لاہور:
کاہنہ سے مبینہ اغوا ہونے والی فوزیہ بی بی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے 15 روز میں تفتیش کی پراگرس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
دوران سماعت، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر معاملے کی ایڈشنل آئی جی نے انکوائری کی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تحویل میں لی گئی فائل سے کچھ نہیں ملا خالی ہے، پولیس کی بری عادت ہے فائل سے کچھ چیزوں کو نکال لیتی ہے۔
چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، ایسے غیر سنجیدہ اہلکاروں کو پولیس محکمے میں نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ انکوائری کے بعد تفتیشی کو برطرف کرکے پیکا کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، پولیس فوزیہ کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لے رہی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے فوزیہ کا آئی ڈی کیوں نہ بنوایا؟ وکیل نے بتایا کہ لاعلمی کی وجہ سے درخواست گزار کے تینوں بچوں کے شناختی کارڈز نہیں بنوائے گئے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ فیملی ٹری میں فوزیہ کا نام بھی شامل نہیں ہے، کوئی دستاویزی ثبوت دیں جس سے ثابت ہو سکے فوزیہ آپ کی بیٹی ہے۔ آپ نے بچوں کی تعداد کم کیوں بتائی؟ فوزیہ کو جنات لے گئے یہ پتہ ہے لیکن اتنا نہیں پتہ آپ کو کہ شناختی کارڈ نہیں بنایا، فیملی ٹری میں نام نہیں۔
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ فوزیہ کی ایک تصویر اور بھائی کی شادی کی ویڈیو پولیس کو دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شادی کی ویڈیو بنانے کا پتہ ہے لیکن شناختی کارڈ کیوں نہ بنوایا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس کا کام خاتون کو بازیاب کرنا ہے وہ کرلے گی، پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر کا کتا گم ہوگیا تھا اس کو ڈھونڈ لیا گیا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ایسی باتیں نا کریں، میڈیا کے لیے خبر نا بنائے، ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