ایک لمحہ کے لیے سوچاجائے کہ مئی کے مہینے میں لڑی جانے والی جنگ ہم اگر ہار جاتے تو اس وقت منظر نامہ کیسا ہوتا۔دنیا اورعالمی حلقے ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کر رہے ہوتے۔ دنیا ہمیں طاقت اوراستحکام کے کس درجہ میں رکھ کر دیکھ رہی ہوتی۔ ہم ایک طرف معاشی طور پر خود کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی جن کوششوں میں اس وقت لگے ہوئے ہیں وہ تمام کی تمام زمین بوس ہو جاتیں۔ہم ایک ناکام ریاست کے طور پرجانے پہچانے جارہے ہوتے۔
ہمارا ایٹمی قوت ہونا بھی بے وقعت اور بے کار ہوجاتا۔دوسری طرف بھارت بھرپور طریقے سے جشن منارہا ہوتا اورہم آج وہی کچھ کررہے ہوتے جوآج بھارت کررہا ہے ۔یعنی شکست سے انکار کے بہانے تلاش کررہے ہوتے۔ ہم اپنی ناکامیوں کا جواز تلاش کررہے ہوتے۔ بھارت ہم پر دہشت گردی کروانے کے الزامات کو مزید پختہ بنارہا ہوتا اوردنیا اس پریقین بھی کررہی ہوتی ۔ وہ ہمیں ہرطرح سے دباؤ میں لارہا ہوتا اورہم سفارتی طور پر بھی خود کو بے گناہ ثابت نہیں کرپارہے ہوتے۔ جب کہ آج معاملہ بالکل اُلٹا ہوچکا ہے۔ بھارت کو اپنے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑرہے ہیں اوردنیا اس کے الزامات پریقین کرنے سے انکاری ہے۔بلکہ ہم اپنے یہاں کی دہشت گردی کا الزام ثبوتوں کے ساتھ بھارت پر لگا بھی رہے ہیں اورعالمی قوتیں دیکھ بھی رہی ہیں۔ ہمارا دشمن ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے ۔
طاقت اورفوجی حجم کے لحاظ سے وہ ہم پر بہت زیادہ سبقت بھی رکھتا ہے ۔و ہ معاشی طور پر بھی ہم سے بہت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔لیکن ہم اگر آج فتح یاب اورسرخروہوئے ہیںتو صرف اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کے سبب۔ ہمیں اگر خداوند کریم کی مدد حاصل نہ ہوتی تو ہرگز ہرگز ہمیں یہ کامیابی حاصل نہ ہوتی۔آج ساری دنیا ہماری صلاحیتوں کی معترف ہورہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حیران کن بھی ہے کہ ہم نے یہ فتح وکامرانی کیسے حاصل کرلی۔ وہ اب جان گئی ہے کہ پاکستانی قوم بوجوہ مشکل مالی حالات کے اپنے سے بہت بڑے دشمن سے لڑنا جانتی ہے وہ ڈرتی نہیں ہے اور نہ کسی کے دباؤ یارعب میںآسکتی ہے ۔ وہ ایک دلیر اوربہادر قوم ہے ۔وہ میدان جنگ میں جب اترتی ہے تو اپنے خدا پرکامل یقین اوربھروسے کے ساتھ ۔اس کے سپہ سالار جنگی اورعسکری تمام صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔انھیں اپنی قوم کی مکمل سپورٹ اورحمایت بھی حاصل ہے۔
1971 میں معاملہ ہی کچھ اورتھا۔ ہمارے اپنے لوگ دغا دے چکے تھے۔ ایک پورا صوبہ دوسرے صوبہ سے بہت فاصلے پرتھا۔سیاسی نفرتیں اورمنافقتیں بہت بڑھ چکی تھیں۔علیحدگی کے رجحانات بہت پروان چڑھ چکے تھے ۔ ایسے میں بھارت نے موقعہ سے بھرپور فائدہ اُٹھاکرعسکری اورفوجی مداخلت کر دی ۔ ہماری فوج وہاں اندرونی مشکلات سے نمٹ رہی تھی اوراسے بیرونی دشمن سے بھی لڑنا پڑگیا۔خانہ جنگی جیسی صورتحال تھی ۔پھر سفارتی محاذ پر بھی ہمارا کوئی دوست اورساتھی بھی موجود نہیں تھا۔ لہٰذا ایسے میں جو کچھ ہوا وہ ایک بہت ہی افسوس ناک تھا۔ ہم اس شکست کے اثرات سے آج تک باہر نہیںنکل پائے ہیں۔
