کینیڈا میں گزرے وقت نے مجھے بے خوف اور آزاد انسان ہونے کا احساس دلایا

مدثر بشیر  اتوار 19 مارچ 2023
 اپنے کینیڈا میں قیام کے دوران میں نے کہیں سگنل کی خلاف ورزی نہیں دیکھی، کینیڈا کے سفر نامے کی آخری قسط ۔ فوٹو : فائل

اپنے کینیڈا میں قیام کے دوران میں نے کہیں سگنل کی خلاف ورزی نہیں دیکھی، کینیڈا کے سفر نامے کی آخری قسط ۔ فوٹو : فائل

آخری قسط

نوکریوں کا میلہ اور ڈاؤن ٹاؤن

اگلی صبح 7 نومبر تھی۔ آنکھ کُھلی، کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا تو ہر سُو سڑکوں اور گاڑیوں کی چھتوں پر برف کی ایک دبیز تہہ بچھی ہوئی دیکھی۔ کئی منٹ میں کھڑکی میں کھڑا برف سے ڈھکے ماحول کو دیکھتا رہا۔ طارق صاحب اور شمائلہ بھابھی دونوں اپنے اپنے کام سے چھٹی پر تھے اور اُنہوں نے اُس روز ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن میں ایک مشہورہوٹل پر Job Fairکے لیے جانا تھا۔

گھر سے تقریباً 2 بجے نکلنا تھا۔ میں اور طارق صاحب ناشتے کے فوراً بعد ناولٹ ’’کون‘‘ لے کر بیٹھ گئے تاکہ لاہور واپسی سے قبل اُن کے ساتھ بیٹھ کر اسے مکمل پڑھ سکوں۔

ابھی ہمیں بیٹھے کچھ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ گھر کے تمام موبائل فون سیٹوں پر ایک ہی طرح کے الارم بجنے کی آواز آئی۔

میں نے اُن سے پوچھا تو پتا چلا کہ ہمارے اس علاقے میں کہیں دو بچے اپنے گھر سے اِدھر اُدھر ہو گئے ہیں، اس الارم کے ساتھ اُن سے متعلق کوئی اطلاع دینے اور دیگر تفاصیل کا ایک مکمل Text messageتمام موبائل پر آیا ہوگا۔ اور جیسے ہی وہ بچے ملیں گے تو اُن کے ملنے کی خبر بھی اسی طرح پہنچا دی جائے گی۔

دوپہر دو بجے تک بغیر کسی وقفے کے ہم دونوں کتاب کو آدھے سے زائد پڑھ چکے تھے۔ دو بجے ہم تینوں ٹورنٹو شہر کی جانب نکل پڑے۔ دن کی بھرپور روشنی میں تمام شہر اُجلا اُجلا دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ جگہوں سے رات کو پڑنے والی برف ہٹائی جاچکی تھی اور کچھ جگہوں سے ہٹائی جا رہی تھی۔

ہم لوگ جب سڑک پر پہنچے تو شدید ترین ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ سڑک پر بچھی پٹڑی پر الیکٹرک ٹرین بھی رواں دواں تھی اور یہاں پرسڑکوں پر گھومتے پھرتے لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی دکھائی دی۔ ہمارے ہاں لاہور میں رائٹ ہینڈ ڈرائیو (Right hand drive) کا نظام موجود ہے جبکہ دُنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح کینیڈا میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو (Left hand drive) ہے۔

اپنے ہاں سڑک پار کرتے ہوئے ہم ہمیشہ دائیں جانب دیکھتے ہیں لیکن ادھر بائیں جانب دیکھنا پڑتا ہے۔میری زندگی ابھی باقی تھی کہ میں مخالف سمت میں سڑک کراس کرنے لگا تو طارق صاحب نے مجھے تیزی سے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کو کھینچا کیونکہ اُسی لمحے ایک ٹرین تیزی سے ایک آدھ فٹ کے فاصلے سے گزری۔ چونکہ ٹرین کی پٹڑیاں سڑک کے اندر دھنسی ہوئی تھیں۔

اس لیے اُن کے ہونے کا احساس بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن اس تمام واقعے کو طارق صاحب اور شمائلہ جی نے ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ ختم کر دِیا جو اُن کے لاہوری ہونے کی دلیل تھی جو بڑی سے بڑی بات کو انتہائی سکون کے ساتھ گزار کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ہم لوگ ہوٹل کی زمینی منزل میں داخل ہوئے تو یُوں لگا شاید چمکتے دمکتے شیشوں کی دُنیا میں آ گئے ہوں۔ یہاں بڑے بڑے برینڈز (Brands) کے آؤٹ لیٹس تھے جن میں کپڑوں کے ساتھ ساتھ گھڑیاں اور پرفیومز کے آؤٹ لیٹس (Outlets) بھی تھے۔

