پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور معیشت

عوامی سطح پر پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے اثرات نہایت واضح اور گہرے ہوتے ہیں


ایڈیٹوریل July 17, 2025
فوٹو فائل

عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان برقرار ہے جس کے باعث ملک میں آیندہ 15 روز کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 11 روپے 37 پیسے بڑھائی گئی ہے۔ ڈیزل کی پرانی قیمت 272 روپے 98 پیسے تھی لیکن حالیہ اضافے کے بعد اس کی نئی قیمت 284 روپے 35 پیسے ہوگئی۔ پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے 36 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی پرانی قیمت 266 روپے 79 پیسے تھی جو بڑھ کر 272 روپے 15 پیسے ہوگئی ہے۔

 پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے، جس نے نہ صرف عوامی سطح پر پریشانی پیدا کی ہے بلکہ ملکی معیشت کے تمام پہلوؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ مسئلہ وقتی یا جز وقتی نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک مستقل نوعیت کی پریشانی بن چکی ہے جو ہر چند ماہ بعد عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ایک ایسا بنیادی عنصر ہیں جو مہنگائی کی عمومی لہر کو جنم دیتے ہیں، اس لیے ان میں معمولی سی تبدیلی بھی پوری معیشت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا براہ راست اثر پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت پر پڑتا ہے، چونکہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے بڑی حد تک درآمد شدہ تیل پر انحصار کرتا ہے، اس لیے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ مقامی قیمتوں میں فوری اور شدید اضافے کا باعث بنتا ہے۔

مزید یہ کہ جب حکومت ان عالمی رجحانات کے ساتھ مقامی ٹیکسز، پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور دیگر محصولات میں بھی اضافہ کرتی ہے تو یہ عوام پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب صرف گاڑی چلانے کا خرچ بڑھ جانا نہیں بلکہ یہ ہر شعبے میں قیمتوں کے طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔

ٹرانسپورٹ، کھاد، بجلی، اشیائے خورونوش اور صنعتی پیداوار، سب مہنگی ہو جاتی ہیں۔ گویا ایک معمولی اضافے کا اثر روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر پڑتا ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر لگنے والے ٹیکس اب بھی بہت زیادہ ہیں، حکومت اکثر ان ٹیکسوں کو مالی خسارے کے خلا کو پر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے مگر یہ پالیسی طویل المدتی اعتبار سے معیشت کو سنبھالا دینے کے بجائے عوامی قوتِ خرید کو مزید کمزور کرتی ہے۔

عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں یقیناً بڑھ رہی ہیں، مگر حکومت نے کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ قیمتوں میں کمی کے دوران ان کا فائدہ عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ؟ جب خام تیل سستا ہوتا ہے توکیا وہی جوش و خروش عوامی ریلیف کے لیے دکھایا جاتا ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان میں پٹرولیم قیمتوں کا تعین اکثر بین الاقوامی منڈی کے بجائے اندرونی مالیاتی مجبوریوں، قرضوں کی شرائط اور ٹیکس محصولات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

یہ طرزِ عمل شفافیت کی نفی اور عوامی اعتماد کے زوال کی علامت ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت واقعی عام آدمی کو ریلیف دینے میں سنجیدہ ہے یا پھر صرف محصولات بڑھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے؟ پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس کم کیے جا سکتے ہیں، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ پر قابو پا کر قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے اور سبسڈی کے بہتر نظام کے ذریعے مستحق طبقات کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ حکومت ہر بار آسان راستہ اختیار کرتی ہے۔ قیمتیں بڑھاؤ، ریونیو لو، جب کہ عوام صبر کریں۔

بدقسمتی سے موجودہ سیاسی منظر نامے میں پالیسی سازی کا مرکز وقتی فیصلے اور عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط ہیں، نہ کہ عوامی فلاح۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت قیمتیں بڑھاتے وقت تنقید برداشت کرنے کے بجائے اس کو عالمی حالات کا ناگزیر نتیجہ قرار دے کر جان چھڑاتی ہے۔ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ معیشت صرف اعداد و شمار سے نہیں بلکہ عوام کے اعتماد، سہولت اور استحکام سے پنپتی ہے، اگر مہنگائی کا بوجھ اسی طرح نچلے طبقات پر ڈالا جاتا رہا تو نہ صرف غربت میں اضافہ ہوگا بلکہ معاشرتی اضطراب بھی بڑھتا جائے گا۔

