تبصرہ نگار: ارشاد احمد ارشد
دور نبوت کے بچے
’’ دور نبوت کے بچے ‘‘ یہ دس کتابوں پر مشتمل حسین و معنوی سیٹ ہے ، جسے فور کلر اور معیاری طباعت کے ساتھ دارالسلام انٹرنیشنل نے شائع کیا ہے، یہ بچوں کی تربیت و کردار سازی میں ایک بے مثال علمی و دینی خزانہ ہے۔ یہ کتابیں نہ صرف بچوں کے دل و دماغ کو ایمان کی گہرائیوں سے روشناس کراتی ہیں بلکہ انہیں اسلامی اخلاق و ایمان کے ساتھ مضبوط کردار اپنانے کی ترغیب بھی دیتی ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں بچوں کی تربیت کو نہایت اہم مقام حاصل ہے کیونکہ بچے آئندہ نسل کے معمار ہوتے ہیں جبکہ بچوں کی تربیت میں اسلامی اصلاحی اور اخلاقی کتابیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دور نبوت کے بچے اسی سلسلہ کی خوبصورت کڑی ہے یہ خوبصورت سیٹ بچوں کے ادب کے معروف لکھاری اشفاق احمد خاں کی کاوش ہے۔
دارالسلام انٹرنیشنل کی اس پرفضا کاوش میں دس مندرج ذیل ہستیاں شامل ہیں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما۔ یہ دونوں شہزادے رسول اللہ ؐ کے نواسے،جگر گوشہ فاطمہ بتول ، باغ نبوت کے پھول اور نوجوانان جنت کے سردار ہیں ،سیدنا عبداللہ بن عباس ہیں جنھو ں نے رسول مقبول ؐ کے زیر سایہ بچپن گزارا ،انھیں بچپن ہی سے علم سے خاص شغف تھا ، سفر وحضر میں آپ ؐ کے ساتھ رہے۔مزاج میں سنجیدگی تھی اس لیے رسول مقبول ؐ نے ان کے لیے علم وحکمت کی دعا کی تھی اور یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ اسے مفسر قرآن اور دین میں سمجھ والا بنا دے۔ کتاب میں سیدنا عبداللہ بن زبیر کا تذکرہ شامل ہے جو عظیم شاہسوار تھے اور شجاعت وفراست میں بے مثال تھے۔ ، عبداللہ بن جعفر دور نبوت کے وہ عظیم بچے ہیں۔
جنھیں سخاوت کا دریا کیا گیا ہے وہ اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرتے تھے ، عبداللہ بن عمر مطیع اعظم ہیں انھیں رسول ؐ سے شدید محبت تھی ، یہ محبت ہمارے آج کے بچوں کیلئے مشعل راہ ہے ، عبداللہ عمرو ہیں وہ عظیم خاندان کے چشم وچراغ تھے ، ان کو وراثت میں عقل مندی ، بہادری اور فصاحت وبلاغت کی صفات ملیں اور وہ ہر وقت جنت کے متلاشی رہتے تھے ، سعید بن عاص ایک ایسے انوکھے سخے ہیں جنھیں رسول ؐ نے مستقبل کا معزز آدمی قرار دیا تھا وہ جمعہ کی رات اپنے غلام کو دیناروں کی تھیلیاں دے کر کوفہ کی مسجد میں بھیجتے۔ غلام وہ تھیلیاں لے جاکر نمازیوں کے سامنے رکھ دیتا ، ضرورت مند اس میں سے اپنی ضرورت کے دینار خود اٹھا لیتے۔ پھر کتاب میں اسامہ بن زید کا تذکرہ شامل ہے جو وفا کا پیکر تھے۔
وہ غلام کے بیٹے تھے لیکن ان کی خوش بختی کا کیا کہنا کہ انھیں دنیا کے بہترین رہبر ملے اور اس کیلئے محبت ، شفقت اور تربیت کے خزانوں کے منہ کھل گئے وہ وفا کا پیکر تھے جنھوں نے رسول ؐ سے وفا نبھائی۔ ، خادم خاص رسول مقبول ؐ انس بن مالک رضی اللہ عنہ محض آٹھ سال کے تھے یہ کھیلنے کودنے کی عمر تھی خوش قسمتی سے وہ رہبر اعظم محمد ؐ کے خادم خاص بن گئے۔آغوش نبوت میں تربیت حاصل کرنے والے ان بچوں کے کمالات، بچوں کو اخلاقی و روحانی فضیلت کی طرف مائل کرتے ہے۔ یہ کتابیں اْن کی معصوم ذہانت میں نیکی، تقویٰ، صبر اور قربانی کی اعلیٰ اقدار بٹھاتی ہیں، جو ہماری دینی و معاشرتی ترقی کی بنیاد ہیں۔
