ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ میں آپ کو سیدہ خدیجہ ؓ کا کثرت سے ذکر کرتے دیکھتی ہوں حالانکہ آپ کو ان سے بہت بہتر خواتین ملیں۔ اس پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ مجھے خدیجہ سے بہتر کوئی خاتون نہیں ملی جب ہر ایک نے مجھے جھٹلایا،وہ میری رسالت پر ایمان لائیں اور مجھے اپنایا۔خدیجہ سے ہی اﷲ نے مجھے اولاد سے نوازا۔10رمضان المبارک سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کا یومِ وصال ہے۔انتہائی حیرت کی بات ہے کہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اﷲ علیہا کے مقام و مرتبہ اور دینِ اسلام کی آبیاری میں آپ کے کردار کو واضح طور پر پیش نہیں کیا گیا۔
آپ رسول اﷲﷺ کی صرف زوجہ محترمہ ہی نہیں بلکہ رسول اﷲ کے ابدی پیغام کو ماننے والی اور اسلام قبول کرنے والی سب سے پہلی ہستی ہیں۔یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔اس فضیلت کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر نہیں کیا گیا۔ سیدہ سلام اﷲ علیہا مکہ میں خویلد بن اسد بن عزیٰ بن قصیٰ کے گھر پیدا ہوئیں۔سیدہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں قصیٰ کے اوپر آ کر رسول اﷲ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔
سیدہ کے والد خویلد585عیسوی میں وفات پا گئے تو ان کا ترکہ ان کی اولاد میں تقسیم ہوا ۔ سیدہ کے حصے میں خاصا مال و دولت آیا جسے سیدہ نے اپنی بہترین انتظامی اورکاروباری صلاحیتوں سے کئی گنا کر دیا۔اپنے بہترین اور پاکیزہ کردار کی بدولت مکہ میں آپ سیدہ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
دولت و ثروت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو بیٹھ کر کھانے اور کاہلی و سستی میں مبتلا کر سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی انسانیت کے اعلیٰ معیار سے گرا سکتی ہے۔سیدہ خدیجہؓ نے دولت کے منفی پہلو اپنانے کے برعکس اپنی دولت سے غریبوں،بے کسوں،بیواؤں اور یتیموں کی مدد کا بیڑہ اُٹھایا۔سیدہ نے پرو ایکٹو زندگی گزارتے ہوئے اپنی تجارت پر دھیان دیا اور اسے بے پناہ وسعت دی۔اس طرح سیدہ نے ایک بڑی تجارتی ایمپائر کھڑی کر دی۔ مکہ سے ہرسال دو تجارتی قافلے نکلتے تھے۔
گرمیوں میں ایک قافلہ شام میں دمشق کی جانب کوچ کرتا تھا جب کہ سردیوں میں تجارتی قافلہ یمن جاتا تھا۔طبقات ابنِ سعد میں لکھا ہے کہ جب مکہ سے کوئی کارواں روانہ ہوتا تو اکیلا سیدہ خدیجہ کا کارگو باقی سب پر بھاری ہوتا۔مکہ کے رؤسا عام طور پر خود بھی اپنے کارگو کے ساتھ سفر کرتے تاکہ لین دین پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹکی صورتحال کو جان سکیں۔ایک خاتون ہونے کے ناطے سیدہ خدیجہ خود اپنے کارگو کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی تھیں،اس لیے وہ اپنی جگہ اپنے کسی با اعتماد نمائندے کو روانہ کرتیں۔
سیدہ خدیجہ کی عمر جب 39سال تھی اور تجارتی قافلہ شام روانہ ہونا تھا۔سیدہ کو اپنے کارگو کے لیے ایک با اعتماد فرد کی تلاش تھی۔سیدنا ابو طالب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے سیدہ خدیجہ سے اپنے بھتیجے محمدﷺ کا ذکر کیا۔سیدہ خدیجہ نے حضور پاک کی بہترین توصیف سن رکھی تھی۔اس لیے انھوں نے سیدنا ابوطالب کی بات سن کر حضورِ پاک ﷺ کو اپنے تجارتی نمائندے کے طور پر منتخب کر لیا ۔سیدہ نے اپنے غلام میسرہ کو حضورِ پاک ﷺ کے ساتھ کر دیا ۔ حضورِ پاک ﷺ کا یہ پہلا تجارتی تجربہ تھا لیکن آپﷺ نے معاملات کو اس خوش اسلوبی سے نبھایا کہ سیدہ خدیجہ کو پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ منافع ہوا۔مکہ واپسی پر میسرہ حضورِ پاک کے عظمت و کردار اور تجارتی معاملہ فہمی پر رطب اللسان ہو گیا، اور اپنی مالکن کو بہت اچھی رپورٹ پیش کی۔
