اپوزیشن قومی کانفرنس: سیاسی رہنماؤں، وکلا، صحافیوں کا اسٹیبلشمنٹ کیخلاف مزاحمت کرنے پر اتفاق

پی ٹی آئی کو عوام نے مینڈیٹ دیا وہ مفاہمت کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرے ہم ساتھ دیں گے، قومی کانفرنس کے شرکا


ویب ڈیسک December 20, 2025

اسلام آباد:

تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قومی کانفرنس میں سیاسی رہنماؤں، وکلا، صحافیوں نے پی ٹی آئی کو مفاہمت کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے اور اس کا ساتھ دینے پر اتفاق کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اپوزیشن تحریک تحفظ آئین پاکستان کے تحت قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، وکلا، صحافیوں، دانش وروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔

سیاسی رہنماؤں نے آئینی ترامیم کو مسترد کیا، پارلیمنٹ کو بے اختیار کرنے کی مذمت کی۔ وکلا نے عدلیہ کو بے حیثیت کرنے اور صحافیوں نے پیکا ایکٹ کے خلاف آواز بلند کی، شرکا نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مفاہمت کے بجائے مزاحمت کرنے پر اتفاق کیا اور پی ٹی آئی کو مشورہ دیا کہ وہ مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی راہ اپنائے ہم ساتھ دیں گے۔

فضل الرحمان، نواز شریف بیٹھیں، 8 فروری میں جو جیتا مینڈیٹ اسے دیں، اچکزئی

کانفرنس سے خطاب میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئیں ایک دوسرے کو معاف کریں ہم معاف کرتے ہیں، آئیں مل کر ملک پاکستان کو اس بربادی سے نکالیں، ہم جمہوری ڈائیلاگز کے لیے تیار ہیں، اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہتا ہے عمران خان سے ملاقات کی اجازت دیں۔

انہوں نے کہا کہ سزائیں تو آپ دے رہے ہیں مگر ملاقات تو فیملی اور قائدین کا حق ہے وہ تو دیں، مولانا فضل الرحمان، نواز شریف، جماعت اسلامی سمیت قائدین بیٹھیں اور بات کریں، 8 فروری کے الیکشن میں جس کی جیت ہوئی اسے الیکشن دے دیں۔

انہوں نے کہا کہ 5309 ارب کی کرپشن کی رپورٹ سامنے آئی ہے، ہمارے ادارے ہماری آنکھیں ہیں اور ہمارے کان ہیں وہ اپنا کام ضرور کریں، سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، حقوق جدوجہد سے ملتے ہیں، پیچھے ہٹنے سے نہیں، جاوید ہاشمی

سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی نے کہا کہ جیلیں اور قربانیاں ہی قوموں کو آزادی دلاتی ہیں، آزادی طویل اور صبر آزما قربانیوں کا نتیجہ ہے، 30 سے 40 سال کی جدوجہد کے بعد آزادی ممکن ہوئی، علمائے کرام اور سیاسی کارکنوں کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، حقوق جدوجہد سے ملتے ہیں، پیچھے ہٹنے سے نہیں، سب ایک ہیں تقسیم کی باتیں قبول نہیں۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں سبق دیتے ہیں، کہتے ہیں یہ کرو، وہ کرو، ہم ہمیشہ سر ہلا دیتے ہیں، ہم کہتے ہیں آؤ مکالمہ کریں، مگر بات آگے نہیں بڑھتی میں کسی تحریک یا ٹکراؤ کی سیاست کا حامی نہیں ہوں، میں نہ کسی کی توہین چاہتا ہوں، نہ کسی کو نیچا دکھانا مقصد ہے، ہم نے ساری عمر جدوجہد کی ہے نعروں کی سیاست نہیں کی۔

قوم اسٹریٹ موومنٹ کے لیے تیار رہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، سلمان راجا

