اسی عطار کے لونڈے سے ؟

بس اک داغ سجدہ میری کائنات جبیں تری آستانے ترے


[email protected]

ہمیں سب سے زیادہ فکر پشاور کے ’’کارخانو مارکیٹ‘‘ کے ان دکانداروں کی ہے جنھوں نے اپنی دکانوں پر یہ بورڈ لگائے ہوئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک ادھار بند ہے۔آپ کو شاید یہ بات محض مذاق اور ازراہ تفنن کہی گئی لگے لیکن ہمیں بڑی تشویش ناک لگ رہی ہے۔کیونکہ ہمیں کچھ اور بھی ایسے لوگوں کا پتہ ہے جو’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا دیا ہواکھاتے ہیں یعنی ان کے لیے مسئلہ کشمیر ایک دودھیل گائے ہے۔

اب اگر اس ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو حل کردیا تو یہ صاف صاف اس دودھیل گائے کو ذبح کرنا ہے۔یہ ہمارا نہیں بلکہ پاکستان کے خوش فہموں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کی محبت میں ناک ناک ڈوبا ہوا ہے۔اور وہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔خوش فہمیوں کے طلسم ہوشربا میں رہنے والے پاکستانیوں کی یاداشت دراصل فلم گجنی کے عامر خان سے بھی کم ہے۔ورنہ ان کو معلوم ہوتا بلکہ یاد ہوتا ہے کہ ریڈکلف کے نقشے میں ایک پنسل سے لکیر کیوں کھینچی گئی تھی۔اب ایک اور عجیب بات یہ بھی سنیے کہ پاکستان کس نے بنایا تھا ؟علامہ اقبال کا خواب بھی اپنی جگہ درست، قائد اعظم کی جدوجہد بھی صحیح اور مسلمانان ہند کی قربانیاں بھی ٹھیک لیکن پاکستان بننے کے کچھ اور محرکات تھے جن میں سب سے بڑا محرک ہٹلر تھا جس نے برٹش کنگڈم کا سارا خم نکال دیا، وہ پرانی کہانیوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہیرو کسی بلا کو تلوار مارتا ہے لیکن بلا کھڑی ہنستی رہتی ہے کہ تم نے میرا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔

اس پر ہیرو کہتا ہے، تم ذرا ہلو تو سہی اور وہ جب ہلتی ہے تو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرتی۔ہٹلر ہار گیا تھا لیکن اس نے برطانوی کنگڈم کو بھی اندر ہی اندر ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا صرف اس کے ہلنے کی دیر تھی۔چنانچہ اس نے اپنے مقبوضات کو چھوڑنا شروع کیا جن میں سرفہرست ہندوستان تھا ورنہ وہ ہندوستان کو کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی چلا کر حکومت کرنا چاہتا تھا۔مقبوضات پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے چنانچہ’’وائٹ سپرمیسی‘‘ نے ایک کام تو یہ کیا کہ عالمی تھانیدار کا منصب ماموں نے بھانجے کو منتقل کیا اور اس سارے کھیل کے پروڈیوسر ڈائریکٹر یہودی تھے۔

اب اگر ہندوستان اور پاکستان کو یونہی آزاد کردیا جاتا تو دونوں میں مذہبی اختلاف کے باوجود بہت سارے رشتے تھے بلکہ دونوں کا قارورہ ایک تھا، اس لیے آیندہ وقتوں میں دونوں کے درمیان مفاہمت اور علاقائی بنیاد پر اتحاد بھی ممکن تھا۔پڑوس میں افغانستان اور ایران بھی ان سے مل سکتے تھے اور آگے روس بھی ان سے مل سکتا تھا جو برطانیہ کا صدیوں سے جدی پشتی دشمن تھا جب کہ چین اور جاپان بھی بہرحال ایشیائی تھے، یوں عالمی قوت یورپ یا وائٹ سپرمیسی کے ہاتھوں سے نکل کر ایشیا میں منتقل ہوسکتی تھی۔ لہٰذا کوئی ایسا بندوبست کرنا تھا کہ دونوں ہمیشہ دشمن رہیں۔

تب ریڈ کلف ایوارڈ میں پنسل سے لکیر کھینچ کر گورداسپور کا ضلع بھارت کو دیا گیا اور یوں کشمیر تک بھارت کو زمینی رسائی دی گئی اور پھر کشمیر کو دونوں کے درمیان ’’ہڈی‘‘ بنایا گیا تاکہ دونوں لڑتے ر ہیں، اسلحہ کی دوڑ میں اپنی معیشت تباہ کرتے رہے اور ہتھیار سازوں کی مارکیٹ وسیع ہوتی سونے کی چڑیا کے سونے کے انڈے ادھر منتقل ہوتے رہیں۔اور اب تو یہ صرف ایک مسئلہ رہا بھی نہیں، بہت سے دوسرے عناصر کے لیے بھی دودھیل گائے بن چکا ہے۔ یوں کہیے کہ مسئلہ کشمیر اب ایک بہت وسیع و عریض مارکیٹ ہے جس میں ہمہ اقسام کے سوداگروں اور تاجروں نے اپنی اپنی دکانیں کھولی ہوئی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں بھی اس مسئلے سے اپنا اپنا مفاد نکالتی رہتی ہیں اور کچھ دوسرے سوداگر بھی۔

بس اک داغ سجدہ میری کائنات

جبیں تری آستانے ترے

اور ٹرمپ ہمارے لیے مسئلہ کشمیر حل کردے گا۔ ٹرمپ ہی کیا ہر امریکی صدر اگر چاہتا تو دو دن میں مسئلہ کشمیر حل کرسکتا تھا ،کرسکتا ہے۔لیکن۔اس’’لیکن‘‘ کے پیچھے اور بھی بہت سارے’’لیکن‘‘ ہیں لیکن سب سے بڑا لیکن وہی ہے جو تقسیم کے وقت موجود تھا اور اگر مسئلہ کشمیر حل ہوگیا تو پھر وہی خطرہ ہوسکتا ہے جو پہلے تھا۔خوش فہمیوں کی گنبد میں رہنے والے کچھ بھی کریں، کچھ بھی فلسفے بگھاریں، دانش کے دریا بہائیں، پر نالہ وہیں رہے گا۔اور کارخانو مارکیٹ کے دکاندار بدستور ادھار دینے سے انکاری رہیں گے۔

جو زہرپی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا ہے

اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو

مقبول خبریں