سقوط ڈھاکا ہماری تاریخ کا ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب ہے جسے یاد کرکے ہم آج بھی بہت افسردہ ہوجاتے ہیں۔ہمارا ملک دولخت ہوگیا اورہم ایک بہت بڑی شکست سے دوچار ہوچکے تھے۔بھارت آج بھی اپنی اس کامیابی کو لے کر غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ وہ جب چاہے گا باقیماندہ پاکستان کو بھی زیرکردے گا۔مگر نہیں اس کی یہ خوش فہمی آج خاک میں مل چکی ہے اوروہ انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہوگیا۔ ہم نے تو 1971 میں شکست اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے کھائی تھی مگر بھارت آج کیوں شکست فاش سے دوچار ہو گیا۔اُسے اپنی جس قوت پرناز اورفخر تھا وہ چند لمحوں میں زمین بوس ہوگیا ۔
بے شک آج ہمارے لیے یوم تشکرہے اورہمیں اپنے اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجود ہوکراس کاشکر بجالانا چاہیے۔ اس اللہ تعالیٰ نے اگر آج ہماری مدد نہ کی ہوتی تو ہم مختلف صورتحال سے دوچار ہوگئے ہوتے۔ ہمارے اپنے اندرونی دشمن بھی اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ ادھر ہم شکست کھائیں اُدھر وہ ایک بار پھراداروں پرچڑھائی کردیں جیسی چڑھائی انھوں نے دو سال قبل 9 مئی کو کی تھی۔ہم اگر یہ جنگ ہار جاتے تو جوانتشاری گروہ اس ملک میں افراتفری اورفساد پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرناچاہتا ہے وہ ایک بار پھر شدت سے سرگرم ہوجاتا۔وہ ایسا ادھم مچاتا کہ اس ملک کی سلامتی بھی خطرات سے دوچار ہوجاتی۔ دوسری طرف بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کے حوصلے بھی بڑھ جاتے اوروہ بھارت اور را کی مدد سے بلوچستان کو باقی ملک سے علیحدہ کرنے میں زیادہ سرگرم ہوجاتے۔ ہمارے داخلی دشمن فسادات کی ایک نئی لہر کاآغاز کر دیتے ۔
وہ ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرتے۔ وہ تو اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ یہاں ہم شکست سے دوچار ہوں وہاں وہ اپنی شرانگیزی کا پھر سے آغاز کردیں۔ یہ ملک جیسے تیسے مالی اوراقتصادی مشکلات سے باہر نکل رہا ہے وہ ساری کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتیں اور پھر ہمیں ڈیفالٹ ہوجانے سے کوئی بھی بچا نہیں پاتا۔ہم اس وقت سوچ بھی نہیںسکتے کہ ہمارا اس جنگ میں ہارجانا کس قدر نقصان دہ ہوتا۔ خداکے فضل وکرم سے ہم اس شکست سے نہ صرف بچ گئے بلکہ فتح یاب ہوکرسرخروئی کے اعلیٰ مقام سے سرفراز ہوچکے ہیں۔
ہمارا دائمی اورازلی دشمن بھارت آج اپنی شکست کی صفائیاں پیش کرتا پھر رہا ہے ۔ اس کے وزیراعظم کو اپنے لوگوں کے سخت تنقیدی سوالوں کاسامنا ہے۔وہ ان سوالوں کے جوابات سے بچنے کی غرض سے بے تکے دعوے کرنے میںلگاہوا ہے ۔ دنیا اس کے پاورفل ہونے پراب شک کرنے لگی ہے جب کہ ساری دنیا میں اب ہماری کامیابی کو سراہاجارہا ہے۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کی قدر اچانک بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم پاکستانی اب جہاں کہیں بھی جاتے ہیں ہمیں عزت و ناموس کی نظروں سے دیکھاجارہا ہے۔
یہ ساری تبدیلی صرف چند گھنٹوں کی اس کامیابی کا نتیجہ ہے جوہماری افواج نے 10 مئی کی صبح حاصل کرلی۔ اب ہم اپنے اندرونی دشمنوں سے بھی باآسانی نمٹ سکتے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کی سرکوبی اورباقی ماندہ ملک میںفتنہ خوارج سے بھی دو دو ہاتھ کرسکتے ہیں۔ قوم اگر یونہی سچ اورحق کاساتھ دیتی رہی تو کوئی مشکل یا ناممکن بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کو ان تمام دشمنوںسے پاک کرکے ایک ترقی یافتہ ملک بنانے میں کامیاب ہوپائیں گے۔ انشاء اللہ