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج ہم عدالت گئے کہ سماعت تھی مگر توشہ خانہ ٹو کا فیصلہ آگیا جس کی توقع نہیں تھی، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اس جبر کو سہنا ہے یا نہیں، اس معاملے کا تعلق کسی ایک سیاسی جماعت سے نہیں یہ مجموعی معاملہ ہے، ظلم کو ظلم کہنا ہے، یہ بات لے کر ہمیں ہر پاکستانی کے پاس جانا ہے، آج انصاف نہیں مل رہا یے جبر کے نظام سے چھٹکارا نہیں مل رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ دفعہ 140 کے تحت ہمارے قدم روک دیئے جاتے ہیں، ہمیں اکٹھے آگے بڑھنا ہے، بانی پی ٹی آئی نے پیغام دیا ہے کہ قوم اسٹریٹ موومنٹ کے لیے تیار رہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، آج ہم سب کو آگے بڑھنا ہے ہم اس غریب کے ساتھ ہیں جس میں آواز سننے والا کوئی نہیں، ہم اقتدار کی جنگ نہیں لڑنا چاہتے ہمیں اصولوں کی جنگ لڑنی ہے۔

ہمارے پاس کوئی آپشن باقی نہیں رہا اب ہم سڑکوں پر نکلیں گے، اسد قیصر

اسد قیصر نے کہا کہ اب ہمارے پاس کوئی آپشن باقی نہیں رہا اب ہم سڑکوں پر نکلیں گے اب صرف مزاحمت ہو گی، کوئی سمجھتا ہے کہ ڈر جائیں گے ان کی بھول ہے، ہم بانی پی ٹی آئی کے لیے میرٹ کے مطابق انصاف چاہتے ہیں۔

بدنیتی کی بنیاد پر مصنوعی اکثریت سے پاس کی گئی ترامیم کو واپس کروانا ہوگا، لیاقت بلوچ

جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم قومی محاذ پر غیر جانب دارانہ انتخابات کے لیے ہر قومی آواز کو طاقت ور بنانے کا کردار ادا کریں گے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے قومی ترجیحات کا تعین ہونا چاہیے، قومی ایجنڈے پر سیاسی جماعتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو اکٹھا ہونا ہوگا، پُرامن سیاسی جدو جہد کی جانب آگے بڑھنا ہوگا، قومی ترجیحات میں کم از کم ایجنڈا متفقہ آئین کا تحفظ کرنا ہے، آئین میں بدنیتی کی بنیاد پر مصنوعی اکثریت کے ساتھ جو ترامیم کی گئی ہیں انہیں واپس کروانا ہوگا۔

لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ماضی میں آمر آئین توڑتے رہے ایمرجنسی لگی، اب یہ راستہ اختیار کرلیا گیا کہ اپنی مرضی کے مطابق دو تہائی اکثریت بنالی، اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا، ججز کی سطح پر تقسیم سمیت بنچ اور بار کے فاصلے سے عدلیہ کی آزادی سلب ہوئی، عدلیہ کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ نا ممکن ہو چکا۔

تحریک انصاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرے ہم ساتھ کھڑے ہیں، ایمان مزاری

ایمان مزاری نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے کیوں کہ عوام نے عمران خان کو مینڈیٹ دیا، تحریک انصاف اپنی پالیسی واضح طور پر بیان کرے اور فیصلہ کرے کہ کیا آپ سہیل آفریدی والی مزاحمت چاہتے ہیں یا مفاہمت کا راستہ چاہیے؟ مگر یہ واضح رہے کہ ظالم، جابر اور قابض کے سامنے مفاہمت نہیں مزاحمت ہی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی کی ووٹر یا سپورٹر نہیں ہوں مگر میری پی ٹی آئی سے درخواست ہے کہ اپنی پالیسی واضح کردے کہ وہ مزاحمت کے لیے تیار ہے تو ہم سب اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب میری والدہ شیریں مزاری تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر تھیں تو میں خود پی ٹی آئی کی سخت مخالف تھی اور پی ٹی آئی پر شدید تنقید کرتی تھی مگر یہ بات ہے مگر آج یہ بات پی ٹی آئی یا عمران خان کی نہیں ہے پاکستان کے عوام کے اور اس کے مینڈیٹ کی ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ عوام کے مینڈیٹ پر دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا جائے۔

