بیچ میں رہ گئی بات

آئی ایم ایف نے چھ اہم شعبوں کی نشاندہی کی ہے جہاں پاکستان کا نظام مسلسل ناکامی کا شکار ہے


خالد محمود رسول December 07, 2025

چند روز قبل آئی ایم ایف کی ایک اور رپورٹ نے ہمیں اصلاحات کی یاددہانی کروائی ہے۔ ہر حکومت کی طرح یہ حکومت بھی اصلاحات کے لیے ’’پر عزم‘‘ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اصلاحات کا معاملہ اس مریض جیسا ہے جو اپنے مرض کے لیے بار بار ڈاکٹر کے پاس تو جائے مگر پرہیز اور علاج پر عمل کبھی نہ کرے اور پھر گلہ کرے کہ صحت یاب نہیں ہو رہا، مرض وہیں کا وہیں ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان پر ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے: گورننس اینڈ کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ۔ آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ ہمارے ریاستی اور گورننس نظام کا الٹراساؤنڈ ہے۔

رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں گورننس اور کرپشن کا ناسور پوری ریاستی مشینری میں پھیلا ہوا ہمہ گیر عارضہ ہے: کمزور گورننس، کرپشن، عدم شفافیت، سیاسی دخل اندازی اور انصاف کی کمزوری۔ یہ رپورٹ ان تمام خرابیوں کی نشان دہی کرتی ہے جس کا رونا ہمارے کاروباری اور غیرکاروباری حلقے روتے رہے ہیں اور دنیا ہمیں ہر الم غلم عالمی رینکنگ انڈکسوں کے ذریعے باور کرواتی رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے چھ اہم شعبوں کی نشاندہی کی ہے جہاں پاکستان کا نظام مسلسل ناکامی کا شکار ہے:

اول: ٹیکس نظام: کمزور، پیچیدہ اور امتیازی ہے۔

دوم: سرکاری اخراجات بے قابو اور طریقہ کار غیرشفاف ہے۔

سوم: پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بدانتظامی اور کرپشن نے وسائل کے اجاڑے کو ایک مستقل صورت دے رکھی ہے۔

چہارم: کرپشن کا فیصلہ سازی کے ہر درجے پر راج ہے۔

پنجم: عدالتی نظام: تاخیر، عدم یکسانیت، کمزور نفاذ، سول مقدمات کا فیصلہ کئی سال کھینچ جاتا ہے۔

ششم: عوامی شفافیت اور ڈیٹا کی کمی اور پالیسی سازی میں عوامی شرکت نہ ہونے کے برابر۔

اگر یہ خرابیاں دور ہوں تو آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان اپنی معاشی کارکردگی میں 5 سے 6.5 فیصد اضافی پوائنٹس تک بہتری لا سکتا ہے۔ کون مر نہ جائے اس سادگی پر!

معروف ماہر معیشت اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد کاردار نے اس رپورٹ پر اپنے تجزیے میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان کے معاشی ماڈل کی تشکیل میں IMF نے اپنی ذمے داری کو کیسے نبھایا ہے؟

شاہد کاردار کے مطابق آئی ایم ایف کی 186 صفحات پر مشتمل رپورٹ نے وہی عمومی باتیں دہرائی ہیں جو پاکستان میں ہر خاص و عام کے علم میں ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان کی معاشی پالیسیوں کے اہم فیصلے اکثر انھی بین الاقوامی اداروں کے مشوروں اور شرائط کے تحت کیے گئے۔ لہٰذا اگر آج انھی شعبوں کی کمزوری کا رونا ہے تو پھر اس صورتحال میں IMF کا کردار بھی زیر بحث آنا چاہیے۔

اس ضمن میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہم نکتہ معاشی پالیسیوں کی تشکیل کا نہیں، اس سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کا ہے جو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا۔ ٹیکس اصلاحات کی مثال لے لیں… IMF نے ہمیشہ ٹیکس نیٹ بڑھانے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ کرنے، مراعات ختم کرنے اور بڑے شعبوں کو دستاویزی معیشت میں لانے پر زور دیا ہے۔

یہ سب بنیادی اقتصادی اقدامات ہیں اور آئی ایم ایف کا مشورہ غلط بھی نہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں موجود طاقت کے توازن، سیاسی مفادات، اشرافیہ کے دباؤ اور بیوروکریسی کے مزاحمتی رویے کے ہوتے ہوئے یہ اصلاحات نافذالعمل نہیں ہوسکیں۔

رپورٹ میں مسئلہ بیان تو ہے، مگر اس نظام کی سیاسی معاشیات (Political Economy) کے بھاری بھرکم اثرات کا اعتراف، ادراک اور گلوخلاصی کا خاکہ مفقود ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کا سب سے بڑا خلا یہی ہے کہ وہ گورننس کو تکنیکی مسئلہ سمجھ کر اقدامات تجویز کرتی ہے، جب کہ گورننس بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ ہے۔ فیصلہ سازی نہ صرف تکنیکی صلاحیت کا تقاضا کرتی ہے بلکہ پالیسی کے نتائج کا سب سے بڑا اثر ان طبقات پر پڑتا ہے جو سیاسی عمل میں سب سے زیادہ موثر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر اصلاحات کا پہیہ بلآخر اسی مقام پر آ کر رک جاتا ہے، جہاں طاقتور گروہوں کے مفادات متاثر ہونے لگتے ہیں۔

عالمی اداروں کی سفارشات اپنی جگہ درست، مگر ان کا عملی اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب اصلاحات کی اونرشپ پاکستانی سیاسی قیادت، بیوروکریسی، کاروباری طبقے اور سول سوسائٹی کے درمیان مشترکہ ہو۔

رہی آئی ایم ایف کی تشخیص، تو یہ حقیقت متعدد بین الاقوامی اشاریوں سے پہلے ہی آشکار ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) میں پاکستان کا 180 ممالک میں 135واں نمبر ہے۔

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (WJP) کے مطابق پاکستان 130 ممالک میں 129ویں یا 130ویں نمبر کے آس پاس ہے۔

یہ اعداد و شمار نہ صرف آئی ایم ایف رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ اسٹرکچرل ہے، عارضی نہیں۔

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت 40.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں تنخواہ داروں سے تو ایڈوانس ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے لیکن اکثر طبقات کو استثنیٰ دیا جاتا ہے، وہاں غربت میں کمی کیسے ممکن ہے؟

تضادات اور استحصال سے لتھڑے اس اشرافیائی نظام کا نتیجہ ہے کہ وسائل کمزور طبقے تک نہیں پہنچتے، ترقیاتی بجٹ کاغذوں میں خرچ ہو جاتا ہے، تعلیم، صحت، انصاف سب کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ اس گھن چکر کو توڑے بغیر معاشی بہتری ناممکن ہے۔

اس رپورٹ کے جاری ہونے پر دو چار روز باہمی سیاسی الزام تراشی نے میڈیا میں رونق لگائے رکھی، لیکن پھر وہی… رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گیا۔

میڈیا اور عوام کو ایک نوٹیفکیشن کی فکر لگ گئی، پھر بیانیوں کے سدھار اور ٹکراؤ کی بات چل نکلی۔ عوام کے مسائل کی بات اس دوران ایک بار پھر بیچ میں رہ گئی۔ بقول امجد اسلام امجد:

تیرے اردگرد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا، مری بات بیچ میں رہ گئی

تری بے رخی کے حصار میں، غم زندگی کے فشار میں

مرا سارا وقت نکل گیا، مری بات بیچ میں رہ گئی

مقبول خبریں