دارالسلام انٹرنیشنل کی اشاعت نے اس مجموعے کو قوتِ بیان، فصاحت اور آسانی سے قابلِ فہم انداز میں پیش کیا ہے۔ ہر کتاب ایک ایسا منبع ہے جو بچوں کے دلوں میں اللہ اور رسول ؐ کی محبت جگانے کے ساتھ ساتھ انہیں اچھے معاشرتی کردار کی تربیت بھی فراہم کرتی ہے، جو اسلام کے روشن چہرے کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ یہ کتابیں والدین، اساتذہ اور مربیوں کے لیے بہترین وسائل ہیں، جن کی مدد سے بچے زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے، حق و سچ کا ساتھ دینے، اور فضائل و نیکیاں اپنانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں بچوں کی شخصیت سازی پر زور دیتے ہوئے، یہ سیٹ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بچوں میں ایمان کی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور انہیں صداقت، عزم، اور محبت کے سنہرے اصولوں سے روشناس کرواتا ہے۔ کرے گا۔ دیدہ زیب سرورق ، چہار کلر طباعت کی حامل یہ کتابیں دیکھنے میں جتنی خوبصورت ہیں تعلیم وتربیت کے اعتبار سے اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔دس کتابوں پر مشتمل سیٹ کی رعایتی قیمت1870 روپے ہے۔یہ کتاب دارالسلام کے مرکزی شوروم لوئر مال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ042-37324034 پر دستیاب ہے۔مرکز ایف ایٹ اسلام آباد 051-2281513 ، دارالسلام کراچی مین طارق روڈ0321-7796655پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
خلفائے راشدین ( بچوں کیلئے )
زیر نظر کتاب ’’خلفائے راشدین ‘‘ دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کی شائع کردہ ایک خوبصورت پیشکش ہے جو بالترتیب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مشہور ماہر تعلیم، ادیب اور محقق اشفاق احمد خاں کی تصنیف ہے۔ اشفاق احمد خاں کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کے ادب کے معروف لکھاری محمد یونس حسرت مرحوم کے فررزند ارجمند ہیں۔محمد یونس حسرت مرحوم نے بچوں کیلئے بیشمار تربیتی اور اصلاحی کتب لکھیں ہیں۔
اشفاق احمد خاں کی تحریر میں وہی اپنے والد مرحوم والی پختگی، شگفتگی، سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو بڑاانسان بنانا چاہتے ہیں تو انھیں بڑے لوگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کروائیں۔مسلمانوں کے نزدیک انبیا ء علیھم السلام کے بعد سب سے زیادہ عظمت اور شان والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم ہیں۔ جبکہ صحابہ کرام میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنھم خلفائے راشدین ہیں اور ان کا عہد۔۔۔۔ خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔
خلافت راشدہ کے عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے۔ تیس سال کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں صرف تین عشرے ہیں ان تین عشروں میں خلفائے راشدین نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اسلامی ریاست کی توسیع و استحکام کیلئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو صدیوں میں بھی ممکن نہیں ہوتے ہیں۔ خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین خلیفہ ہیںجبکہ خلافت راشدہ کے زریں عہد کی آخری لڑی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
خلافت راشدہ۔۔۔۔کا دورہر لحاظ سے تاریخ کا سنہرا دور ہے جو ہمارے آج کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ اس دور میں تمام رعایا کو بنیادی حقوق حاصل تھے۔ ان کی شخصی و سیاسی آزادی کی حفاظت کی جاتی تھی۔ مسلمان اور غیر مسلم کے حقوق یکساں تھے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی جرأت کرسکتا تھا۔ غیر مسلموں کو مذہبی آزادی حاصل تھی اس کے ساتھ ان کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی۔ عدل کا ترازو سب کے لیے برابر تھا۔ نہ کوئی امیر، نہ غریب، نہ بادشاہ ، نہ عامی، نہ گورا ، نہ کالا اور نہ ہی رنگ و نسل کا امتیاز تھا۔ سب برابر تھے۔
