ذمے دار کو سزا دیجیے

یہ صورت حال ننھے ابراہیم کی اذیت ناک موت کے باعث بھی پیدا ہوئی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا


ڈاکٹر یونس حسنی December 15, 2025

ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں تھوڑی دیر کے لیے جاگتے ہیں، شور و غوغا مچاتے ہیں، ہر طرف ہاہا کار پڑ جاتی ہے مگر پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، حالات پرسکون ہو جاتے ہیں اور ہم بڑے سے بڑے حادثے کو گوارا ہی نہیں کرتے، اسے یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

یہ صورت حال ننھے ابراہیم کی اذیت ناک موت کے باعث بھی پیدا ہوئی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا، اخبارات چلا اٹھے اور ہر طرف سے آہ و بکا کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ادھر بچے کے والدین غم سے نڈھال، بدحال اور پریشانی کی مجسم تصویر بنے رہے، خصوصاً والدہ کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ وہ ہوش و ہواس کھو بیٹھی تھی اور بس اپنے بچے کی متلاشی تھی، اسے یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ جس بچے کی متلاشی ہے، وہ اسے زندہ مل سکے گا یا پھر وہ اس کی لاش ہی پا سکے گی۔

کوئی پندرہ گھنٹے کے بعد بچے کی لاش تقریباً ایک کلو میٹر دور نالے سے برآمد ہوئی اور لاش ایک نوجوان لڑکے کے ہاتھ لگی جو اسے لے کر جائے حادثہ پر پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جوں ہی پولیس کو لاش مل جانے کی اطلاع ملی انھوں نے نوجوان لڑکے سے لاش حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی تاکہ اسے یعنی لاش کو تلاش کرنے کا سہرا اپنے سر باندھ سکیں۔ بہرحال لاش ملی تو ایک طرف بے قرار والدین کو قرار آیا۔ قرار کیا خاک آیا ہوگا، یہ وہ غم ہے جو تاحیات انھیں یاد آتا رہے گا اور جس کی زہرناکی والدین کبھی نہ بھول سکیں گے۔

ابتداً ہر طرف سے مایوسی، گھبراہٹ، بے چینی ہی نظر آتی تھی اور اطمینان کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے جرأت کا اظہار کیا۔ واقعہ کے دوسرے روز ہی سہی، بچے کے گھر پہنچے، اس کے والدین سے تعزیت کی اور فرمایا کہ بحیثیت میئر کراچی اس حادثے میں غفلت کی ذمے داری کا تعین تو ہوتا رہے گا، البتہ اس کی ذمے داری میں قبول کرتا ہوں اور آپ لوگوں سے معافی کا خواست گار ہوں۔

میئر صاحب پرکوئی دباؤ تھا یا یہ ان کے اندر کی انسانیت کا تقاضا تھا کہ انھوں نے ذمے داری کا تعین ہونے سے قبل ہی اپنی اور اپنے حصے کی ذمے داری کو فراخ دلی سے قبول کیا۔ اس سے ایک طرف بچے کے والدین کی دل جوئی ہوئی اور اس حادثے کے جاں کاہ اثرات کو زائل کرنے کی صورت تو کیا پیدا ہو سکتی تھی بہرحال انسانیت کی ایک کرن نظر آئی اور والدین کو ڈھارس بندھی کہ ان کے غم میں کوئی شریک ضرور ہے۔

اب مختلف سرکاری اور میونسپل ادارے ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں، حکومت سندھ نے ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ایسٹ، ڈی ایس پی نیو ٹاؤن اور علاقے کے ایک کانسٹیبل کو معطل کردیا ہے۔ حکومت سندھ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے، جو اس معاملے میں غفلت برتنے والوں کا تعین کرے گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ غفلت برتنے والوں کا تعین ہو جانے کی صورت میں کسی کو ذمے دار قرار دے کر اسے سزا دی جا سکے گی یا نہیں کیونکہ ہمارے یہاں عموماً کمیٹیاں معاملات کو رفع دفع کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں پھر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس گٹر میں گر کر بچہ ہلاک ہوا ہے وہ گٹر ایک مارٹ کے بالکل سامنے ہے۔ اب ذمے داری کا تعین شروع ہوتے ہی جب مختلف ادارے ایک دوسرے کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں، وہیں ایک موقف یہ ہے کہ مین ہول متعلقہ مال کے سامنے ہے، اگر اس کا ڈھکن کھلا رہ گیا تھا تو یہ مال کی ذمے داری تھی کہ وہ گٹر کی مرمت کرا کے ڈھکن لگواتا، اگر یہ مال انتظامیہ کی ذمے داری قرار دی جائے تو اسے مال کی اخلاقی ذمے داری قرار دیا جا سکتا ہے مگر جو ادارے گٹر کے ڈھکن لگانے کے ذمے دار ہیں ان کو نظرانداز کرکے ایک ’’دکان دار‘‘ سے یہ کہنا کہ یہ مین ہول اس کی دکان کے سامنے تھا، اس نے ڈھکن کا انتظام کیوں نہیں کر دیا؟ بہرحال اس منطق پر آپ سر دھن لیجیے اور انتظارکیجیے کہ سرکارکی مقررہ کمیٹی ذمے داری کس ادارے کے سر ڈالتی ہے اور جس کے سر ذمے داری ڈالی جاتی ہے اسے سزا کیا دی جاتی ہے۔

جائے وقوع پر لگے ہوئے کیمرے نے دکھایا ہے کہ گٹر پر ڈھکن لگا ہوا تھا مگر ایک ڈمپر غلط سمت سے آیا تو مین ہول پر سے گزرگیا جس کی وجہ سے گٹرکا ڈھکن ٹوٹ کر نالے میں جا گرا اور مین ہول نے ایک بڑے شگاف کی شکل اختیار کر لی۔ یہ ڈمپر بھی کسی ٹھیکے دار کا تھا جو یہاں ’’ ترقیاتی‘‘ کام انجام دے رہا تھا۔ اس نے ’’ترقیاتی کام ‘‘ یہ کیا کہ مین ہول پر لگے ڈھکن کو اکھاڑ پھینکا اور مین ہول کے بجائے اس جگہ ایک بڑا شگاف بن گیا جسے ہول کہنا بھی خلاف عقل ہے۔

مقامی دکان داروں کا کہنا ہے کہ مین ہول کے ڈھکن کا اس طرح ٹوٹ کر نالے میں جا گرنا بھی کئی دن پہلے کی بات ہے اور مین ہول اپنی تباہ شدہ شکل میں پچھلے دس پندرہ دن سے کھلا پڑا تھا۔

بہرحال یہ جن اداروں کی غفلت ہے، ان کی غفلت اور ذمے داری کا تعین کیا جانا ضروری ہے تاکہ غفلت برتنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے نتیجے میں ہونے والی موت قتل غیر عمد سے ملتی جلتی چیز ہے اس لیے ذمے داری کا صرف تعین ہی نہیں کیا جائے بلکہ ذمے داران سے اس ’’قتل غیر عمد‘‘ کا معاوضہ میت کے متعلقین کو ادا کرایا جائے۔

یہ والدین کی اشک شوئی نہیں بلکہ ہر غفلت برتنے والے کی سزا ہے جو اسے ملنی چاہیے ورنہ لوگ غفلت پر دلیر ہوکر اسے برتا کریں گے اور یوں کوئی کمسن ابراہیم پھر بہیمانہ طور پر موت سے ہم کنار ہوتا رہے گا۔

مقبول خبریں