اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل، زبان اور بیان جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا۔ گفت گُو انسان کے فہم، تربیت، اخلاق اور کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں گفتار کے آداب پر خصوصی تاکید کی گئی ہے۔
چوں کہ گفت گُو انسان کی شخصیت کا عکس ہے، اس لیے قرآن مجید نے ہمیں سکھایا ہے کہ الفاظ صرف ادا نہ کیے جائیں بل کہ نرمی، حکمت اور عدل کے ساتھ چُنے جائیں۔ انسان کی زبان اگر عدل، سچائی، نرمی اور حسنِ اخلاق سے مزیّن ہو تو معاشرہ جنت نظیر بن جاتا ہے اور اگر یہی زبان جھوٹ، فتنہ، غصہ اور سختی کی عادی ہو تو فساد، دشمنی اور نفرت جنم لیتی ہے۔ ذیل میں ہم قرآن مجید کی مختلف آیات کی روشنی میں گفت گُو کے سلیقے اور اس کے تقاضوں کو بیان کریں گے۔
بھلی بات کہنا
قرآن کریم میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔‘‘ (البقرۃ)
یہ آیت بنی اسرائیل کے عہد کی یاد دہانی کراتے ہوئے نازل ہوئی لیکن اس میں عمومی اخلاقی اصول بیان ہُوا ہے۔ اچھی بات میں نرمی، شائستگی، عزت، مروّت اور مکارمِ اخلاق شامل ہیں۔ اسلام سخت، تلخ یا بے ادب گفت گُو کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں ’’للناس‘‘ کہہ کر مخاطب کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے کہ صرف مسلمانوں سے نہیں بل کہ ہر انسان سے گفت گُو اچھی ہونی چاہیے۔
ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔‘‘ (الاحزاب) ’’قولاً سدیداً‘‘ سے مراد ایسی بات ہے جو سچ، عدل اور دیانت پر مبنی ہو جس میں کجی نہ ہو، فریب نہ ہو، چالاکی نہ ہو۔ سیدھی بات وہ ہے جو انسان کے ضمیر اور عقل کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ سچی بات کو کہنا آسان نہیں، خاص طور پر جب اس سے نقصان یا دشمنی کا خطرہ ہو مگر قرآن تقویٰ کے ساتھ اس سچائی کو لازم قرار دیتا ہے۔
بہترین بات کرنے کی تلقین
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل) ’’التی ہی أحسن‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک بات کئی انداز میں کہی جا سکتی ہے تو بندۂ مومن کو وہ انداز اختیار کرنا چاہیے جو سب سے زیادہ حسن و وقار رکھتا ہو، جس سے سامنے والے کی عزت محفوظ رہے، دل آزاری نہ ہو اور بات کا اثر بھی ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ شیطان گفت گُو میں فتنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے گفتار میں حسن نیّت، نرمی اور خیر خواہی ہونا لازمی ہے۔
نرمی سے بات کرنے کا حکم
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون سے خطاب کا حکم دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’پس تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ)
یہ ایک نہایت عظیم اصول ہے۔ اگر فرعون جیسے سرکش، ظالم اور دعویٰ الوہیت کرنے والے شخص سے نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا گیا تو عام انسانوں کے ساتھ سختی کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ جابر اور مقتدر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو سختی کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ مزید اکڑ جاتے ہیں اور ان کے غرور اور تکبّر میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کی انانیت ان کو حق قبول کرنے سے باز رکھتی ہے۔ دعوت، نصیحت، مشورہ یا اعتراض ہر معاملے میں لہجہ نرم، باوقار اور مہذب ہونا چاہیے۔ نرمی دشمن کو دوست بنا سکتی ہے جب کہ سختی دوست کو دشمن بنا دیتی ہے۔
انصاف پر مبنی بات کہنا
قرآن کریم میں حکم رب تعالی کا مفہوم ہے: ’’اور جب بات کرو تو انصاف سے کرو، خواہ وہ تمہارے قریبی رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (الانعام)
یہ آیت عدل و انصاف کے قیام کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ گفت گُو میں انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ہم جذبات، تعصب، نفرت یا محبّت سے بالاتر ہو کر مبنی بر حقیقت پر بات کریں۔ عدل پر مبنی بات وہی ہے جو نہ کسی پر بہتان ہو، نہ کسی کی خوبیوں کو چھپایا جائے، نہ زیادتی ہو، نہ جانب داری۔ اہلِ ایمان کا شیوہ یہی ہے کہ وہ دشمنوں کے بارے میں بھی انصاف کی زبان اختیار کرتے ہیں۔
جھوٹی بات سے پرہیز
قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔‘‘ (سورۃ الحج) ’’قول الزور‘‘ یعنی جھوٹی بات، بہتان، الزام تراشی، گواہی جھوٹی دینا یا کسی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، یہ سب ممنوع ہے۔ جھوٹ نہ صرف اخلاقی عیب ہے بل کہ ایک اجتماعی وبا ہے جو اعتماد، اتحاد اور عدل کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس لیے قرآن جھوٹ سے بچنے کا حکم دیتا ہے جیسے کہ شرک سے بچنے کا۔
اگر ان تمام آیاتِ مبارکہ کو جمع کیا جائے تو گفت گُو کے قرآنی اصولوں کا ایک جامع خاکہ ہمارے سامنے آتا ہے:
٭ سچائی: جو بات کہو، حق پر مبنی ہو۔
٭ نرمی: تلخ لہجہ اور سخت کلامی سے بچو۔
٭ حسن و آدب: بات شائستگی، احترام اور خندہ پیشانی سے ہو۔
’’اور جب بات کرو تو انصاف سے کرو، خواہ وہ تمہارے قریبی رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
٭ انصاف: مخالف ہو یا قریبی، انصاف پر مبنی بات ہو۔
٭ احسن انداز: اگر بہتر انداز میسر ہو، وہی اختیار کرو۔
٭ جھوٹ، بہتان، غیبت سے اجتناب: یہ سب گفت گُو کو زہریلا بنا دیتے ہیں۔
رسول اﷲ ﷺ کی گفتار ان تمام قرآنی اصولوں کا عملی نمونہ تھی۔ آپ ﷺ نہایت نرم گو، سچے، عادل اور خوش کلام تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ یا تو اچھی بات زبان سے نکالے یا خاموش رہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
آپ ﷺ کسی سے کبھی تحقیر سے بات نہ کرتے، کم زوروں سے بھی عزت سے پیش آتے اور حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی گفت گُو میں حسنِ اخلاق کو ملحوظ رکھتے۔ گفت گُو صرف اظہارِ خیال نہیں بل کہ ایک اصلاحی عمل ہے۔ قرآن کریم نے احسن کلام کے لیے قول معروف، قول کریم، قول میسور اور قول لین جیسے الفاظ استعمال کیے تاکہ ہر موقع کی مناسبت سے بہترین بات کی جا سکے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مدد نہ دے سکے تو بھی ’’قول میسور‘‘ یعنی دل جوئی کی بات کرنی چاہیے۔
ال غرض زبان انسان کی سب سے اہم طاقت ہے۔ یہی زبان جنت کا راستہ بنا سکتی ہے اور یہی جہنم کی طرف لے جا سکتی ہے۔ گفت گُو کے قرآنی اصول نہ صرف فرد کی شخصیت کو سنوارتے ہیں بل کہ پورے معاشرے کو مہذب، باوقار اور عدل پر قائم بناتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی گفت گُو کو قرآن کے ترازو میں تولیں اور اپنی زبان سے وہی بات نکالیں جو خیر، سچ، نرمی اور عدل پر مبنی ہو۔