مجرم مجرم ہی تھا خواہ کوئی بھی ہو۔خلافت راشدہ میں فتوحات کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور سلطنت وسیع ہوئی۔ اندرونی فتنوں کو بھی دبایا گیا اور بیرونی خطرات کا مقابلہ بھی ہوا لیکن ان تمام کاموں میں ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ان کا مقصد عوام کی فلاح، ان کی خوشحالی و آسودہ حالی، ان کو امن و سکون اور اسلامی ریاست و اسلام کا تحفظ تھا۔آج امت مسلمہ خستہ حالی کا شکار ہے اور اس کا جسد تارتار ہے تاہم نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے اللہ اسی امت میں سے ایسے جوان پیدا فرمائے گاجو امت کے درد کا درماں کریں گے شرط ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اچھی بنیادوں پر کریں انھیں اسلامی ، اخلاقی اور اصلاحی کتب پڑھنے کیلئے دیں۔اور یہ بات سمجھیں کہ خلفائے راشدین کا بچپن ، جوانی اور بڑھاپا۔۔۔۔ ہمارے آج کے بچوں ، بچیوں ، جوانوں اور بزرگوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ یہ فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے ، اس دور میں موبائل ، فیس بک ، پب جی گیم ، واٹس ایپ اور دیگر ایسے بہت سے ذارئع موجود ہیں جو بچوں اور بچیوں کے اخلاق وکردار پر اثر انداز ہورہے ہیں۔۔۔۔ان حالات میں والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں بچیوں کے لئے ایسی کتابوں کاانتخاب کریں جو ان کے اخلاق وکردار کو سنواریں اور ان کے دلوں میں اپنے نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین کی محبت پیدا کریں۔’’ خلفائے راشدین ‘‘ بچوں کے مطالعہ لئے بہترین انتخاب ہے۔چار حصوں پر مشتمل اس خوبصورت اور لاجواب کتاب میں بطریق احسن خلفائے راشدین کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں۔
کتابوں کاانداز بیاں بہت دلچسپ ، سادہ، آسان اور شستہ ہے جو ان شاء اللہ بچوں کی شخصیت پر گہرے نقوش مرتب کرے گا ، ان کے دلوں میں اسلام ، نبی علیہ السلام اور خلفائے راشدین کی محبت پیدا کرے گا۔ دیدہ زیب سرورق ، چہار کلر طباعت کی حامل یہ کتاب دیکھنے میں جتنی خوبصورت ہے باطنی طور پر اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔چار کتابوں پر مشتمل سیٹ کی قیمت 1300روپے ہے جو دارالسلام کے مرکزی شوروم لوئر مال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ042-37324034 پر دستیاب ہے۔مرکز ایف ایٹ اسلام آباد 051-2281513 ، دارالسلام کراچی مین طارق روڈ 0321-7796655پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
’’سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک‘‘
نامساعد حالات میں کامیابی کی قابل تقلید مثال
(تصنیف: عبدالغفور چودھری)
تحریر: لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
علامہ عبدالستار عاصم منصورہ آئے تو ان کے ساتھ ایک خوش لباس شخصیت بھی تھی۔ فوری طور پر میں پہچان نہ پایا۔ علامہ صاحب نے تعارف کرایا یہ عبدالغفور چوہدری صاحب ( ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر ) ہیں اور ساتھ ہی ان کی کتاب ’’سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک ‘‘ تھما دی ،علامہ صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں روزانہ کی بنیاد پر کتاب شائع کرتے ہیں ، منظر عام پر لاتے اور خود ہی اْسی محنت کے ساتھ اس کی پروموشن بھی کرتے ہیں۔
عبدالغفور چودھری سے تعارف اور کتاب کی اشاعت ، ترتیب وتصنیف پر بات ہوئی اور اسی دوران کتاب کی ورق گردانی بھی کی ، موضوعات ، عنوانات نے فوری طور پر پڑھنے کی کشش پیداکی۔ یوں ارادہ کیا کہ اس کتاب پر ضرورکچھ لکھوں گا۔ کتاب کی مکمل تحریر بہت شاندار ہے ، اور واقعات اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ہر اعتبار سے کتاب ’سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک‘ ہر اْس فرد کے لیے شاندار رہنما کتاب ہے جو بھی بے سر و سامانی کے باوجود زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ، عبدالغفور چودھری کی صبر ،استقامت ،امانت ودیانت ، فرض کی ادائیگی میں ہر خطرہ مول لے کر اپنی زندگی میں رحمت و نصرت کے جو معجزات سمیٹے یہ کتاب انہی معجزات کی کیفیت کا ثبوت ہے۔