دل چاہا کہ کچھ نہ کچھ ضرور خریدوں لیکن Display پر لگی قیمتوں کو دیکھ کر اندر جانے کا حوصلہ نہ ہوا۔ باتیں کرتے سیڑھیوں سے تہہ خانے (Basement) کی جانب بڑھے۔تہہ خانے میں اُترتے ہوئے مجھے ایسے لگا جیسا عہد ِحاضر کی تمام اقوام وہاں پر اکٹھی ہو گئی ہوں۔

ہر رنگ و نسل کے لوگ جو پہلے سے Job Fair میں آئے تھے، وہ واپس آ رہے تھے جبکہ ہمارے ساتھ کئی لوگ نیچے جا رہے تھے۔ ایک وسیع و عریض ہال میں مختلف صوبوں کے سکولوں کی جانب سے Stall لگائے گئے تھے۔

ان میں زیادہ تر شدید سردی والے صوبوں کے سکول تھے۔ برف میں گھِرے اُن علاقوں میں کینیڈا کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اساتذہ کو مالی فوائد کے ساتھ دیگر سہولتوں کی پیشکش کی جا رہی تھی۔ ان صوبوں میں آبادی انتہائی کم ہے اورمقامی قبائل اپنی پرانی روایات کے مطابق زندگی گذارتے ہیں۔

پچھلے کچھ برسوں سے Canadian سرکار اُن کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اُن کے ساتھ یہاں پر بھی برٹش کولمبیا کی مانند خصوصاً انڈین کمیونٹی بہت ہی زیادہ سرگرم ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو ایک پنجابی کی حیثیت سے کینیڈا کے سیاسی اور سماجی اُفق پر زیادہ بھرپور انداز میں نمایاں کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اُن کو اپنے تائے (تایا) کی اولاد مانتے ہیں۔

کیونکہ جب کینیڈا میں ایک ڈیڑھ صدی قبل پنجابی آنا شروع ہوئے تھے تو اُن ہی قبائلیوں کے ساتھ تعلقات اور رشتے داریاں اُستوار ہوئی تھیں۔ شادیاں بھی ہوئیں اور بچے بھی۔ اس لیے دُنیا کے دیگر حصّوں سے آئی اقوام کی نسبت وہ ہندوستان سے آئے پنجابیوں کو زیادہ قریب مانتے ہیں۔ کچھ صوبوں میں تو وہاں کے لائسنس کی پابندی بھی نہ تھی۔

بہترین مالی پیکج کے ساتھ سال میں دو مرتبہ فضائی سفر،بغیر سُود کے گھر اور جیون ساتھی (Spouse) کو نوکری کی سہولت بھی تھی اور کچھ صوبے اُن کے بچوں کے لیے بھی مفت تعلیم کی پیشکش کر رہے تھے۔ لیکن اس کے عوض انتہائی شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

درجہ حرارت منفی45 تک جا پہنچتا ہے۔ طارق صاحب نے انگریزی اور ان کی مسز شمائلہ بٹ نے باٹنی کے حوالے سے کچھ سکولوں میں اپنی درخواستوں کے فارم بھرے اور کچھ میں بذریعہ ای میل اپنےC.V. بھیجے ۔ شمائلہ بھابھی نے میرے منع کرنے کے باوجود دو تین سٹالز پر میری بھی رجسٹریشن کرا دی۔ ہم لوگ جس سٹال پر کھڑے ہوتے،وہاں ہمیں کی چینز، بیگز، پین، ربڑ، پنسل اور ٹافیاں بھی دی جاتیں۔

کوئی دو گھنٹے بِتانے کے بعد ہم لوگ ایک بار واپس Brampton کو نکلے۔ اس دوران طارق صاحب کے نمبر پر میرے لیے ہرکیرت کور (مصنفہ ’آدم گرہن‘) کا فون آگیا۔ وہ مجھے پہلے بھی Text کر چکی تھیں کہ وہ ٹورنٹو میں میرے لیے کوئی ریڈیو اور ٹی وی انٹرویو کا انعقاد کروانا چاہ رہی ہیں۔

لیکن ہرکیرت کور کے اتنا کہنے کے باوجود بھی میں کسی بھی ریڈیو اور ٹی وی پروگرام میں نہیں گیا کیونکہ میں اپنا سارا وقت طارق مقبول ہی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ Brampton پہنچنے پر ہم لوگ پہلے وہاں سٹیشنری کی بڑی دکانوں میں سے ایک دکان STAPLE کے ڈسپلے سنٹر گئے کیونکہ مجھے اپنے کچھ دوستوں کے لیے Penخریدنے تھے اور کامران اکرم کے لیے خطاطی (Calligraphy)کی کِٹ لینی تھی۔