انہوں ںے کہا کہ کل جو عمران خان کے پر تنقید کرتے تھے آج وہ عمران خان کے حقوق کی بات کررہے ہیں کیوں کہ ہم اپنے عوام کے حقوق کی بات کررہے ہیں اور آج مجھ سمیت پی ٹی آئی پر تنقید کرنے والے اڈیالہ کے باہر جاکر عمران خان کی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں جن پر اڈیالہ کے باہر بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، ہم مل کر ایسے رویے کی مذمت کرنی چاہیے چاہے وہ ماہ رنگ بلوچ ہو، عمران خان ہو یا علی وزیر ہو، ہم سب کو اس رویے کے خلاف ایک آواز ہوکر سڑکوں پر آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک غیرقانونی اقدام کے ذریعے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ہٹادیا گیا، ہمیں پتا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس کیوں بنایا گیا، میں کراچی بار ایسوسی ایشن اور کراچی کے وکلا کو اور لاہور کے وکلا کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ وہ آج بھی آئینی ترامیم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اسلام آباد کے صحافیوں کو بھی باہر نکلنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ صحافی کا سوال پوچھنا جرم بن چکا ہے، تنقید کرنا اور سچ بولنا اس ملک میں جرم بن چکا ہے اور آپ کو سچ بولنے پر گرفتار کرکے پورے ملک کا ٹور کرادیا جائے گا۔

مذاکرات کرنے ہیں یا مزاحمت یہ اختیار محمود اچکزئی اور راجہ ناصر کا ہے، بیرسٹرگوہر

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے اپنی تحریک کا نام تحریک تحفظ آئین پاکستان رکھا، حالات کا اندازہ ہوتا تو تحریک بحالی آئین پاکستان رکھتے، دو سال پہلے اقتدار میں آئی حکومت کے پاس سادہ اکثریت تک نہیں تھی، ہمارا مینڈیٹ چھینا گیا، عدلیہ کمپرومائز ہوئی، 26ویں ترمیم ہوئی، 42 بائی الیکشن میں پی ٹی آئی صرف دو نشستیں جیت سکی اور باقی تمام نشستیں ہم سے چھین لی گئیں 78 مخصوص نشستیں ہم سے چھینی گئیں، ہم امید کیے بیٹھے رہے کہ شاید حالات بہتری کی طرف چلے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کو کہا گیا 12 بجے سے پہلے پہلے گھر چلے جاؤ، وہ گھر نہ جاتے تو آج چیف جسٹس ہوتے، آج جسٹس جہانگیری کے ساتھ وہی ہو رہا تھا، آپ نے کہا ڈگری جعلی ہے وہ اب وکالت بھی نہیں کر سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک 70 سال سے مسائل میں گھرا رہا ہے، اس وقت ملک کے حالات دیکھیں میری ایک تجویز ہے، اس ملک کا مقبول ترین لیڈر بانی پی ٹی آئی ہے، حکومتی ایم این اے میرے ساتھ بیٹھا اس نے ہنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں الیکشن ہار کے سو گیا تھا اگلے دن مجھے جتا دیا گیا، ہری پور کا الیکشن ہم جیت چکے تھے۔

انہوں ںے کہا کہ ہم عدالت اور آئین و قانون کے راستے ڈھونڈھتے ہیں، ایک طرف عوام ہے اور دوسری طرف پاور ہے اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ ہمارے پانچ ہزار کارکنان جیلوں میں بند ہیں، آج ہمارے لیڈر کو پھر سزا سنا دی گئی عوام آج پھر تحریک تحفظ آئین پاکستان چلانے کو چلانے کے لیے تیار ہیں، لوگوں کو 140 سال تک کی سزا سنائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں وہ آخری شخص ہوں گا جو کہے گا کہ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں، میں نے عمران خان سے مذاکرات کی اجازت حاصل کی، عمران خان نے محمود خان اچکزئی اور راجہ ناصر عباس کو ذمہ داری دی ہے، بانی پی ٹی آئی اور 3 کروڑ ووٹر آپ دونوں کے پیچھے کھڑے ہیں، مذاکرات کرنے ہیں یا مزاحمت یہ اختیار محمود اچکزئی اور راجہ ناصر کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو ہمارے مینڈیٹ پر اعتراض ہے تو ہم سننے کو تیار ہیں، ہم بیٹھنے کو تیار ہیں بات کرنے کو تیار ہیں ایک دوسرے کو خطرہ نہ سمجھیں ایک دوسرے کو گالی نہ دیں۔

