نیتن یاہو کی معافی اور عالمی انصاف کا بحران

نیتن یاہو کی درخواست ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل پر دبائو ڈال رہے ہیں


ایڈیٹوریل December 02, 2025
اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے کرپشن مقدمات پر صدر سے معافی کی اپیل کردی

اسرائیلی وزیر اعظم نے بدعنوانی کے مقدمات میں صدارتی معافی کی درخواست دے دی۔ اسرائیلی صدر کے دفتر نے اسے غیر معمولی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام قانونی رائے لینے کے بعد معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔ نیتن یاہو کی درخواست ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان مقدمات میں انھیں معاف کر دیا جائے، جب کہ 2024 میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) بھی ان کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔

 دوسری جانب اگلے روز نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان غزہ میں فوج بھیجنے پر آمادہ ہے مگر پاکستانی فورس کسی بھی صورت میں حماس کو غیر مسلح کرنے میں استعمال نہیں ہوگی، اس کا کام غزہ میں امن قائم رکھنا ہے نافذ کرنا نہیں ہے۔

دنیا اس وقت ایک انتہائی پیچیدہ اور نازک دوراہے پر کھڑی ہے جہاں طاقت، قانون، اخلاقیات اور عالمی سفارت کاری کا پورا ڈھانچہ لرزتی بنیادوں پرکھڑا محسوس ہوتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ، عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں تیزی سے آنے والی تبدیلیاں اور قانون کی عمل داری کے بارے میں اٹھتے سوالات ایک نئے عالمی بحران کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

ایسے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے اپنے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمات سے متعلق صدارتی معافی کی باضابطہ درخواست ایک نہایت سنگین سیاسی و قانونی پیش رفت ہے۔ یہ اقدام نہ صرف اسرائیلی سیاست کے بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اندر طاقت کا توازن کیسے بگڑ چکا ہے۔

عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو نے صدر اسحاق ہرزوگ کو ایک غیر معمولی تحریری درخواست جمع کرائی ہے جس میں انھوں نے اپنے خلاف جاری تین سنگین مقدمات رشوت، دھوکادہی اور اختیارات کے غلط استعمال سے معافی کی استدعا کی ہے۔ اسرائیلی صدر کے دفتر نے بھی اس امر کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے سے قبل تمام قانونی آراء اور آئینی پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا، لیکن یہ ’’سنجیدگی‘‘ بذاتِ خود کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔

کیا قانون کی بالادستی کا دعویٰ کرنے والی اسرائیلی ریاست واقعی ایک ایسے وزیر اعظم کو معافی دینے پر غور کرے گی جس کے خلاف ثبوت مضبوط، مقدمات طویل المدتی اور عدالتی کارروائی مسلسل چل رہی ہے؟ یا یہ بھی وہی طاقت کا کھیل ہے جو دہائیوں سے خطے کو عدم استحکام کا شکار بنائے ہوئے ہے؟نیتن یاہو اپنے وڈیو بیان میں یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ مقدمات قوم میں تقسیم کا باعث بن رہے ہیں اور معافی ’’ قومی اتحاد‘‘ کی بحالی میں مدد دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت میں باقاعدگی سے پیش ہونا ان کی قومی ذمے داریوں سے توجہ ہٹا رہا ہے، لیکن یہ بیانیہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی قائل کرنے والا۔ دنیا کی سیاسی تاریخ ایسے رہنماؤں کے بیانات سے بھری پڑی ہے جو جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو انصاف کے بجائے قومی اتحاد، استحکام اور ریاستی مفاد جیسے مبہم نعروں کو اپنے دفاع کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک عوامی منتخب وزیراعظم قانون سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ کیا ایک ایسے شخص کو، جس کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عدالتی کارروائی کے آخری مراحل میں ہوں، محض سیاسی مجبوریوں یا عالمی سفارتی دباؤ کی بنیاد پر معافی دی جا سکتی ہے؟یہاں ایک اور بڑا پہلو امریکی سیاست کا ہے۔ رپورٹس کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ نیتن یاہو کو معاف کردیا جائے۔

ٹرمپ کے اپنے سیاسی پس منظر اور عدالتی معاملات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات خود اس تضاد کی نشاندہی کرتی ہے جس نے عالمی سیاست کو انتہائی بے سمتی کا شکار کر رکھا ہے۔ اس تناظر میں 2024میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ کا اجرا بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے رہنما کے لیے بدعنوانی جیسے مقدمات سے قومی مفاد کے نام پر جان چھڑانا دراصل انصاف کے عالمی نظام پرکاری ضرب کے مترادف ہوگا۔