جس طرح کی کِٹ میں چاہ رہا تھا وہ اُدھر سے نہ ملی تو STAPLE والوں ہی نے مجھے ایک اور قریبی آرٹ سٹور Michels کی طرف گائیڈ کیا اور وہ کِٹ اُدھر سے مل گئی۔ اس کی پاکستانی کرنسی میں قیمت تقریبا ًبارہ ہزار روپے تھی۔ تاہم یہ ایک جانب سے تھوڑی سی پھٹی ہوئی تھی اور اس میں سے ایک دو Refillers بھی کم تھے۔ شمائلہ بھابھی کو ایک آئیڈیا سُوجھا۔ وہ کاؤنٹر انچارج کے پاس گئیں اور اس سے کہا کہ Refillers پورے نہیں ہیں، اس لیے آپ کو اسے کم قیمت پر دینا چاہیے۔

انچارج نے تھوڑی بحث کے بعد تیس فیصد تک قیمت کم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تاہم شمائلہ بھابھی کے اصرار پر اس نے مینجر کے پاس بھیج دیا جس سے تھوڑی دیر کی بات چیت کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پیکٹ تقریباً ساٹھ فیصد رعایت پر فروخت کرنے کی ہامی بھر لی گئی یوں بارہ ہزار پاکستانی روپے مالیت کی یہ کلر کِٹ تقریباً پانچ ہزار روپے میں خرید لی گئی۔

اب ذرا سوچئے کہ اگر پاکستان میں کوئی گاہک یہ پھٹی ہوئی کِٹ خرید لے جاتا اور اگلے دن واپس کرانے لے آتا تو اسے دکانداروں کے کتنے نخرے سہنے پڑتے، یقین دلانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے۔

جب طارق صاحب کو گھر آ کر سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ کینیڈا میں موجود بہت سے پاکستانی ایک انوکھا کام کرتے ہیں۔ یہاں پر جوتوں کی عموماً دو سال کی گارنٹی ہوتی ہے۔

ہمارے پاکستانی بھائی سال ڈیڑھ سال جوتوں کو خوب استعمال کرنے کے بعد انہیں دانستہ رگڑ کر یا کسی اور طریقے سے تھوڑا بہت خراب کر دیتے ہیں اور واپس جا کر گارنٹی کلیم کرتے ہیں تو دُکاندار بغیر کسی قسم کی بحث یا ناک بھوں چڑھائے ان پُرانے شوز کی جگہ نئے نویلے شوز تھما دیتے ہیں جن کی گارنٹی بھی دو سال کی ہوتی ہے۔

پاکستانی بھائی ایک بار دو تین جوڑے خرید لیں تو اس ’فنکاری‘ سے کام لینے کے باعث انہیں اگلے آٹھ دس سال نئے جوتے خریدنے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی۔

کینیڈا میں گزری آخری رات

میں کس طرح یہاں آیا، یہ دن کس طرح گزرے، جتندر ہانس، اس کا بھائی دیوندر، بارج، فیملی، میری ماسی نشا،اُن کے گھر والے، ڈاکٹر رگھبیر سنگھ کے ساتھ ظہرانے، ہر کیرت کور جی کا بے پناہ خلوص … ان سب کے چہرے میری نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔

ان دِنوں میں کسی طرح ہرِندر کور ڈھاہاں تمام معاملات کو دیکھتی رہیں اور پھر کس طرح ہرکیرت جی اس کوشش میں رہیں کہ میرے دل میں کبھی یہ بات نہ آئے کہ جتندر زیادہ خاص ہے کیونکہ وہ مشرقی پنجاب سے آئے ہیں۔

زندگی آپ کو گھماتی پھراتی کس طرح کہاں سے کہاں تک لے آتی ہے، انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہم تو شاید محض قدرت کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں ہیں کہ کون جانے کس کو کس وقت کہاں ہونا ہے۔

نومبر سے قبل اگست 2019ء تک میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میںاس طرح کینیڈا آؤں گا۔ جب کبھی لاہور میں اولے پڑتے تو ہم کہتے کہ ’’گڑا پے رہیا اے۔‘‘چہروں پر ایک خاص طرح کی خوشی ہوتی کہ صحن اور چھت برف سے بھر گیا ہے اور یہاں کھڑکی کے باہر مسلسل برف گر رہی تھی جس کے باعث گاڑیوں کی چھتیں سفید ہو رہی تھیں۔ سٹریٹ لائٹس کی رومانوی روشنی ایک عجب نظارہ پیش کر رہی تھی۔