کامیابی محنت کا دوسرا نام ہے۔ ہر کامیابی کا کُھرا محنت کے گھر سے ہوکر نکلتا ہے۔ جو شخص محنت سے جی چْراتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تاریخِ عالم پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دْنیا میں جتنے بھی نامور انسان آج لوگوں کے دِلوں پر راج کر رہے ہیں اْن سب نے محنت او ر اَنتھک محنت کو ہی اپنا شعار اور اوڑھنا بِچھونا بنائے رکھا، اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے بنی نوع انسانی کی خدمت کا فریضہ ادا کرکے ثابت کیا کہ دْنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں، اگر کوئی شخص کچھ کرگزرنے کا ارادہ مصمّم کرلے ، اس کے لیے نیک نیتی کے ساتھ محنت کرے اور خالقِ کائنات کی مدد اور نصرت اْس کے شاملِ حال رہے تو ناممکنات بھی ممکنات میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہیں۔ محنت کی برکات سے متعلق برصغیر کے نامور شاعر و نثر نگار مولانا الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا تھا کہ
مشقّت کی ذِلّت جنہوں نے اْٹھائی
جہاں میں مِلی آخر اْن کو بڑائی
کسی نے بغیر اِس کے ہرگز نہ پائی
فضیلت نہ عزت نہ فرماں روائی
محنت کی عظمت کی ساری دْنیا قائل ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض لوگوں کو اْس کی محنت کا ثمر اِس دْنیا میں ہی مِل جاتا ہے اور بعض لوگ دْنیا میں اس سے محروم ہی رہتے ہیں، چاہے جتنے بھی مخلص ہوں۔ اس کی کئی ایک سماجی وجوہات ہوتی ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع تو نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ضرور ہے، لیکن اندھیر نہیں۔ جو کسی بھی وجہ سے دْنیا میں اپنی محنت کا پھل حاصل نہیں کرپاتے، اگر وہ خالقِ کائنات اللہ وحدہْ لاشریک اور محسنِ کائنات حضرت محمد مصطفٰیﷺ پر ایمان رکھتا ہے، تو اس کے لیے اللہ نے آخرت میں ایسی نعمتیں رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں اور کسی دِل پر اْن کا خیال تک نہ آیا۔ اللہ ہر مومن مسلمان کو ایسی لازوال نعمتیں نصیب کرے (آمین!)
افواجِ پاکستان کے سب سے نچلے عہدہ ’’سپاہی‘‘ پر بھرتی ہونے والا ایک نوجوان محنت اور مشقّت کو شعار بناکر ترقی کی منازل طے کرتا کرتا حکومتِ پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدہ یعنی ’’ڈپٹی کمشنر‘‘ تک کیسے پہنچا، یہ ہے وہ داستانِ حیات جو پی ایس سی آفیسر عبدالغفور چودھری، ڈپٹی کمشنر (ریٹائرڈ نے اپنی اِس خودنوشت ’سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک‘ میں بیان کی ہے، جس کی ایک ایک سطر قارئین کے لیے دلچسپی، معلومات اور تجسّس سے بھرپور ہے۔
بالخصوص اْن نوجوانوں کے لیے جو بقول اقبال ’ستاروں پہ کْمند ڈالتے ہیں،اور جن سے اِسی وصف کی بناء پر اقبال کو محبت بھی ہے۔ یہ کتاب بطور خاص اْن نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو مالی پریشانیوں کے باعث پہلے تو بمشکل اعلیٰ تعلیم کی منازل طے کرپاتے ہیں اور پھر ملکی معاشی صورتِ حال اور حکمرانوں، بیوروکریسی کی کرپشن، اقرباء پروری کے باعث بے پناہ کوشش کے باوجود سرکاری ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور مایوس ہوکر یا تو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار/ ڈھابہ کھول کر اپنی روزی کماتے ہیں یا پھر والدین کی جمع پونجی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں قربان کرکے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے بیرونِ ملک ملازمت کے لیے غیرقانونی طریقے سے سفر کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کوئی خوش نصیب ہی اْن میں سے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوپاتا ہے ورنہ تو سمندر کی بے رحم موجوں یا انہی انسانی اسمگلروں کی دھوکہ دہی کا شکار ہوکر والدین کی جمع پونجی سمیت اپنی جان بھی گنوابیٹھتے ہیں۔