 پٹرولیم مصنوعات کے نر خ پہلے ہی پورے خطے میں سب سے زیادہ ہیں، بالخصوص پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈی میں غیر مسابقتی ہو نے کی و جہ سے ما نگ میں بھی کمی ہو گی۔ حکومت نے پہلے ہی مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں پٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کاربن لگائی ہے، جو آیندہ مالی سال میں مزید بڑھ کر 5 روپے فی لیٹر ہوجائے گی۔ اس اقدام سے آیندہ مالی سال میں ایک تخمینہ کے تحت حکومت صارفین سے 48 ارب روپے جمع ہونے کی توقع کر رہی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بھی مزید بڑھ جائیں گی اس کا براہ راست اثر صنعتوں، کاروبار پر پڑے گا۔ تیل، گیس اور بجلی کو صنعتوں کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اگر ان کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا اور حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ افراطِ زر کو براہ راست بڑھاتا ہے۔ جب ایندھن مہنگا ہوتا ہے تو نہ صرف مال برداری مہنگی ہوتی ہے بلکہ پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے اشیائے خورونوش، ضروریات زندگی، حتیٰ کہ تعلیمی اور طبی سہولیات تک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے، جن کی آمدن میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا، لیکن روزمرہ اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، عوامی اضطراب بڑھتا ہے اور حکومت پر عوامی دباؤ میں شدت آتی ہے۔

صنعتی شعبے بھی اس بحران سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتی پیداوار کی لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے ملکی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت سے باہر ہونے لگتی ہیں۔ برآمدات میں کمی، تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اس صورت حال میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ مہنگی توانائی کی بدولت کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے، اور سرمایہ کار کسی غیر یقینی ماحول میں سرمایہ لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، جو پہلے ہی مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، مزید بحران کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی بار بند ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

عوامی سطح پر پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے اثرات نہایت واضح اور گہرے ہوتے ہیں۔ بسوں، رکشوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھ جاتے ہیں، جس سے غریب طبقے پر براہ راست دباؤ پڑتا ہے۔ گھرکا بجٹ متاثر ہوتا ہے، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے نظرانداز ہوتے ہیں اور لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو روز بروز بگڑتا جا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ بحران سماجی بے چینی، جرائم میں اضافہ اور دیگر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تو اس کا فائدہ پاکستانی عوام تک نہیں پہنچایا جاتا۔ حکومت اکثر اس وقت بھی ٹیکسز اور لیویز برقرار رکھتی ہے، تاکہ مالی خسارے کو پورا کیا جا سکے یا قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے۔ اس طرح عوام مسلسل قربانی دیتے رہتے ہیں جب کہ حکومتی پالیسیاں وقتی مالی فائدے کے لیے بنائی جاتی ہیں، نہ کہ طویل مدتی اصلاحات کے لیے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور عوامی مفاد میں طویل المدتی پالیسی ترتیب دے۔ ٹیکس پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے، پٹرولیم لیوی کو معقول حد تک محدود کیا جائے اور ہدفی سبسڈی کا نظام متعارف کرایا جائے جس سے صرف مستحق افراد کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔

اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیل صاف کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ درآمدی انحصار کم ہو۔ ذخیرہ اندوزی اور ترسیل کے نظام کو جدید اور شفاف بنایا جائے، اور توانائی کے متبادل ذرایع مثلاً شمسی توانائی اور گیس کے استعمال کو فروغ دیا جائے تاکہ پٹرول پر انحصار میں کمی لائی جا سکے۔اگر ہم اس مسئلے کو صرف وقتی اور جز وقتی حل کے ذریعے قابو میں لانے کی کوشش کریں گے تو یہ مسئلہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔

اس کے لیے ہمیں ایک جامع، مستقل اور عوام دوست حکمت عملی اپنانا ہوگی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہو۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ نہ صرف عوام کے لیے مشکلات کا باعث ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے جس کا تدارک فوری اور مؤثر پالیسیوں سے ہی ممکن ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ بحران ملک کے اقتصادی نظام کو مکمل طور پر مفلوج کر دے گا۔

مقبول خبریں