کوئی سوچتا ہے آج اس کی حکومت ہے وہ کل بچ جائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا، سہیل آفریدی

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کہا کہ آج میرے لیڈر سے متعلق ناانصافی پر مبنی فیصلہ ہوا، یہاں 26ویں اور 27 ویں ترمیم کا ذکر کیا جاتا ہے، ہمیں 26 ویں ترمیم سے پہلے بھی انصاف نہیں ملا، 26 ویں ترمیم سے پہلے بھی ادارے اور جمہوری نظام مفلوج تھا، بانی پی ٹی آئی اسی لیے بایو میٹرک کے ذریعے انتخابات کرانا چاہتے تھے، ہماری عدالتیں صرف فیصلے کر رہی ہیں انصاف نہیں، کوئی سوچتا ہے کہ آج اس کی حکومت ہے وہ کل بچ جائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بے گناہ ہیں ان کے خلاف بوگس مقدمات قائم کیے گئے، سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعت ہی رہنا چاہیے کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے، سیاسی لوگوں کے خلاف غلط روایات قائم کی جا رہی ہیں، یہ جمہوریت کی مضبوطی کی جنگ ہے۔

غیراعلانیہ نہیں اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے جو بالکل ضیا دور کی طرح ہے، مطیع اللہ جان

مطیع اللہ جان نے کہا کہ غیراعلانیہ نہیں اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، جس طرح سے میڈیا، عدالتوں اور حکومت کو چلایا جارہا ہے اس سے بڑا اعلان کیا ہوگا؟ جس طرح انہیں کنٹرول کیا جارہا ہے اب کسی اعلان کی ضرورت باقی نہیں رہی، یہ بالکل وہی مارشل لا ہے جو ضیا دور میں لگا ہوا تھا۔

شہروں، گلیوں، چوراہوں، پریس کلب غرض ہر جگہ مزاحمت کی ضرورت ہے، سینٹر مشتاق

سابق سینٹر مشتاق نے کہا کہ شہروں، گلیوں، چوراہوں، پریس کلب غرض ہر جگہ مزاحمت کی ضرورت ہے، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، میں پوچھتا ہوں صحافی کیوں جیلوں میں ہیں؟ میڈیا کے لیے پاکستان گوانتاموبے بن چکا ہے، آج اختلافی آوازوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے، صوبوں کو این ایف سی نہیں دیا جارہا،

تقریب میں دیگر رہنماؤں اور وکلا نے بھی خطاب کیا اور مفاہمت کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا۔

آج ہم پر پیکا ایکٹ لگا ہوا ہے اور یہ ایکٹ اسی حکومت کے ایوانوں سے آیا ہے، صحافی 

سینئر صحافی حبیب اکرم نے کہا کہ صحافت پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں، آج ہم پر پیکا ایکٹ لگا ہوا ہے اور یہ ایکٹ اسی حکومت کے ایوانوں سے آیا ہے، ہر جگہ ایک تقسیم پیدا کردی گئی ہے، اداروں اور سیاست دانوں کے درمیان خلیج اس قدر بڑھ چکی ہے اسے کم کرنے والے لوگ نہیں ہیں، ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کیا ہمارے پاس واقعی کوئی راستہ بچا ہے؟ یا ہمیں لڑنا ہی پڑے گا، کیا لڑائی کی کیفیت میں ملک اس کا متحمل ہوسکے گا؟ کیا کوئی اور صورت موجود ہے کہ ہم آگے بڑھ سکیں؟ ہمیں اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

توشہ خانہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہ سب کو پتا ہے، محسن داوڑ

محسن داوڑ نے کہا کہ ہم 78 سال سے ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں، عمران خان کے خلاف سزا کوئی نئی بات نہیں ایسے فیصلے ہم نے پہلے بھی دیکھے ہیں، توشہ خانہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہ سب کو پتا ہے اس میں کچھ نیا نہیں ہے، بس متاثرہ فریق بدلتا رہتا ہے۔

مقبول خبریں