اسرائیلی سیاست کے اس بحران کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں قانون کی بالادستی کا درس دینے والی قوتیں خود اس مقام پر کھڑی ہیں جہاں انصاف اور طاقت کے درمیان کشمکش واضح نظر آتی ہے، اگر ایک طاقتور ریاست کا سربراہ بدعنوانی کے مقدمات سے بچنے کے لیے سیاسی استثنیٰ کا سہارا لے سکتا ہے تو دنیا کو یہ یقین دلانا مشکل ہو جائے گا کہ انصاف کا نظام سب کے لیے برابر ہے۔ اسرائیل میں موجود داخلی سیاسی تقسیم، فلسطین کے خلاف جاری جنگ اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید پہلے ہی نیتن یاہو کی حکومت کو کمزور کر چکی ہے۔ ایسے میں معافی کی درخواست کو کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد کے نام پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس تمام منظر نامے میں پاکستان کا کردار اور بیانات بھی بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دفترِ خارجہ میں ایک اہم بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان غزہ میں امن قائم رکھنے کے لیے عالمی استحکام فورس میں اپنی شمولیت پر اصولی آمادگی رکھتا ہے، لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کردار امن قائم رکھنا ہو گا، نہ کہ غزہ میں کوئی ایسا عمل نافذ کرنا جو فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کا سبب بنے۔ یہ مؤقف نہ صرف اصولی ہے بلکہ موجودہ حالات میں خطے کے حساس سیاسی ماحول کی درست ترجمانی بھی کرتا ہے۔

غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر افراد، تباہ شدہ اسپتال اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی غیر جانبدار امن فورس تبھی مؤثر ہوگی جب اس کا مقصد حقیقی امن، انسانی جانوں کا تحفظ اور جنگ بندی کو یقینی بنانا ہو۔ اس کے برعکس اگر ایسی فورس کو فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے یا اسرائیلی خواہشات کے نفاذ کا ذریعہ بنایا گیا، تو یہ فورس نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بھی بنے گی۔ اس سلسلے میں پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ امن قائم رکھنے کا عمل فلسطینی عوام کی مرضی اور ان کی فلاح کے مطابق ہونا چاہیے۔

 نہ کہ کسی طاقتور ریاست کے دباؤ یا مفاد کے تحت۔پاکستان کی جانب سے غزہ میں فوج بھیجنے کی اصولی آمادگی ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان کی کوئی بھی شمولیت عالمی اتفاقِ رائے، واضح مینڈیٹ، اور مکمل شفاف ضوابط کی پابند ہوگی۔ اسحاق ڈار نے درست طور پر واضح کیا کہ ’’ہم امن قائم رکھنے کے لیے ہیں، نافذ کرنے کے لیے نہیں۔‘‘ یہ جملہ ایک بنیادی فلسفے کا اظہار ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مرکز میں ہونا چاہیے، یعنی انصاف، عالمی اصول اور کمزور اقوام کے حقوق کا دفاع۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا آج دہری پالیسیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

ایک جانب طاقتور ریاستیں اپنے سربراہوں کو قانون کے چنگل سے بچانے کے لیے مؤقف بناتی ہیں، دوسری جانب کمزور اقوام پر انصاف کے نام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکستان کا متوازن اور اصولی مؤقف اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی سیاست اس وقت ایک ایسے مرحلے پر ہے جہاں اخلاقیات اور قومی مفاد کے درمیان توازن قائم کرنا دشوار ہو چکا ہے، لیکن وہ اقوام جو اصولی مؤقف کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں، تاریخ میں وہی احترام پاتی ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم کی معافی کی درخواست اور پاکستان کا غزہ سے متعلق حالیہ مؤقف دراصل اس بڑے عالمی تضاد کی علامت ہیں۔ ایک طرف وہ ریاست ہے جو اپنے قانون کو بھی سیاسی مصلحتوں کے آگے قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور دوسری طرف وہ ملک جو عالمی امن کے لیے اصولی موقف اپنائے ہوئے ہے۔ یہ تضاد نہ صرف موجودہ عالمی سیاست کی حقیقت بیان کرتا ہے بلکہ آنے والے وقت کی سمت بھی واضح کرتا ہے، اگر طاقتور قانون سے بالاتر رہیں گے اور کمزوروں پر قانون نافذ ہوگا، تو دنیا میں امن ایک سراب بن جائے گا۔اسی لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے اپنی ساکھ بچانے کے لیے واضح اور منصفانہ فیصلے کریں۔ اسرائیل ہو یا کوئی اور ملک، حکمرانوں کو قانون کے کٹہرے میں جواب دہ ہونا ہی چاہیے۔

نیتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمات سے بچانے کی کوئی بھی کوشش دراصل انصاف کے عالمی اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہوگی۔ اس کے برعکس فلسطین، خصوصاً غزہ کے عوام کے لیے کوئی بھی امن فورس تبھی قابلِ قبول ہوگی جب وہ غیر جانبدار ہو، انسانی حقوق کی علمبردار ہو اور سیاسی ایجنڈے سے پاک ہو۔دنیا کو اس دوراہے سے نکلنے کے لیے انصاف، شفافیت اور اصولوں کی سیاست کو دوبارہ اپنا دھارا بنانا ہوگا۔ ہر وہ کوشش جو طاقتور کو بچائے اور کمزور کو قربانی کا بکرا بنائے، دنیا کو مزید انتشار کی طرف دھکیلتی رہے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون سا ملک اصول پر قائم رہا اور کون سا رہنما قانون سے بھاگ کر سیاسی نعروں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا رہا۔

مقبول خبریں