میں ان ہی سوچوں میں گُم جیکٹ اور جاگرز پہن کرنیچے اُترا اور طارق صاحب سے کہا کہ میں کچھ دیر اس گلی میں پیدل چلنا چاہتا ہوں۔ رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے۔ میں نے جیکٹ، کیپ اور گلوز پہن کر آہستہ آہستہ گلی کے دو تین چکر لگائے۔ پندرہ منٹ بعد طارق صاحب بھی آ گئے۔ ہم دونوں کچھ دیر خاموش چلتے رہے اور اُس کے بعد کچھ دیر تک مجھے کینیڈا میں فیملی سمیت منتقل ہونے پر قائل کرتے رہے۔

پچھلے ایک ہفتہ سے یہ باتیں وہ اشارتاً کر رہے تھے لیکن اُس وقت تو کُھل کر کہہ ڈالا۔ میرے پاس اُس وقت کسی بھی بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ مجھے تو بس اگلے دن لاہور کے لیے جانا تھا اور لاہور میرے لیے کبھی بھی ایک جنون اور عشق سے کم نہیں رہا۔ کچھ دیر باہر مزید چہل قدمی کے بعد ہم لوگ گھر واپس آگئے۔

اس دوران طارق صاحب کے فون پر ہرکیرت کور چاہل کا پیغام آیا ہوا تھا کہ اپنی کوئی نظم پڑھتے ہوئے ویڈیو بنا کر بھیج دیں۔ میں نے ان کی فرمائش پر ثمینہ حسن سید کی وفات کے بعد اُن کو خراج تحسین کے لیے ایک نظم لکھی تھی۔ نظم کی ریکارڈنگ کروانے کے بعد میں نے واٹس ایپ پر وہ نظم اپنے پاکستانی اور کینیڈین دوستوں کو بھیج دی۔

کینیڈا میں آخری دن، ڈاکٹر کُل جیت اور بلجیت کور

11نومبر کی صبح کو دس بجے آنکھ کُھلی۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو سورج پُوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا لیکن گھروں اور گاڑیوں کی چھتیں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ برف کی سفیدی اور سورج کی چمک نے مل کر سارے ماحول کو سحر انگیز بنا دیا تھا، پھر دل میں یہ بھی خوشی تھی کہ آج وطن واپس روانہ ہو جاؤں گا۔ میں جب نیچے آیا تو ناشتہ تیار تھا۔ طارق صاحب کے چہرے پر اُداسی تھی۔ انہوں نے بتایا ڈاکٹر کُل جیت کی تین چار بار کال آ چکی ہے۔

یہ ہمارے ادھر ایک لکھاری دوست اعجاز کے دوست تھے۔ اعجاز نے سرگودھا کے قریب اُن کے آبائی گاؤں کو ڈھونڈ نکالا تھا اور وہاں کی کچھ تصاویر بھیجی تھیں۔ ڈاکٹر کُل جیت مجھے بطورِ خاص ملنے کے لیے آ رہے تھے۔

وہ بیچارے تو پچھلے کئی دنوں سے رابطہ کر رہے تھے لیکن میں Unknown Numberکی وجہ سے ان کی کال نہیں لے رہا تھا۔ پھر اُنہوں نے کسی حوالے سے طارق مقبول کا نمبرحاصل کرکے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔

میرا کینیڈا میں یہ آخری دن تھا جس کا ہر پل میں طارق صاحب کے ساتھ ہی گزارنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر کُل جیت کی محبت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم لوگ ناشتے سے فارغ ہو کر ایک بار پھر ناولٹ ’’کون‘‘ اور شہر لاہور پر گفتگو کرنے لگے۔

گیارہ بجے کے قریب ڈاکٹر کُل جیت بھی آ گئے۔ انتہائی ملنسار اور خوش گفتار انسان ہیں۔ چند منٹوں میں کچھ اس طرح گھل مل گئے کہ جیسے کبھی اجنبی نہ تھے۔

اُن کو ذاتوں کا بھی بہت علم تھا۔ وہ خود جنجوعہ ذات کے تھے اور یہاں پر مختلف شعبوں سے وابستہ رہنے کے بعد اب پراپرٹی (Real Estate) کا کام کر رہے تھے۔

اُن کی گفتگو میں کرتارپور کوریڈور کے حوالے سے سکھوں میں پائی جانے والی بے پناہ خوشی کا اظہار بھی تھا۔ وہ تقریباً دو گھنٹے بیٹھے، چائے، فروٹ چاٹ سے نہ صرف لطف اندوز ہوئے بلکہ بے انتہا تعریف بھی کی اور جانے سے پہلے اُنہوں نے ایک گفٹ بیگ بھی پکڑایا جس میں دو شرٹس تھیں، ایک میرے لیے اور ایک اعجاز کے لیے۔ ایک خط اور ساتھ ایک چھوٹا سا Envelope بھی تھا۔