اس میں اصل قصور تو بہرحال اْن محرومیوں کا ہی ہے جو پے درپے حکومتوں کی نااہلیوں کے باعث وطن کے اِن باصلاحیت مگر توجہ اور حق سے محروم تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کا مقدر بن کر اْنہیں اِس کٹھن اور غیرقانونی راستہ کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔بہرکیف نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ مایوسی کی راہ پر چلنے کی بجائے نیک نیتی، خلوص، محنت، لگن اور جوش و جذبہ کو اپنا شعار بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ سْرخرو ہوکر اپنے لیے معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔٭
اس کتاب میں مصنف کی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز یعنی بطور سپاہی پاک فوج میں بھرتی سے لے کر ریٹائرمنٹ یعنی بطور ڈپٹی کمشنر ریٹائرمنٹ تک کے حالات و واقعات اور مشاہدات و تجربات کا نچوڑ موجود ہے، جوکہ سروس میں آنے کے خواہش مند افراد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
مصنف نے سی ایس ایس اور پی ایم ایس دونوں امتحانات میں شمولیت کی، ناکام بھی ہوئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بالاآخر کامیابی نے اْن کے قدم چومے۔ مزید محنت کی اور اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی کی منازل طے کرتے کرتے سِول سروس کے اعلیٰ ترین عہدوں میں سے ایک تک پہنچے اور کامیابی کے ساتھ اپنی سروس مکمل کرکے ریٹائر ہوئے، اگرچہ اس دوران اپنی امانت و دیانت اور اْصول پسندی پر مبنی طرزِ عمل کی وجہ سے کرپٹ عناصر کی عداوت کا شکار ہوکر نیب کے زیرعتاب بھی رہے لیکن بعد ازاں باعزت رہا ہوکر دوبارہ اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا اور ریٹائرمنٹ تک بطور ڈپٹی کمشنر کام کرتے رہے۔ کتاب کے آخر میں مقابلے کے امتحانات میں شرکت کے خواہش مند طلباء و طالبات کی راہنمائی کے لیے خصوصی طور پر ایک باب کا اضافہ کیا گیا ہے، جس میں مضامین کے چناو سے لے کر امتحانی پرچہ جات حل کرنے تک راہنمائی شامل ہے، جو راقم کے عملی تجربے کا نچوڑ ہے۔
مصنف قانون کی ڈگری بھی رکھتے ہیں اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے وکالت کے شعبے میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ میں بطور اٹارنی ایٹ لا کی پریکٹس کا لائسنس حاصل کرکے قانونی معاونت پر مبنی فرم کی بنیاد رکھی، جس میں سائلین کو قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ عبدالغفور چودھری صاحب کو تعلیم و تعلّم سے بھی خصوصی شغف ہے۔ اسلامیات، پولیٹیکل سائنس اور انگریزی میں ماسٹرز اور ساتھ بی ایڈ، ایل ایل بی کی ڈگریاں بھی حاصل کررکھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سروس کے دوران ہی 2021 میں ایک مثالی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ علاوہ ازیں ’’کڑوا سچ‘‘ کے نام سے روزنامہ’’پاکستان‘‘ اور دیگر قومی اخبارات کے لیے باقاعدگی سے کالم بھی لکھتے ہیں۔
پانچ سو اْنسٹھ صفحات پر مشتمل اس خودنوشت داستانِ حیات بحیثیت مجموعی بیوروکریسی، سیاستدانوں اور عوام الناس کے مابین آئے روز پیش آمدہ معاملات، مصائب و مشکلات کی نہایت اچھے پیرائے میں منظرکشی کی گئی ہے۔ معروف صحافی ، دانشور و تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کی رائے کتاب کی رونق کو دوچند کرتی ہے۔ خوبصورت و دیدہ زیب طباعت پر مصنف اور ناشرین کو مبارکباد اور تحسین پیش کرتا ہوں۔