کوڑا کیسے ٹھکانے لگائیں؟

حسان خالد  اتوار 29 جنوری 2023
شہر میں بہترین صفائی کے لیے ہمیں دنیا سے سیکھنا ہو گا ۔ فوٹو : فائل

شہر میں بہترین صفائی کے لیے ہمیں دنیا سے سیکھنا ہو گا ۔ فوٹو : فائل

وطن عزیز میں ایک بڑا مسئلہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔

بڑے شہر ہوں یا دیہات، ہر جگہ کچرے، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی اداروں کو جہاں دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کرنا چاہیے، وہاں مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

اس ضمن میں شہریوں کو آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے اور شہر کی صفائی میں کردار ادا کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کی مدد کر سکتے ہیں۔

’’لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی‘‘ (LWMC) نے موجودہ مسائل اور مستقبل کے چیلنجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے صفائی کے لیے دنیا کے بہترین ماڈلز کی روشنی میں طویل المدتی منصوبہ بندی کا آغاز کیا ہے، جس کے ایک حصے کے طور پر شہریوں کی آگاہی کے لیے ’’لاہور صاف تو پاکستان صاف‘‘ مہم چلائی جا رہی ہے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر علی عنان قمر اپنے منصوبوں کی کامیابی کے لیے پرعزم ہیں۔ لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی (LWMC) کوشاں ہے کہ عوام کے تعاون سے پہلے مرحلے میں شہر کے کچھ حصوں میں صفائی اور کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مثالی صورتحال قائم کی جائے، بعدازاں شہر کے دوسرے حصوں اور پھر پورے شہر میں اس ماڈل پر عمل کیا جائے۔

ملک کے دوسرے شہروں میں بھی سرکاری اداروں کو صفائی کے لیے جدید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اصلاح احوال کے لیے ہمیں اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا چاہیے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اختیار کیا۔ اس طریقہ کار کی تفصیل کچھ یوں ہے:

(1) کوڑے کی مقدار کم کرنا

پہلا مرحلہ reduce یعنی کوڑے کے مقدار میں کمی ہے۔ عوام میں یہ آگاہی پھیلائی جائے کہ کم سے کم کوڑا پیدا کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی اداروں اور گھروں تک میں بچوں کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ آپ نے کچرے کو باہر سڑک پر، راستے یا میدان میں نہیں پھینکنا۔ بچوںکا کیاگلہ کریں یہاں تو پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ موٹروے پر بھی کچرا پھینک دیتے ہیں۔

اس لیے آپ کو وہاں بھی بوتلیں اور ریپیرز نظر آئیں گے۔ باقی شہر کا حال تو عوام اچھی طرح سے جانتی ہے۔ ہر دکان کے باہرڈبے، ٹشوپیپراورپلاسٹک کپ پڑے ہوئے ملتے ہیں۔

(2) کچرے کو الگ الگ کرنا

دوسرا مرحلہ segregation ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچرے کو الگ الگ کرنا۔ یعنی خوراک والی چیزیں الگ، پلاسٹک،گتہ وغیرہ الگ اور لوہا شیشہ وغیرہ الگ۔ دوسرے ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر کچرا نہیں اٹھایا جاتا بلکہ وہاں دو تین دن مقرر ہوتے ہیں۔

لوگ گھروں کا کچرا اسی دن اٹھاکر باہر رکھتے ہیں اور انھی مخصوص دنوں میں میونسپل اہلکاراس کو اٹھا لیتے ہیں۔ شہریوں کی لاپروائی کی وجہ سے LWMC شہر کے مختلف حصوں سے دن میں تین بار کوڑا اٹھاتی ہے۔ یہاںصبح، دوپہر اور رات کی شفٹ چلتی ہے لیکن اس کے باوجود کوڑ اختم نہیں ہوتا۔

ان دونوں مراحل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ آپ کے گھر کا جو کوڑا ہوتا ہے اس کو موٹا موٹا تقسیم کیاجائے تو اس کی تین اقسام بنتی ہیں۔ ایک کچن کاکچرا ہے جس میں سبزی، فروٹ، بچا ہوا کھانا، روٹی چاول وغیرہ شامل ہے۔