جسے کھولا تو اُس میں 100 کینیڈین ڈالر تھے جو میں نے لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی دس منٹ کی بحث کے بعد اُنہوں نے مجھے اس بات پر قائل کر لیا کہ پاکستان میں بچوں کے لیے مٹھائی ہے۔ اُس کے بعد ایک اور انکشاف یہ بھی ہوا کہ یہاں پر جب ہندوستان اور پاکستان سے شاعر ادیب آتے ہیںتو اُن میںسے اکثریت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ادبی محافل اورمجالس میں بلایا جائے کیونکہ ہر محفل کے اختتام پر لکھاری حضرات کو میزبانوں کی جانب سے اس طرح کا Gift Hamper دیاجاتا ہے۔

جس میں 100سے500 ڈالر تک بھی میزبان حضرات اپنے مہمان کو پیش کرتے ہیں اور پھر کرنسی کی تبدیلی میں یہ پاک و ہند میں اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے مجھے ایک محبت و شفقت سے بھرپوررُقعہ بھی دیا جس پر یہ تحریر تھا:

اُردو ترجمہ:

ٹورنٹو

11 نومبر 2019ء

پیارے مُدثر بھائی

اُمید ہے کہ آپ کا کینیڈا میں قیام کے دوران وینکوور اور ٹورنٹو میں خوشگوار وقت گزرا ہوگا۔ وقت کی کمی کی تھی ورنہ میں آپ کو اپنے خوبصورت مُلک کی سیر کرانے کے لیے ضرور گُھماتا پِھراتا۔ اگلی بار آپ جب بھی آئیں تو ہم ضرور اس کا اہتمام کریں گے۔ آپ کے لیے نیک خواہشات۔

والسلام

ڈاکٹر کُلجیت سنگھ جنجوعہ

اُن کے ساتھ یہ گپ شپ چل رہی تھی کہ شمائلہ بھابھی کی ایک سکھ دوست بلجیت باربرا اپنے سسر، شوہر اور بچوں کے ساتھ مجھے ملنے کے لیے آگئیں۔

چائے اور سنیکس کے ساتھ ساتھ جب پاکستان، ہندوستان اور کینیڈا کے سماجی معاملات پر بات چیت ہوئی۔ ڈاکٹر کُل جیت کچھ دیر اُن کے ساتھ بھی گپ شپ کرتے رہے پھر وہ اجازت لے کر چلے گئے۔ بلجیت کے شوہر اور سُسر بڑے ہی جذباتی انداز میں مجھ سے لاہور کی باتیں کرتے رہے۔ اس طرح محسوس ہوتا تھا کہ دھرتی پر اگر کوئی سورگ اُن کے لیے ہے تو وہ شہر لاہور ہے۔ آج رات دس بجے میری فلائٹ استنبول کے لیے تھی۔ ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا۔

چار بج رہے تھے اور مجھے گھرسے تقریبا ً چھ ساڑھے چھ بجے نکلنا تھا۔طارق صاحب نے بتایا قریب ہی ایک مشہور فوڈ چین POPEY واقع ہے جہاں سے حلال بروسٹڈ چکن لینا ہے اور ایک شاپنگ مال سے دو منٹ کی کچھ خریداری بھی کرنی ہے۔

ہم دونوں باہرنکلے تو برف کی پھواریںپڑ رہی تھیں۔ چند منٹوں میں ہم چکن شاپ پر پہنچ گئے۔ وہاں سے پاکستانی چار ہزار روپے کی ڈیل میں اتنا کچھ تھا جو ہم لوگ یہاں KFCاور Mcdonalds کی دو یا تین Deals میں سات آٹھ ہزارروپے تک میں حاصل کرتے ہیں۔اُس کے بعد ایک بہت بڑے شاپنگ پلازہ میں رُکے۔

6بجے کے قریب طارق صاحب باہر نکلے ، گاڑی کو دیکھا تو اُس کے ٹائر برف پر چلنے سے انکاری تھے کیونکہ اس صوبے میں نومبر آتے ہی گاڑیوں کے ٹائر تبدیل کر کے برف پر نہ پھسلنے والے ٹائر لگا دیئے جاتے ہیں اور گرمیوں میں پھر تبدیل کر کے نارمل ٹائر لگا دیئے جاتے ہیں۔

اُن کے گھر کے تہہ خانے میں کچھ لڑکے کرائے پر رہتے تھے جن میں سے ایک سکھ لڑکا اپنی گاڑی کو بطور UBER بھی استعمال کرتا تھا اور باجے پر ریاضت بھی کرتا تھا۔ میں ایک ہفتے میں دیگر کاموں میں اتنا مصروف رہا کہ اُس کا گانا بھی نہ سُن سکا۔