سیدہ اس وقت بیوہ تھیں۔سیدہ کے پاکیزہ ترین کردار اور دولت و ثروت کے سبب کئی رؤسا مکہ نکاح کا پیغام بھیج چکے تھے لیکن ناکام رہے۔سیدہ خدیجہ کی ایک سہیلی نفیسہ آپ کی رازدار تھیں۔ایک دن حضور نبی پاک ﷺ کعبہ شریف کے طواف کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تو نفیسہ نے آپ کو روک کر کہا کہ آپ سیدہ خدیجہ سے نکاح کر لیں۔آپﷺ نے کہا کہ بات کر دیکھیں۔ساتھ ہی نبی پاک نے اپنے چچا سیدنا ابو طالب کو تجویز سے آگاہ کر دیا۔سیدنا ابو طالب نے اس تجویز کو پسند کیا۔نفیسہ نے سیدہ خدیجہ کو تجویز سے آگاہ کیا تو انھوں نے اسے بخوشی قبول کر لیا اور اپنی جانب سے حضورِ پاک کا رشتہ مانگ لیا۔یوں سیدہ خدیجہ آقائے دو جہاں،خیر البشر،خاتم النبیینﷺ کی زوجیت میں آ گئیں۔
سیرت کی پہلی کتاب سیرتِ ابنِ اسحاق میں درج ہے کہ حضورِ پاک کے دادا کے وقت سے آپ کے خاندان کا معمول تھا کہ رمضان میں ساری فیملی جبلِ نور پر چلی جاتی۔عبادت کرتی اور شام کو دستر خوان سجا کر آنے والوں کی تواضع کرتی۔اسی پہاڑ میں غارِ حرا ہے۔جب نبی کریم ﷺ چالیس برس کے ہوئے اور رمضان آیا تو آپ حسبِ معمول عبادت کے لیے سیدہ خدیجہ اور بچوں کے ساتھ جبلِ نور پر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ کو رسالت کی خوش خبری ملی۔
آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ کو سارے واقعے سے آگاہ کیا۔ رمضان ختم ہونے اور مکہ کی آبادی میں واپسی پرآپﷺ کو حکم ہوا کہ لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف بلائیں۔اعلانِ حق کے ساتھ ہی آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔قریش نے ڈٹ کر آپ اور آپ کے پیغام کی مخالفت کی لیکن سیدہ خدیجہ اور سیدنا ابوطالب نے آپ کا یوں ساتھ دیا کہ تمام مخالفت اور ایذارسانی کے باوجود آپ کے پائے استقامت میں ذرا برابر لغزش نہ آئی۔سیدہ خدیجہ جو بہت صاحب ثروت تھیں اور شادی کے وقت 20کنیزیں صرف ذاتی خدمت کے لیے ساتھ لائی تھیں انھوں نے سارا مال ومتاع اسلام پر نچھاور کر دیا۔سیدہ نے اس کڑے وقت میں نبی پاک کو معاش کے جھنجھٹ سے آزاد رکھا۔دینِ اسلام کی راہ میں سب سے پہلا مال آپ کا خرچ ہوا۔جب بنی ہاشم کو شعبِ ابی طالب میں مسلسل تین سال محبوس کر دیا گیا تو مکہ کی یہ شہزادی گھاس پھوس کھا کر بھی نبیِ پاک کا ساتھ نبھاتی رہی اور آپ کی زبان پر کبھی شکوہ و شکایت نہیں آیا۔
قارئینِ کرام لوگوں کو تو تجارت سے جائیداد اور مال و متاع ملتا ہے،سیدہ خدیجہ وہ خوش قسمت ہیں جن کو تجارت میں آقائے دو جہاں ملے۔لوگ تو مال و زر سے دنیا بناتے ہیں سیدہ نے مال و زر سے دینِ اسلام کی آبیاری کی۔سیدہ ہی کے بطن سے ایک سیدنا ابراہیم کے سوا حضور کی ساری اولاد ہوئی۔سیدہ سے ہی نبی پاکﷺ کی نسل چلی۔اگر کسی فرد کو نبی پاکﷺ کا ایک لمحے کے لیے خواب میں دیدار ہوجائے تو اس کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔سیدہ خدیجہ کو متواتر 25سال نبی پاک کی جلوت و خلوت حاصل رہی۔کیا کوئی آپ کے مقام و عظمت کا اندازہ کر سکتا ہے۔
آپ کی موجودگی میں رسول اﷲ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔آپ کی گود میں پلنے والی سیدہ فاطمہ الزہرا جنت کی خواتین کی سردار اور سیدہ فاطمہ کی گود میں پلنے والے حسنین کریمین جنتی جوانوں کے سردار۔کئی کنیزوں کی موجودگی کے باوجود سیدہ نے ہمیشہ نبی پاکﷺ کا کھانا خود بنایا۔ایک روز سیدہ کھانا بنا کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے آ رہی تھیں تو جبرائیلؑ نازل ہوئے اور فرمایا اﷲ سیدہ کو سلام کہتا ہے اور میں جبرائیل بھی سلام پیش کرتا ہوں۔اﷲ اﷲ جس ہستی کو خالقِ و مالک کائنات سلام کرے ایسی اولوالعزم ہستی کا کیا کہنا۔سیدہ سلام اﷲ علیہا کو نبی پاکﷺ نے اپنی چادر میں دفن کیا۔آپؓ پر ہمارا سلام۔