انھیں ہمیں بالکل ہی الگ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ آگے جا کر سارے کوڑے کو خراب کر دیتا ہے۔ دوسراعام قسم کا کوڑا ہے جس میں پلاسٹک، پیکنگ میٹریل، گتہ، کپڑا وغیرہ شامل ہیں۔ تیسر ی قسم کے کچرے میںمیں لوہا اور شیشہ وغیرہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس کوڑے کو تین مختلف رنگوں کے کچرا بیگز میں ڈالا جاتا ہے یا ان رنگوں کے کچرا ڈبوں میں پھینکا جاتا ہے۔ اس سے کوڑے کی مقدار کم ہوتی ہے اور اسے ان کی ساخت کی مناسبت سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

اسی تناظر میں آزمائشی طور پر LWMC نے بھی شہر کے مخصوص حصوں میں سہ رنگی مہم شروع کی، جس میں تین رنگ لال، پیلا اور سبز متعارف کرائے ہیں۔ سبز رنگ قدرتی کچرے (روٹی، سالن، چاول وغیرہ) کے لیے مقرر کیا ہے۔

پیلا رنگ پلاسٹک اور گتہ وغیرہ کے لیے ہے جبکہ لال رنگ لوہے، شیشے وغیرہ کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار کو عملی طور پر متعارف کرتے ہوئے LWMC نے گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈنس 6، قربان لائن پولیس، چترال لائن (آرمی یونٹ) اور والڈ سٹی آف لاہور کے ساتھ مل کر کام شروع کیا ہے۔

ان چاروں مقامات سوجھان سنگھ کی گلی، قربان لائن، جی او آر 6 اور چترال لائن کو عملی نمونے کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ یہاں پر نظم و ضبط دوسرے علاقوں کی نسبت کافی بہترہے۔ ان علاقوں میں تین رنگوں کے ڈبے رکھوائے ہیں۔

گھروں میں فی الحال کمپنی خود شاپر مہیا کر رہی ہے کہ ان تین رنگوں کے مطابق ان میں کوڑا ڈالا جائے، LWMC خود انہیں اٹھا کر ٹھکانے لگائے گی اور اس ماڈل کو بتدریج پورے لاہور میں لاگو کیا جائے گا۔

(3) کچرا اٹھانے کے نظام میں بہتری

اس کے بعد کوڑا اٹھانے کی باری آتی ہے۔ ہمارا رائج نظام ٹھیک نہیں۔ گھروں میں صفائی کرتے وقت سارا گند دروازے کے باہرجمع کرکے اس میں کچن کی بالٹی اور گھر کاکچرا بھی الٹ دیتے ہیں۔ اس کے بعد LWMC کا کارکن آتا ہے، وہ آس پاس کی صفائی کرکے سارے گند کو اکھٹا کرتا ہے اور سب کو ایک کنٹینر میں ڈال دیتا ہے۔

یہ کنٹینر ٹرک میں چلا جاتا ہے اور اسی ٹرک میں علاقے بھرسے جمع کیا گیا گند بھی موجود ہوتا ہے، جس کو کچرا اکٹھا کرنے کے عارضی مقامات TCP (Temporary Collection Point) پر لے جایا جاتاہے۔ جہاں مٹی،گرد، کچرا، پانی، درخت کی شاخیں، اینٹیں سب کچھ اکھٹا کر لیا جاتا ہے۔

اس کے بعد بلڈوزر سارے گند کو اٹھاتا ہے اور شہر سے باہر ’’لکھوڈھیر‘‘ لے جاتا ہے، وہاں اس سارے گند پر مٹی ڈال کر دبادیا جاتاہے۔ گھر کے کچرے سے لے کر TCPتک ہم سارے گند کو مکس کرتے جاتے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچرے کی ویلیو ختم ہوجاتی ہے۔

یادرکھیں کہ کچرے کی اپنی اہمیت ہے، کوئی اس کو جلاتا ہے اور کوئی ری سائیکل کرنا چاہتا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ کچرا جمع کرنے کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر گھروں سے ہی کچرا الگ الگ کر کے مختلف رنگوں کے شاپر میں LWMCکے حوالے کریں تو اس کو بڑی آسانی کے ساتھ ڈمپ یا ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔

(4) کچرے کا مفید استعمال

کچرے کے مفید استعمال کے لیے دنیا میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ LWMC پہلے سے کچھ طریقوں پر عمل پیرا ہے اور دیگر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ کچھ ٹن کچرا ایک مشین میں ڈال کر الگ الگ (Segregation)کرتے ہیں، یعنی پلاسٹک، لکڑی، خوراک کی چیزوں، لوہا، شیشہ وغیرہ کو علیحدہ کر کے کاٹ کر ہوا میں خشک کیا جاتا ہے۔

اس کو پانی لگاتے ہیں، پھر سکھاتے ہیں، پھر پانی لگاتے ہیں تاکہ وہ Decompose ہو جائے، اس سے ’’بیلیا‘‘ نامی کھاد تیار کی جاتی ہے۔ اس میں سبز کچرے (کچن کا کچرا) کو شامل کر کے کھادکی اثرپذیری بہتر کی جاتی ہے۔

دنیا میں کچرے کو توانائی کے حصول (Waste to Energy)کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ LWMC نے اس مقصد کے لیے کئی کمپنیوں سے رابطے کے بعد ENATE سے معاہدہ کیا ہے۔

یہ کمپنی روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے 60 سے 70 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے نرخ واپڈا سے کم ہیں، یہ کمپنی 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے جو بجلی پیدا کرے گی وہ مقامی سطح پر استعمال کی جائے گی۔ ’’سندر انڈسٹریل اسٹیٹ‘‘، ’’میٹرو ٹرین‘‘ اور ’’قائداعظم نالج پارک‘‘ کو یہ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں اس ضمن میں چین کی کمپنی CNEEC کی مہارت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان سے بھی بات چیت ہو رہی ہے۔

ان کمپنیوں کے پاس ایسی مشینری ہے جو زیادہ درجہ حرارت میں کوڑا جلاتی ہیں، جس سے پلاسٹک کے تمام زہریلی مواد ختم ہوجاتے ہیں اور وہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ کچرے میں آنے والے گوبر کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے بائیوگیس بنا کر مقامی آبادی کو مہیا کرنے کے لیے LWMC نے دو تین کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے۔

شہر میں آلودگی کم کرنے اور صفائی کی صورتحال میں بہتری کے لیے LWMC نے دیگر اقدامات بھی کیے ہیں۔ موسم سرما میں لاہور میں سموگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اس کے لیے بڑے ٹرکوں میں پانی بھرکر سڑکوں کو دھویا گیا تاکہ سڑکیں صاف ہوں اور گند اوپر نہ اٹھے۔ سڑکوں کے درمیان بنائے گئے چھوٹے فٹ پاتھوں اور ان کے اطراف میں ٹریفک کی وجہ سے بہت زیادہ گرد جمع ہو گئی تھی، جسے خاص طور پر صاف کرایا گیا۔

لاہور کی مرکزی سڑکوں جیسا کہ ایم ایم عالم روڈ، مال روڈ، فیروزپور روڈ اور کنال روڈ کو ہر رات دھویا جاتا ہے تاکہ کچراکم سے کم ہو۔ ان شاہراؤں پر صفائی کے لیے ’بائیک اسکواڈ‘ بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

یہ کارکن ہوا میں اڑتے شاپروں، خالی ڈبوں اور دوسرے کچرے کو اٹھاکر بائیک میں لگی ڈسٹ بن میں ڈالیں گے تاکہ یہ کچرا آلودگی کا باعث نہ بنے اور لوگوں کو آگاہی بھی ملے کہ کچرا ڈسٹ بن میں ہی پھینکیں۔

ویکیوم گاڑیوں کے ذریعے خشک پتوں اور دیگر کچرے کو صاف کرنے کا پراجیکٹ بھی شروع ہونے والا ہے۔ ’’محمود بوٹی‘‘ کچرا گھر کو کو مٹی سے ڈھک دیا گیا ہے، اب ادھر سیکڑوں پودے لگا کر اسے سرسبز بنایا جائے گا۔

’’صرف کچرا اٹھا لینا کوئی کمال نہیں‘‘ علی عنان قمر

علی عنان قمر بیوروکریٹ اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ شہر کی صفائی اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق پرجوش ہیں۔ اپنے تجربات اور درپیش چیلنجز کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:

’’پنجاب کے تین اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے کام کیا، وہاں ہم محدود دائرے میں کام کرتے، کیوں کہ ہمارے پاس دو اڑھائی سو بندوں کا اسٹاف تھا جس سے ہم نے پورا شہر صاف کرنا ہوتا۔ جب لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی میں آیا تو مجھے بتایا گیا کہ ہم پانچ ہزار ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر اٹھا رہے ہیں۔

ایک دن میں نے پوچھا کہ یہ سارا کوڑا جاتا کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے پاس اس مقصد کے لیے دو مقامات ہیں۔

پہلے لاہور کے نواح میں واقع ’’محمود بوٹی‘‘ کے علاقے میں ایک جگہ اس کوڑے کو پھینکا جاتا تھا، اب اس مقصد کے لیے ’’لکھوڈھیر‘‘ ہے۔ مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پہنچ کر کچرا دیکھا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

مجھے بتایا گیاکہ یہاں کم و بیش 19 ملین ٹن کچرا پڑا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں ان دونوں سائٹس پر جتنا کچرا جمع ہوا، وہ سب ہم نے اکھٹاکرکے رکھا ہوا ہے۔

’’لکھو ڈھیر‘‘ کھدائی کرائی تو تین چار فٹ نیچے تک بھی پلاسٹک بیگز اور پیمپرز ویسے کے ویسے پڑے ہوئے ملے۔

اس سارے منظر کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ فقط کوڑا اٹھانا کوئی کمال نہیں، کیوں کہ وہ تو مجھ سے پہلے آفیسرز بھی اٹھاتے رہے اور میرے بعد آنے والے بھی یہی کام کریں گے لیکن اس کچرے کو ٹھکانے کیسے لگانا ہے؟کیوں کہ کچرے کے اس پہاڑ سے میتھین گیس پیدا ہو رہی ہے۔

میتھین گیس کے متعلق دنیا میں جو قابل قبول معیار ہے، ’’لکھوڈھیر‘‘سائٹ کے تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں سے چھ گنا زیادہ میتھین گیس پیدا ہو رہی ہے جو ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ چیز نہ صرف لاہور کے ماحول کو خراب کر رہی ہے بلکہ پورے ملک اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

دوسری بات یہ کہ ’’لکھوڈھیر‘‘ میں کچرے کے پہاڑوں سے جو پانی رس رہا ہے وہ انتہائی غلیظ، کالا اور زہریلا ہے، جو زیر زمین جاکر صاف پانی میں مل رہا ہے۔

ہم اگر یہ سوچ کر مطمئن ہو جائیں کہ ’’لکھوڈھیر‘‘ کا پانی زہریلا ہے اور اقبال ٹاؤن کا صاف ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔کیوں کہ زہریلاپانی زیر زمین سفر کرتا ہے اور صاف پانی میں مل جاتا ہے۔

ہم اس پانی میں موٹریں لگا کر دوبارہ سے کچرے پر اسپرے کر رہے ہیں تاکہ یہ زہریلا پانی زمین میں جانے کے بجائے کچرے میں جائے اور زمین کا صاف پانی اس سے محفوظ رہے۔

ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنے لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی نہیں فراہم کر رہے اور نہ ہی ہماری عادات تبدیل ہو رہی ہیں۔ کیوں کہ صرف کوڑا اٹھا لینا کوئی کمال نہیں، آبادی میں اضافے کے ساتھ کچرا بھی بڑھتا جائے گا۔ ہمارے پیش نظر یہی مقصد تھا کہ ہماری کمپنی کانام ’’لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی‘‘ ہے لیکن ہم اتنے زیادہ کوڑے کا مناسب بندوبست نہیں کر رہے۔

اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو مستقبل میں اس مسئلے سے نمٹنا مشکل تر ہو جائے گا۔ چنانچہ ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ کے متعلق ہم نے تحقیق شروع کی اور یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں۔ آسٹریلیا اور جنوبی امریکا کے ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ نظام پر خاص توجہ دی۔

یہیں سے ہمیں کچرے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پراستعمال ہونے والے طریقہ کار اور اصطلاحات کا علم ہوا۔ جس کی روشنی میں ہم یہاں بھی مختلف اقدامات کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے ان کامیاب ماڈلز کو اپناتے ہوئے ہم بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے جدید طریقے اختیار کریں۔ اس طرح نہ صرف موجودہ صورتحال میں بہتری آئے گی بلکہ مستقبل میں بھی اس مسئلے سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