کسی بھی ملک کے ترقی یافتہ ہونے کے معنی کیا ہیں؟ زیادہ سے زیادہ کارخانے، زیادہ سے زیادہ صنعتیں، بڑی بڑی شاہراہیں اور بلند خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) لیکن سچ پوچھیے تو صحیح معنوں میں ترقی کا پیمانہ اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام ہیں۔ ترقی کے اصل معنی عوام کی زندگی کو بہتر بنانا ہے بالخصوص وہ لوگ جو پسماندہ ہیں۔
آمدنی میں عدم مساوات پاکستان کا دائمی مسئلہ ہے جو معاشی ترقی، سماجی استحکام اور غربت میں کمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔پاکستان کو معاشی عدم توازن اور پالیسیوں کے نفاذ کی وجہ سے کافی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ شہری اور دیہی آبادی میں عدم مساوات کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور یہ خلیج رفتہ رفتہ وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھتا جارہا ہے۔
عدم مساوات کا بنیادی سبب تعلیم اور ہنر مندی تک رسائی نہ ہونا ہے۔ ہمارا نظامِ تعلیم انتہائی فرسودہ ہے جو عصرِ حاضر کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا اور کم آمدنی والے طبقات اس کی پہنچ سے باہر ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے روزگار کے مواقعے بہت ہی محدود ہوجاتے ہیں۔
علاوہ ازیں معیشت میں ساختی مسائل عدم مساوات کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ آبادی کا ایک بہت اہم حصہ غیر رسمی شعبے میں ملازمت پیشہ ہے لیکن اس سے وابستہ ملازمین کے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ نہ جانے اسے کب نوکری سے نکال دیا جائے۔ ان بیچاروں کو ان کی محنت کا معقول صلہ بھی نہیں ملتا۔ صنعتی اور سروس سیکٹر سرمایہ دارانہ پیداوار کے لیے موافق ہیں جس کی وجہ سے کم ہنرمند افراد کے لیے روزگار کے مواقعے محدود ہوجاتے ہیں۔
معاشرہ انتہائی عدم مساوات کا شکار ہے جس میں امیر اور غریب طبقہ کے درمیان تقسیم علاقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں گروہی اور مذہبی شناخت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ علاقائی تفاوت کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ صوبوں کے درمیان معاشی ترقی بھی غیر متوازن ہے جس میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے بڑے شہری مراکز دیہی علاقوں کی بہ نسبت فائدہ اٹھا رہے ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں زراعت آمدنی کا غالب ذریعہ ہے جو جدت اور سرمایہ کاری سے محروم ہے۔
پاکستان کی پہلی نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2003 میں شایع ہوئی تھی جس میں پہلی بار چاروں صوبوں کے درمیان عدم مساوات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پاکستان کی تیسری این ایچ ڈی آر رپورٹ 2021 میں شایع ہوئی جس میں پاکستان کو درپیش عدم مساوات پر مزید تجزیہ کیا گیا ہے۔پاکستان کو مدتِ دراز سے غیر مساوی معاشی ترقی کا مسئلہ درپیش ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بعض صوبوں اور اضلاع میں صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں ترقی زیادہ ہے اور کہیں پسماندگی۔این ایچ ڈی آر 2020 کے مطابق پاکستان میں بلوچستان کے علاوہ تمام صوبوں میں فی کس مجموعی علاقائی پیداوار بڑھ رہی ہے۔
سی پیک پر عمل درآمد کے باوجود بلوچستان ابھی تک پسماندگی کا شکار ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں غربت زیادہ ہے۔ انسانی ترقی کے اشاریہ کے لحاظ سے سندھ پہلے جب کہ پنجاب دوسرے اور کے پی کے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں بھی بلوچستان کا نمبر آخری ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی عدم مساوات اور ناہمواریاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب میں آمدنی اور انسانی ترقی کی صورتحال باقی صوبہ کی بہ نسبت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
شہری اور دیہی علاقوں میں ناہمواریوں کی تصویر مختلف ہے۔ این ایچ ڈی آر کے محققین کے مطابق تمام صوبوں کے شہری علاقوں میں فی کس خام ملکی پیداوار زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہری علاقوں میں آمدنی میں عدم مساوات بھی زیادہ ہے۔ صنفی تفاوت مسئلہ کو مزید بڑھاتا ہے۔ عمومی طور پر مردوں کے مقابلہ میں خواتین زیادہ غربت کا شکار ہیں۔
آمدنی میں عدم مساوات سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشاورتی پالیسیوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ عمدہ تعلیم تک رسائی اور پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام کی توسیع کی بدولت ملازمت کے ذرایع اور کم آمدنی والے طبقوں کی آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