طارق صاحب نے اُس کی گاڑی لی۔ سامان ڈِگی میں رکھا اور پھر میں طارق صاحب، بھابھی اور سب سے چھوٹی بیٹی Jennyبھی ساتھ ہو لیے۔ سڑکوںپر برف کی تہیں جمتی جا رہی تھیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے پہلے ہی نمک سڑکوں پر پھیلادیا جاتا ہے جس کے باعث برف جمتی نہیں پھر بھی رش کافی زیادہ تھا۔ خیر ہم لوگ باتیں کرتے ہوئے تقریباً 45منٹ میں ایئرپورٹ پہنچے۔ شام کے سات بج رہے تھے اور فلائٹ نے دس بجے روانہ ہونا تھا۔

میں اُن سے باتیں کرتا رہا اور طارق صاحب مجھ سے نظریں چراتے رہے کیونکہ ہر بار اُن کی آنکھیں بھر آئی ہوتی تھیں۔ جب میں بورڈنگ کی جانب بڑھا اور اُن سے ملا تو پھر وہ تھم نہ سکے۔ ایک اُستاد، باپ، بھائی، دوست کتنے ہی رشتے اُن کے ساتھ تھے لیکن میں نے مکمل طور پر اپنے آپ کو سنبھالے رکھاکہ کہیں میں بھی اپنے جذبات نہ روک سکتا تو میرے جانے کے بعد وہ مزید دُکھی رہتے۔ کیونکہ جب سے وہ کینیڈا آئے تھے ،میں پہلا شخص تھا جو لاہور سے اُن کے گھر آ کر رہا تھا۔

ساڑھے نو بجے کے قریب میں جہاز میں اپنی سیٹ پر پہنچ چکا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک بار پھر سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی لیکن ہماری فلائٹ 10بجے کے بجائے 10:45 پر چلی کیونکہ ملازمین مسلسل جہاز کے پروں سے برف صاف کر رہے تھے۔

میرے ساتھ والی دونوں سیٹوں پر براجمان انگریز مسافروں نے شاید پہلے ہی سے شدید تھکاوٹ کے باعث آنکھیں مُوند لی تھیں۔ انتظامیہ کی جانب سے کھانا آنے تک وہ دونوں سو چکے تھے۔ ٹرکش ایئرلائنز کی ایئرہوسٹس میں ترک خواتین کے ساتھ انگریز خواتین بھی تھیں۔

کھانا کھانے کے بعد میں نے بھی دوسرے مسافروں کی مانند آنکھیں بند کیں تو کینیڈا میں گزرے شب و روز میری نظروں کے سامنے ایک پروجیکٹر پر چلتی فلم کی مانند گھومنے لگے اور ایک احساس بار بار میرے دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا کہ کینیڈا نے مجھے بتایا کہ میں ایک آزاد انسان ہوں جس کے کچھ فرائض بھی ہیں اور کچھ حقوق بھی، اور فرائض کی ادائیگی کے بعد آپ کو ایک مکمل آزاد اور بے خوف انسان ہونے کا احساس ہوتا ہے۔

مختلف جغرافیائی حالات، مختلف تعلیمی اداروں، رنگ و نسل اور مذاہب سے آئے لوگ کس طرح مل جل کر اپنے اپنے ثقافتی اور مذہبی ورثے کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ اپنے دیس میں اگر ہم کسی کو گاڑی کی غلط پارکنگ یا اسی طرح کی کوئی اور نشاندہی کریں تو ایک جھگڑے کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔

کینیڈا میں میرے دو ہفتے سے زائد کے قیام میں مَیں نے دو صوبے B.C اور Ontario دیکھے۔ اس دوران کہیں پر بھی کسی شخص کو ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے نہ دیکھا۔ کسی بھی جگہ پر کرپشن اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف الیکٹرک سلائیڈ اور فلیکسز بھی نہ دیکھیں۔ ان کا اپنا نظام اتنامضبوط ہے کہ آپ اپنی کسی بھی قِسم کی سرگرمیاں سرکار سے نہیں چھپا سکتے۔ آپ ٹیکس کسی بھی طور پر نہیں بچاسکتے۔ وہاںپر ایک محاورہ بہت مشہور ہے۔

Death and tax are ultimate.

