بچوں کی معصومیت خطرے میں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 14 جون 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

بچے معصوم و بے گناہ ہوتے ہیں، اس پر کسی ذات، مذہب، فرقہ، قوم و ملک میں دو رائے نہیں پائی جاتی۔ بچے معاشرے اور خصوصاً خاندان میں پودوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے اور گھروں کا ماحول خوشگوار رہتا ہے، بہت سے لڑائی جھگڑے اور رنجشیں پیدا نہیں ہوتیں یا پھر طول نہیں پکڑتی ہیں۔ بچے مذہبی، سیاسی، علاقائی، سرحدی، سیاسی و معاشی تنازعات، لڑائیوں اور تقسیم و تفریق کا کوئی تصور نہیں رکھتے ہیں نہ فریق ہوتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی عالمی ادارے بھی وجود میں آئے ہوئے ہیں جو دنیا بھر میں ان کے حقوق اور مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔ سب کے باوجود ہر مہذب معاشرے میں بچوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کیا جاتا ہے، ان کی تکلیف و پریشانی دیکھ کر بلبلا اٹھتے ہیں، ان کی معصومانہ حرکتیں دیکھ اپنے اور غیر سب محظوظ ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود عالمی سطح سے لے کر ملکی اور معاشرتی سطح تک بچوں کے ساتھ زیادتی، ظلم و جبر اور سفاکی کا رویہ عام ہے۔ جنگوں، فسادات، قحط و دیگر قدرتی آفات میں بھی بچے سب سے زیادہ اور ناحق طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ چائلڈ لیبر، بانڈیڈ لیبر، گداگری، بچوں کی اسمگلنگ، ان کا اغوا، تاوان، فروخت، قتل، جنسی تشدد اور لڑائیوں پر صلح کے لیے مخالفین کے حوالے کردینے کا سلسلہ، ہمارے ملک میں تو منظم طور پر استوار ہے۔

اس مسئلے پر حکومتی سماجی اداروں کی بے حسی اور بے اعتنائی مجرمانہ قسم کی ہے۔ بچے کیونکہ ووٹ بینک نہیں رکھتے اس لیے حکومت، سیاسی و سماجی جماعتیں ان کے قانونی و سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے منظم طور پر کوششیں نہیں کرتیں البتہ ان کے نام پر ان کی تصاویر شایع کرکے اشتہار بازی سے زکوٰۃ، خیرات، فطرہ، چندے، اعانتیں بڑے پیمانے پر وصول کی جاتی ہیں۔ سال بھر بچوں کے یتیم خانوں، مدرسوں اور دیگر رفاہی کاموں کے نام پر چندے کی وصولی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

بچوں کے حقوق کے استحصال اور زیادتی کا سلسلہ حکومتی اور معاشرتی سطح کے علاوہ خاندانوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے، ان کے احساسات و جذبات کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، نہ ان پر غور کرنے اور بچوں پر توجہ دینے کا والدین کے پاس وقت ہوتا ہے۔ وہ بڑی شہرت اور نام کے حامل تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کرواکر اور مادی آسائشات فراہم کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں حالات کی بھٹی سے ان کا بچہ کندن بن کر نکلے گا۔ یہ رویہ اولاد اور ماں باپ کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کمسن بچوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

دو سال قبل ایبٹ آباد کے ایک اسکول کے ہاسٹل میں رہائش پذیر کمسن بچے کی خودکشی کا واقعہ پیش آیا تھا، جس نے خودکشی سے پہلے اپنی ماں کو آخری خط میں تحریر کیا تھا کہ وہ ’’اس کی موت پر زیادہ نہ روئے، وہ ہاسٹل نہیں جانا چاہتا تھا اس لیے خودکشی کر رہا ہے۔ دنیا سے بہت پیار تھا لیکن اسے چھوڑنے پر مجبور ہے۔ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو کبھی ہاسٹل نہ بھیجا جائے۔ اس کی الماری میں رکھی ڈائری میں مزید تفصیلات ہیں، جب ڈائری کھولی گئی تو اس میں تحریر تھا کہ اسکول میں اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ کلاس میں اردو بولنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔‘‘ والدین اور اساتذہ دونوں کی توجہ اور شفقت سے محروم اس بچے کا یہ آخری خط تمام والدین اور اساتذہ کے خلاف چارج شیٹ ہے۔

بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور استحصال پر بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ فریق ہے۔ یہاں ڈیڑھ سال سے 6 سال تک کے بچوں پر دہشتگردی، قتل، اقدام قتل اور زمینوں پر قبضے کے مقدمات قائم کرنے کے واقعات متعدد بار پیش آچکے ہیں، انھیں تعزیرات پاکستان اور حدود آرڈیننس کی دفعات کے تحت زنجیریں پہناکر عدالتوں میں پیش کیا گیا، ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ حالانکہ چلڈرن ایکٹ کے تحت 12 سال سے کم عمر بچوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس عمر کے بچے کم فہم اور اپنے فعل کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ وکیل، ڈاکٹر، صحافی، تاجر اور معاشرے میں نیک نام اور شہرت رکھنے والے افراد بھی بچوں اور کم سن ملازماؤں کے ساتھ انسانیت و حیا سوز واقعات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ان کی جان اور عزتوں سے کھیلنے کے بعد دادرسی کے طلب گار ان کے لواحقین پر اثر انداز ہوکر سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کے ناتے بچ نکلتے ہیں اور ان انسانیت سوز مظالم پر حکومتی، سیاسی و سماجی سطح پر اس قسم کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا، جیساکہ دیگر چھوٹے چھوٹے معاملات پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لیے سو بچوں کو تیزاب کے ڈرموں میں بہا دینے والے قاتل جاوید جیسے مجرموں کے چہروں پر نہ پشیمانی دیکھنے میں آتی ہے نہ ہی پریشانی، نہ جانے جاوید جیسے کتنے سفاک قاتل، گروہ اور ان کے سرپرست اس معاشرے میں کیا کیا گل کھلا رہے ہوں گے۔

گزشتہ دنوں کراچی کے شاہ نیشنل چلڈرن اسپتال کورنگی میں آکسیجن سلنڈر ختم ہوجانے اور بجلی کے تعطل کے باعث پانچ بچے لقمہ اجل بن گئے، اس اسپتال میں ٹیکنیشن ڈاکٹر سے فون پر ہدایات لے کر اینکوبیٹر یا وینٹی لیٹر کو آپریٹ کر رہے تھے جس کی وجہ سے یہ المناک سانحہ رونما ہوا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ بچوں کے امراض کے قومی ادارے کے عملے کے افراد ملی بھگت سے بچوں کو علاج کے لیے اس اسپتال ریفر کرتے تھے۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ اسپتالوں کا عملہ اور خصوصاً ایمبولینس ڈرائیورز کسی ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے تیمارداروں کو داخلہ اور ٹیسٹ کے لیے مخصوص اسپتالوں اور لیبارٹریز لے جانے کے لیے اصرار کرتے ہیں جہاں ان کا فی مریض اور فی ٹیسٹ معاوضہ یا کمیشن مقرر ہوتا ہے۔

معصوم بچوں کی ہلاکت پر روایتی طور پر مالک اور ڈاکٹر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ضرورت محسوس ہوئی تو مقدمے میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کو بھی شامل کیا جائے گا۔ حالانکہ بعید ازقیاس ہے کہ پولیس اس کی ضرورت محسوس کرے گی یا ان دفعات کو شامل کرنے میں آزاد و خودمختار ہوگی۔ جس ملک کا وزیراعظم سیٹھ کی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ جانے والے ڈھائی سو مزدوروں کی راکھ پر کھڑے ہوکر علی الاعلان ایف آئی آر سے قتل کی دفعات حذف کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہو وہاں پولیس سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس واقعے کے مرتکب ڈاکٹروں کی ڈگریاں چیک کرنے کی بات بھی کی گئی۔

اس سلسلے میں پی آئی اے کے پائلٹس اور کیپٹن کی روداد ہمارے سامنے جو اتنی بڑی تعداد میں کمرشل پائلٹ لائسنس نہ ہونے کے باوجود سالہا سال سے انسانی زندگیوں اور املاک کی قیمت پر جہاز اڑا رہے تھے ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ شیرخوار بچوں کی ہلاکتوں پر بھی یہی روایتی عمل دہرایا جائے گا، اس سانحے پر محکمہ صحت، وزارت صحت، کمشنر کراچی، گورنر اور وزیراعلیٰ نے اپنی اپنی تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کرکے 24 گھنٹے اور تین دنوں میں رپورٹیں طلب کرلی ہیں۔ محکمہ صحت کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں تمام بچوں کو پیدائشی طور پر مختلف امراض کا شکار قرار دے کر ان کی ہلاکتوں کو طبعی قرار دے دیا ہے۔

دیگر کمیٹیوں کی جانب سے آنے والی رپورٹوں پر بھی یہی قیاس ہے کہ دیگر قومی سانحات کی طرح یہ رپورٹیں بھی صرف سرکاری ردی میں اضافے کا سبب ہی بنیں گی۔ لواحقین کا حکومت اور سیاسی و سماجی تنظیموں اور شخصیات اس معاملے پر انصاف کی توقع رکھنا، ان سے اپیلیں کرنا اور ان کے سامنے گڑگڑانا بے معنی و سعی لاحاصل ہوگا۔ البتہ کم ازکم والدین اور انسانیت دوست ارباب خیر کو بچوں سے متعلق ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خاتمے کے لیے اپنے تئیں انفرادی اور اجتماعی کوششیں ضروری کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں شیرخوار بچوں کے لواحقین اگر چاہیں تو بغیر کسی فیس اور اخراجات کے قانونی دادرسی حاصل کرنے کے لیے راقم سے بنا کسی جھجھک بتوسط روزنامہ ایکسپریس رجوع کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