شہری آبادیوں میں بگ کیٹس رکھنے پرپابندی مگر چڑیاگھر شہری آبادیوں میں کیوں؟

بگ کیٹس کو محدود پنجروں میں رکھنا ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے نقصان دہ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے


آصف محمود August 21, 2025
فوٹو: ایکسپریس نیوز

لاہور:

پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے شہری آبادیوں کے اندر شیر، ببر شیر، چیتا اور جیگوار رکھنے پر پابندی کے بعد صوبے میں وائلڈ لائف فارمز اور بگ کیٹس بریڈنگ کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

پنجاب میں 16 جنوری 2025 کے کابینہ فیصلے کے تحت شہری علاقوں میں قائم بریڈنگ فارمز ختم کیے جا رہے ہیں اور اب تک 27 بڑے جانور محکمہ وائلڈ لائف نے اپنی تحویل میں لے لیے ہیں۔

حکومتی مؤقف ہے کہ یہ اقدام عالمی معیارات کے مطابق عوامی تحفظ اور جانوروں کی فلاح کے لیے ضروری ہے تاہم فارمز کے مالکان کا کہنا ہے کہ پابندی کے بجائے اس شعبے کو منظم اور تجارتی بنیاد پر فروغ دینا زیادہ مؤثر ہوگا۔

لاہور کے علاقے سبزہ زار میں فارم کے مالک اور 17 برس سے بگ کیٹس کی افزائش کرنے والے میاں عمر دولہ حکومتی فیصلے کے حامی ضرور ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی میں بریڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی۔

میاں عمر دولہ کے مطابق چھوٹے گھروں اور چھتوں پر شیر رکھنا غیر محفوظ عمل ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ کھلی جگہ اور حفاظتی انتظامات رکھنے والے شہری بھی اجازت کے مستحق ہیں۔

انہوں نے لاہور چڑیا گھر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر شہر کے بیچ میں بڑے رقبے پر جانور رکھے جا سکتے ہیں تو مخصوص شرائط کے ساتھ پرائیویٹ بریڈرز کو بھی اجازت ملنی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 22 برس میں پاکستان میں بگ کیٹس کی افزائش کے باوجود کسی انسانی جان کا نقصان سامنے نہیں آیا، وہ اسے ایل پی جی سلنڈر اور کتوں کے کاٹنے سے تشبیہ دیتے ہیں جن سے ہر سال جانی نقصان ہوتا ہے لیکن ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت دنیا میں بگ کیٹس بریڈنگ میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے اور اگر حکومت تعاون کرے تو برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

میاں عمر دولہ نے یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات شیرنی پیدائش کے بعد اپنے بچے کو قبول نہیں کرتی، ایسے بچوں کی جان بچانے کے لیے ان کی ہینڈ فیڈنگ کی جاتی ہے، چڑیا گھروں میں بھی شیر کے بچوں کو مصنوعی دودھ اور خوراک پر پالا جاتا ہے لیکن اگر کوئی پرائیویٹ بریڈنگ فارم پر شیر کے بچے کو ہینڈ فیڈنگ کے لیے گھر لے جاتا ہے تو وہ جرم بن جاتا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، 6 ماہ کی عمر تک شیر کے بچے کو گھر میں رکھنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔

 

ایڈیشنل چیف وائلڈ لائف رینجرز پنجاب سید کامران بخاری کا کہنا تھا کہ بڑے جنگلی جانوروں کی ملکیت اور افزائش عالمی ادارے "ورلڈ ایسوسی ایشن آف زوز اینڈ ایکویریمز" کے ضابطوں کے مطابق ہونی چاہیے، انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر نئی پالیسی بنائی گئی ہے، جس کے تحت صرف وہی فارمز رجسٹر ہوں گے جو رقبے، پنجروں کے سائز اور حفاظتی انتظامات کے معیار پر پورا اتریں گے جبکہ یہ فارمز شہری آبادی سے باہر قائم کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری چڑیا گھروں میں کھلی جگہ، تین سطحوں کی سیکیورٹی اور ویٹرنری سہولیات میسر ہیں، جو پرائیویٹ سطح پر ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جانوروں کی برآمد سے متعلق فیصلہ وفاقی حکومت ہی کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی اداروں کے طے کردہ معیارات کے مطابق بگ کیٹس کے پنجرے کی کم از کم اونچائی 12 فٹ ہونی چاہیے جبکہ 16 فٹ تک اونچا پنجرہ بغیر چھت کے رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس پر حفاظتی تار یا اوور ہینگ موجود ہو، عوام اور جانور کے درمیان کم از کم دو میٹر کا فاصلہ لازمی ہے جبکہ سایہ دار جگہ، درخت یا پنجہ تیز کرنے کے لیے ساخت اور بیماری یا شدید موسم کی صورت میں ان ڈور کمروں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح ڈبل گیٹ سسٹم اور حفاظتی عملے کی تربیت بھی ان ایس او پیز کا حصہ ہیں، ان اقدامات کا مقصد عوامی تحفظ اور جانوروں کے قدرتی رویوں کا تحفظ ہے۔

جانوروں کے حقوق کی پاکستانی اورعالمی تنظیموں نے بڑے جنگلی جانوروں کی نجی ملکیت پر سخت تحفظات ظاہر کیے ہیں، جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی کارکن عنیزہ خان عمرزئی کے مطابق بگ کیٹس کو محدود پنجروں میں رکھنا ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ عمل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے بریڈنگ فارمز نہ تو عالمی معیار کے مطابق جگہ فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی ویٹرنری سہولیات، جس سے جانوروں کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

جانوروں کے حقوق کی وکیل عزت فاطمہ کہتی ہیں کہ "ورلڈ اینیمل پروٹیکشن" اور "ورلڈ ایسوسی ایشن آف زوز اینڈ ایکویریمز" بھی یہی تجویز دیتے ہیں کہ بگ کیٹس کو تجارتی قید کے بجائے ان کے قدرتی رہائش گاہوں کے تحفظ پر توجہ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ قید میں پیدا ہونے والے شیر اور ٹائیگر جنگل میں واپس نہیں جا سکتے، اس لیے ایسے فارمز کو صرف تحقیقی اور تعلیمی مقاصد تک محدود رکھا جانا چاہیے۔

یوں پنجاب حکومت کا فیصلہ ایک طرف عوامی تحفظ اور عالمی اصولوں کی تکمیل کا عکاس ہے، تو دوسری جانب بریڈرز اور سرمایہ کار اس شعبے کو منظم کر کے معیشت کے لیے فائدہ مند بنانے کی تجویز دے رہے ہیں تاہم جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں واضح کر رہی ہیں کہ بگ کیٹس کی فلاح صرف وسیع قدرتی ماحول اور عالمی معیارات پر مبنی انتظامات سے ہی ممکن ہے۔

مقبول خبریں