قادری صاحب کا لانگ مارچ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 22 جون 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

پروفیسر طاہر القادری جب بھی پاکستان واپسی کا اعلان کرتے ہیں پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں دونوں میں بھونچال آجاتا ہے۔ ان کے ماضی و حال کے معاملات و تنازعات کا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے بعض ان کی شخصیت کو کرشماتی اور بعض پراسرار سمجھتے ہیں ان سے متعلق سیاسی و غیر سیاسی اور مذہبی حلقوں میں بھی دلچسپ بحثیں چھڑ جاتی ہیں۔

اس مرتبہ بھی انھوں نے کینیڈا سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا ہے کہ وہ 23 تاریخ کو 20 کروڑ عوام کی خاطر عوام دشمن نظام سے جنگ کرنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان واپس آرہے ہیں اگر قیام کے دوران (یعنی ان کی یہ آمد و قیام عارضی ہے) ان کو، ان کے خاندان کے کسی فرد یا رہنما کو نقصان پہنچا تو ذمے دار وفاق اور پنجاب کی حکومت ہوگی انھوں نے اپنی پیشگی ایف آئی آر میں بتایا ہے کہ اگر انھیں کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ آصف، سعد رفیق، پرویز رشید، رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی ہوں گے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میری آمد پر سیکیورٹی فوج خود سنبھالے لیکن وزارت داخلہ نے خود ہی تمام اسلام آباد کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کردی ہے۔

پیشگی ایف آئی آر (First Information Report) کی اصطلاح کی وضاحت وہ خود ہی پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ قانون دان ہیں قانون پڑھاتے رہے ہیں اور ان کے شاگردوں میں بڑے بڑے نامی گرامی وکلا اور سپریم کورٹ کے ججز شامل ہیں ویسے بھی ان پر کشف اور الہام ہوتے رہتے ہیں وہ اپنے خوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے بڑے مشہور ہیں اگر ان کی عمر کے بارے میں بشارت غلط نکل بھی جائے تو ضروری نہیں کہ ہر بشارت یا الہام غلط اور بے معنی ہو۔

قادری صاحب کے انقلابی مارچ جس کی کوئی سمت بھی مقرر نہیں ہے کہ یہ مذہبی انقلاب ہوگا، سیاسی انقلاب ہوگا یا پھر معاشی یا کسی اور نوع کا انقلاب ہوگا اس کے بھرپور استقبال اور اس میں شمولیت کے لیے سابق نگراں وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم اور شیخ رشید نے غیر مشروط اعلان کردیا ہے۔ پارلیمنٹ میں کوئی بھی نشست نہ رکھنے والی جماعت اور اس کے غیر ملکی شہریت کے حامل سربراہ جس کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں اور سپریم کورٹ نے اس کی پٹیشن بھی اس بنیاد پر خارج کردی تھی کہ وہ ایک غیر ملکی ہے، چوہدری برادران نے اپنے کارکن فراہم کرنے اور ان کا خود استقبال کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔

وہ اس سلسلے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی بات چیت کر رہے ہیں کہ حکومت کو گرانے کے لیے ان کے گرینڈ الائنس میں شرکت کریں اس سلسلے میں انھوں نے خودکش سیاسی بمبار بھی تیار کرلیے ہیں۔ 20 مارچ کو تاریخی ٹرین مارچ کا اعلان کرنے والے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ہم خودکش سیاستدان ہیں اپنا تابوت کندھے پر لیے پھرتے ہیں ،انھوں نے کہا کہ طاہر القادری اور ہم ایک دوسرے کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ حالانکہ ان دونوں شخصیات کی سیاسی ہمدردیاں بدلنے کی طویل فہرست ہے۔ چوہدری برادران نے کہا ہے کہ غریبوں کے حقوق اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ گرینڈ الائنس بنا رہے ہیں۔ دینی و انقلابی اصلاحات کے لیے اہل فکر یکجا ہوجائیں۔ اپنے مختلف دور اقتدار میں انھوں نے غریبوں کے حقوق اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے کون سے کارنامے انجام دیے ہیں ان کی کون سی دینی و انقلابی اصلاحات ہیں اور اس کے لیے وہ کون سے اہل فکر کو یکجا کرنے میں سرگرداں ہیں یہ بات سمجھ سے قاصر ہے۔

عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ ہمارا اور طاہر القادری کا ایجنڈا مختلف ہے میں خود سڑکوں پر نکلوں گا تو حکومت برداشت نہیں کر پائے گی وہ بھی ایک سانس میں کئی متضاد باتیں کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے ملک کے مفاد میں انتخابات تسلیم کیے تھے اس وقت جمہوریت کو خطرہ ہے ۔اس کو سب سے زیادہ خطرہ انتخابات میں دھاندلی سے ہے جب حکومت نے ان ہی کی پارٹی کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے ذریعے انکوائری کی پیشکش کی تو اس پر مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی ہے جو بڑی معنی خیز ہے۔  22 جون کو عمران خان نے بہاولپور میں سونامی کی وارننگ جاری کردی ہے اور 23 جون کو قادری صاحب نے عوام دشمن نظام کو زمین بوس کرنے کے لیے انقلابی مارچ کا اعلان کردیا ہے۔

علامہ طاہر القادری اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں اپنی ہر سیاسی مہم جوئی میں بہت سی قوتوں کی تائید و اعانت حاصل ہوجاتی ہے یا پھر وہ کسی کی پشت پناہی و آشیرباد سے ایسا کرتے ہیں اس کا بھی ایک طویل ریکارڈ ہے۔ پچھلے انقلابی مارچ میں بھی وہ بڑے پروٹوکول کے ساتھ پاکستان تشریف لائے تھے اور سیاسی مہم جوئی کے دوران موسم کی سختیوں سے بے نیاز پرتعیش قسم کے بم پروف ایئرکنڈیشن کنٹینر میں مقیم رہ کر شعلہ بیانی کرتے رہے۔

وزرا کی جانب سے ان کی دلچسپ پیروڈی نے اس مہم بلکہ تشہیری مہم جس پر 70 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے مزید دلچسپی پیدا کردی تھی۔ سردی اور بارش میں ٹھٹھرتے ہوئے اور اسپتال میں داخل ہوتے خواتین، بچوں اور مردوں کو اپنی شعلہ بیانی سے حرارت پیدا کرنے کے لیے انھوں نے بڑے جذباتی خطابات کیے کہ مارچ میں شریک افراد اپنے مکان، دکانیں، گاڑیاں، سائیکل، زیورات اور موبائل بیچ کر دھرنے میں شریک ہوئے ہیں وہ تو اللہ بھلا کرے پیروڈی کرنے والے وزرا کا جو کنٹینر میں جاکر علامہ صاحب سے بغل گیر ہوئے۔ مسکراہٹوں و محبتوں کے تبادلے ہوئے اور پھر ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے ذریعے کسی سبکی سے بچنے کا محفوظ راستہ فراہم کردیا گیا۔

ایک ایسے شخص کی امامت اور سربراہی قبول کرنے والے سیاستدانوں کو قومی اسمبلی میں پشتون خواہ ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے فکر انگیز خطاب پر غور کرلینا چاہیے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت چاروں صوبوں میں علیحدگی کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ افغانستان اور انڈیا میں آنے والی حکومتیں ہماری خیر خواہ نہیں ہیں جمہوریت پر خطرات منڈلا رہے ہیں پارلیمنٹ اس پر دھیان دیں ، وزیر اعظم مشترکہ اجلاس یا کل جماعتی کانفرنس بلائیں۔ طاہر القادری کی پارلیمنٹ میں کوئی سیٹ نہیں ہے جو غیر ملکی بھی ہیں ۔ یہ واقعات کہ مسٹر قادری اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں ۔ وہ خوابوں کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے ہیں اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