایک جگہ ٹکنے والے نہ تھے۔

اس لیے ان کا اینگل لینا انتہائی مشکل کام تھا۔ اسی طرح لیڈی ڈیانا کو کیمرے کی آنکھ سے کور کرنا بھی دقت طلب کام تھا۔ جب وہ پاکستان کے دورے پر آکر خیبر پاس گئیں تو وہاں کسی مخصوص اینگل سے ان کی تصویر بنانا بھی مشکل کام لگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