کسی بھی سڑک یا شاپنگ پلازے پر کوئی لڑائی جھگڑا نہ دیکھا۔ کسی بھی ٹریفک سگنل پر پولیس والا نہ دیکھا کہ وہ ٹریفک کنٹرول کرے۔ لوگوں میں اس بات کا پہلے ہی سے شعور موجود ہے اور جرمانے اور لائسنس کینسل ہونے کا خوف الگ ہے۔

میں نے بھی اپنی سیٹ لمبی کی اور آنکھیں مُوند کر سو گیا۔ کوئی چار گھنٹے بعدآنکھ کُھلی جب انتظامیہ کی جانب سے ایک بار پھر چائے اور کھانے کی اشیاء پیش کی گئیں۔

دس گھنٹے کی طویل فلائٹ کے بعد استنبول ایئرپورٹ پر اُترے۔ یہ بھی ایک وسیع و عریض ایئرپورٹ تھا۔ سامان کی چیکنگ اوردیگر مراحل کے بعد اگلا مرحلہ اپنے فلور پر پہنچنا تھا جو تقریباً بیس منٹ مسلسل الیکٹرک سٹیئرزاورالیکٹرک پاتھ پر بھاگتے ہوئے طے ہوا۔

وہاں پتا چلا کہ ایئرپورٹ کی یہ عمارت محض چند برس میں تعمیر کی گئی ہے۔ جس میں ہر طرح کی جدید سہولت موجود تھی اور اسے تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

استنبول سے لاہور اپنے گھر

محض استنبول کے ایئرپورٹ اور اُس کے بھی صرف ایک فلور سے ہرگز ترکی(جس کو اب سرکاری سطح پر ترکیہ کا نام دیا گیا ہے) کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن بظاہر عمارت، سٹورز، ملازمین کے لباس اور وضع قطع یہ سب انتہائی مہذب، پڑھے لکھے اور جدید طرز زندگی کے غماز تھے۔

جب فلائٹ میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ رہ گیا تو ہمارے گیٹ کی waiting پر ہماری فلائٹ کا سٹاف بھی آگیا ۔ تمام لوگ ایک قطار میں کھڑا ہونا شروع ہو گئے اور یہاں پر بھی بزرگ، بیمار حضرات کے ساتھ بزنس کلاس کے لیے الگ سے کاؤنٹر تھا۔

اکانومی کلاس کی قطار کافی طویل تھی۔ میں اس دوران شمائلہ بھابھی کے دیئے ہوئے بسکٹس اور چپس سے پیٹ پوجا کرتا رہا۔ جب جہاز کی جانب چلے تو سیدھا گیٹ ہی سے جہاز میں داخل ہو گئے حالانکہ میری شدید خواہش تھی کہ استنبول کی سرزمین پر کھلی ہوا میں کچھ دیر سانس لے سکوں لیکن ایسانہ ہوا۔ اس مرتبہ مجھے کھڑکی کی جانب سیٹ نہ ملی بلکہ جہاز کے درمیانی حصے میں موجود چار سیٹوں والی بائیں جانب کی سیٹ تھی اور میرے ساتھ ایک اُدھیڑ عمر کی خاتون اور اُن کے ساتھ اگلی دو سیٹوں پر دو درمیانی عمر کی خواتین بیٹھ گئیں۔

فلائٹ کے ٹیک آف کرنے تک اوکاڑہ شہر کے نزدیک سے یہ تینوں خواتین آپس کی کئی رشتہ داریاں نکال چکی تھیں۔ پنجابی بولی، دیہاتی لہجے کے قہقہے اور جب وہ اگلی سیٹوں پر بیٹھے بچوں کے ساتھ خاص امریکی اور انگریزی لہجے میں انگریزی بولتیں تو کئی سوال بھی دماغ میں سر اُٹھاتے۔ ماں بولی اور پھر انگریزی بولی کا تمام دُنیا پر اثر۔

میرے دائیں جانب کی سیٹوں پرچند درمیانی عمر کے پاکستانی سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی اکثریت کو خاص قسم کی پیاس لگ گئی اور جب تک ایئرہوسٹس نے اُن کو مشروبِ خاص پلا نہ دیا، اُن کو قطعاً چین نہ آیا۔ ہمارے جہاز کی بزنس کلاس میں کچھ انگریز مسافر تھے باقی تمام جہاز پاکستانی مسافروں پر مشتمل تھا۔

میری ساتھی خواتین اپنی گفتگو میں محو تھیں۔ میں نے کانوں میں ہینڈفری لگائی اور میوزک سنتا سنتا سو گیا۔ آنکھ اُس وقت کھولی جب جہاز کے لینڈ کرنے سے کچھ قبل تک کی اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد میں بھی اپنی سیٹ سے اُٹھا۔ ہینڈ کیری کو سنبھالا۔ مسافروں نے کھڑکیوں سے کور ہٹا دیئے تھے۔ لینڈ کرنے سے قبل ہی لوگ کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو فضا میں ایک جانب امرتسر اور دوسری جانب لاہور کے مضافات دکھائی دے رہے تھے۔ جیسے جیسے جہاز زمین کے قریب ہو رہا تھا، مناظر اور واضح ہوتے جا رہے تھے۔

