کبھی لان کی گھاس کاٹنے کے لیے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے والا ایک عام سا لڑکا آج امریکا میں ای کامرس اور تھری ڈی پرنٹنگ کی دنیا کا ابھرتا ہوا نام بن گیا۔
اگر آپ ذہین ہیں اور منفرد چیزیں تخلیق کرنے کی قدرتی صلاحیت سے مالامال ہیں تو یقین جانیں ایک دن خود بھی دولت سے مالا مال ہوجائیں گے۔
ایسا ہی ایک کرشمہ امریکا کے 18 سالہ مائیکل سیٹرلی کے ساتھ پیش آیا جس نے ایک نہایت سادہ مگر تخلیقی خیال سے ایسی کامیابی حاصل کی ہے جو ہزاروں نوجوانوں کے لیے نمونہ بن گئی۔
اس کہانی کا آغاز انسٹاگرام کی ایک مختصر مگر غیر معمولی ویڈیو سے ہوا۔ ویڈیو میں مائیکل ایک خاص ہولڈر کے ذریعے ڈاکٹر پیپر کا کین پیتا نظر آتا ہے۔
مائیکل سیٹرلی جیسے ہی ایک کین ختم کرتا ہے اچانک دوسرا کین سامنے آ جاتا ہے اور ہولڈر کو ہلکا سا جھٹکا دیتا ہے، جس سے پہلا کین ایسے اچھل کر دور جاتا ہے جیسے کوئی گولی فائر ہو گئی ہو۔
پھر وہ دوسرا کین پینا شروع کر دیتا ہے اور اس کے بعد تیسرے کین کی باری آتی ہے اور پہلی کی طرح دوسرا کین بھی ہوا میں فائر ہوجاتا ہے۔ بس یہی منظر سوشل میڈیا پر دھماکہ کر گیا۔
اپنے تخلیق کردہ اس ہولڈر کو اس نے “ٹیکٹیکل ری لوڈر” کا نام دیا اور یہی ویڈیو انسٹاگرام پر 5 کروڑ سے زائد ویوز لے گئی۔
ابھی اس کہانی کا دوسرا اور نہیات کارگر ثابت ہوانے والا حصہ باقی ہے۔ یہ وڈیو محض چند دن کی شہرت تک محدود نہیں رہی بلکہ اسی نے مائیکل کے کاروبار “کروز کپ” کی بنیاد رکھ دی۔
یہ کمپنی تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کردہ منفرد ایکسسریز فروخت کرتی ہے، جن میں سب سے مقبول یہی مشروب ہولڈر ہے۔
صرف نومبر 2025 میں مائیکل نے 3 لاکھ ڈالر سے زائد فروخت کی، یہ اعداد و شمار شاپی فائی ڈیٹا سے سامنے آئے ہیں۔ یوں ایک سادہ سا خیال چند ہی مہینوں میں ماہانہ لاکھوں ڈالر کمانے کا ذریعہ بن گیا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہائی اسکول میں ڈیزائن کلاس کے دوران مائیکل نے تھری ڈی پرنٹنگ سیکھی اور یہی ٹیکنالوجی اس کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئی۔
میڈیا سے گفتگو میں مائیکل نے بتایا کہ صرف 100 ڈالر میں تھری ڈی پرنٹر خریدا، 20 ڈالر میں خام مال اور اب مصنوعی ذہانت سے ڈیزائن بنانا بھی آسان ہوگیا ہے۔
جیسے جیسے مانگ بڑھتی گئی مائیکل کا گھر ہی ایک چھوٹی فیکٹری بن گیا جہاں تہہ خانے میں پرنٹرز ہیں تو ڈائننگ روم میں پیکنگ کا سامان اور بیڈروم میں فوٹوگرافی ہورہی ہے۔
بعد ازاں اس نے ایک گودام منتقل ہو کر کام شروع کیا، جہاں اب 130 سے زائد تھری ڈی پرنٹرز چل رہے ہیں۔ اس کا اگلا ہدف 2026 تک فولاد سے بنی مصنوعات تیار کرنا ہے۔
مائیکل سیٹرلی نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ اگر آپ کے پاس کوئی خیال ہے، تو انتظار مت کریں۔ اسے فوراً حقیقت بنائیں۔ پہلی بار ناکامی ہو سکتی ہے مگر وہی ایک لمحہ پوری زندگی بدل سکتا ہے۔