کچھ ساعتوں کے لیے کینیڈا جانے اور واپس آنے کے مناظر آنکھوں میں گھومے۔ مسافر خواتین میں سے اکثریت نے میک اپ کِٹز(kits) نکال کر اپنے آپ کو سیٹ میٹ کرنا شروع کردیا۔ فائنل اناؤنسمنٹ کے پانچ منٹ بعد طیارہ لاہور کی سرزمین پر لینڈ کر گیا اور اُس کے ساتھ ہی استنبول ایئرپورٹ پر نظم و ضبط سے بھر پور مسافروں نے اپنے ایئر پورٹ پر ایسی بھگدڑ مچائی کہ کمال ہوگیا۔

لاہور میں صبح کے سات بج رہے تھے۔ جہاز کے لینڈ کرنے کے بعد تمام مسافر سیدھا جہاز ہی سے سامان کی وصولی کی جانب گئے۔ ہمارے جہاز سے پہلے ایک عمرے کی فلائٹ بھی آئی ہوئی تھی۔ اُس کی وجہ سے انتظار گاہ بالکل لاری اڈے کا منظر پیش کرنے لگی۔

کوئی چالیس منٹ کے انتظار کے بعد مجھے میرے اٹیچی کیس ملے۔ جب نیچے آئے تو امیگریشن کاؤنٹر پر پاکستانی اور غیرملکی کاؤنٹر کے علاوہ ہائی ٹیکس پیئر (High Tax Payer) کاؤنٹر بھی دیکھنے کو ملا جہاں کوئی بندہ نہ تھا۔ بیرون ملک دیکھا کہ اُن کے شہریوں کے لیے وی آئی پی پروٹوکول تھا اور ہم لوگوں کے لیے الگ سے معاملہ تھا اور اپنے ملک میں بھی یہ کمال دیکھا کہ غیرملکی مسافروں کے لیے وی آئی پی پروٹوکول اور مسافروں کا لہجہ بھی تحکمانہ سا تھا اور پاکستانی مسافروں کے لیے چار پانچ کاؤنٹر تھے جہاں لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے تھے ۔

اردگرد کچھ مسافر اپنی خاص جان پہچان کے باعث جلد باہر جاتے بھی دیکھے۔ سامان سکین ہوا اور میرے کاؤنٹر والے صاحب نے خوش دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے بورڈنگ کارڈز دیکھے اور امیگریشن کی Manual Stamp لگا کر باہر جانے دیا۔

باہر گیا تو سامنے ہی میرے گھر سے بہت سے افراد مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن میرے دفتر سے کوئی بھی نہ تھا۔ 2011ء میں جب میں کراچی لٹریری فیسٹیول سے واپس لاہور آیا تو میرے بچپن کے یار بیلی اور والڈ سٹی آفس کے کئی دوست بمعہ ڈھول والوں کے آئے ہوئے تھے۔ شاید ہیڈ آفس میں موجود لوگوں کے لیے یہ Activity کوئی ایسی پسندیدہ نہ تھی اور اُن کی دفتری ترجیحات میں کسی ادبی امتیاز حاصل کرنے کو ستائش کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

میں بھائی کی گاڑی میں بیٹھا۔ دوسری دو گاڑیوں میں میری مسز، بچے اور بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں تھے۔ صبح کے نو بج چکے تھے۔ جب میں گھر پہنچا، میرے گھر میںداخل ہوتے ہی ڈھول بجائے گئے۔

والد، والدہ اور دیگر گھروالوں نے پھولوں کے ہار پہنائے اور اندر جانے تک کا تمام راستہ پھولوں کی پتیوںسے بھر دیا۔ لاہور میں 12نومبر کی تاریخ تھی کیونکہ کینیڈا اور تُرکی میں سورج نکلنے اور غروب ہونے کا کئی گھنٹوں کا فرق ہے اور یوں ڈھاہاں فائنلسٹ2019 کے ایوارڈ کے حصول کے لیے کیا گیا یہ سفر کئی سہانی یادوں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔

برٹش کولمبیا میں بارج اور ہرِندر کور جی کی بے مثال مہمان نوازی، پریم مان جی کی ڈرائیونگ، جتندر کی خاموشیاں اور معصومانہ حرکات،دریائے فریزر کے کنارے پر زرد سنہری پتوں کی دبیز تہیں اور اس کے بعد اونٹاریو (Ontario) میں طارق صاحب اور شمائلہ بھابھی کے ساتھ گزرے خوشگوار دِن، ٹورنٹو کی برف باری،نیاگرا فالز کا جنت نظیر حُسن،بریمپٹن(Brampton) کی طویل سرد اور گہری سیاہ راتوں میں ٹمٹماتے گلی میں نصب سٹریٹ لیمپس کی رومان پرور روشنیاں اور ہرکیرت کور چاہل کے قہقہے ذہن پر ہمیشہ نقش رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