ہم خود ہی کافی ہیں

دیکھئے تو واقعی حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے ملک کو ماضی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں


Zahida Hina September 28, 2014
[email protected]

KARACHI: دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا چند دہائیوں میں کیا سے کیا ہوگئی ہے۔ ہم ابھی تک پرانی دنیا میں زندہ ہیں' ماضی کی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے اردگرد جو واقعات ہو رہے ہیں' وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔

ہماری سمجھ میں یہی نہیں آتا کہ چین اور ہندوستان ایک دوسرے کے اس قدر قریب آجائیں گے کہ چینی صدر اور ہندوستانی وزیر اعظم ایک جھولے میں بیٹھے ہوئے جھول رہے ہوں گے' مزے مزے کے گجراتی پکوانوں سے مہمانوں کی خاطر داری ہو رہی ہو گی، چینی خاتون اول ہندوستانی ساڑی پہنے ہوں گی اور دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہو رہا ہو گا جیسے بہت دنوں کے بچھڑے ہوئے دوست دوبارہ آپس میں آن ملے ہیں۔

ہمارے اور ہندوستان کے درمیان محض ایک تنازعہ کشمیر کا ہے اور وہ بھی یوں ہے کہ وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے دونوں میں سے جس ملک سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کریں اُسے قبول کر لیا جائے۔ گویا ہمارا دعویٰ وہاں کے عوام کی رائے سے مشروط ہے۔ اس کے برعکس چین اور ہندوستان کے درمیان ایک نہیں متعدد ریاستوں کا تنازعہ موجود ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے اس کے علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے حد تو یہ ہے کہ ہندوستان کی ریاست ارونا چل پردیش کے بارے میں چین کا کہنا ہے کہ یہ ریاست اس کی ملکیت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چین نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس کے شہریوں کو ارونا چل پردیش جانے کے لیے کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ کہاں تنازعات کی شدت کا یہ عالم اور کہاں جدید دور کے نئے تقاضوں سے خود کو اتنی جلد ہم آہنگ کرنے کی خواہش کہ سارے جھگڑے پس پشت ڈال کر دونوں حکومتوں کے سربراہ ایک جھولے میں جھول رہے ہیں' اربوں ڈالر کے منصوبوں پر تالیوں کی گونج میں دستخط کر رہے ہیں۔

پڑوس میں یہ ہو رہا ہے اور ہم گل محمد کی طرح اپنی جگہ سے ہلنے پر آمادہ نہیں۔ ہم سے کچھ لوگوں کو اقتدار چاہیے۔ ہر قیمت پر چاہیے اور اس کے لیے غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقہ اختیار کرنے سے بھی وہ گریزاں نہیں۔ انتخابات میں نہیں جیت سکے تو کیا فرق پڑتا ہے' سڑکوں پر آ کر منتخب حکومت کو مفلوج کر دیا جائے۔ لاکھوں لوگوں کو لے کر اسلام آباد پر یلغار کی منصوبہ بندی کی جائے یہ منصوبہ ناکام ہو جائے تو جھنجھلاہٹ میں دارالحکومت کے حساس ترین ریڈ زون میں ڈیرے جما لیے جائیں اور ریاست کی علامت عمارتوں پر مظاہرین قبضہ جما لیں۔ کوشش کی جائے کہ حالات اتنے بدتر ہو جائیں کہ ایمپائر اپنی انگلی بلند کر دے' آئین اور جمہوریت کی بساط لپٹ جائے اور اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونے کی آرزو پوری ہو۔

خواہش اقتدار میں یہ نہیں سوچا گیا کہ اس صورتحال سے ملک کا کتنا نقصان ہو گا۔ جن لوگوں کی خواہش ایک نیا پاکستان بنانے کی ہے' کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ دارالحکومت کے ریڈ زون میں چند ہزار افراد کے دھرنوں کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ کئی سربراہان مملکت ان ہی دنوں پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے۔ جب ریڈ زون میں مظاہرین جمع ہوں' انقلابی اور جذباتی رہنما شعلہ بیانی کر رہے ہوں اور حکومت کو گرانے' پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے اور وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہاؤس سے باہر نکال لانے کا اعلان کر رہے ہوں تو ان حالات میں کس ملک کا سربراہ پاکستان آنے کا خطرہ مول لے گا؟ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہو گیا۔ ان کے دورے کو ملتوی کرانے والوں پر جب تنقید ہوئی تو تقریر میں کہا گیا کہ جھوٹوں نے غلط اعلان کیا تھا کہ چین کا صدر پاکستان آ رہا ہے' اسے تو پاکستان کا کوئی دورہ ہی نہیں کرنا تھا۔

اس سفید جھوٹ کی تردید کے لیے بیجنگ' چین کے سفارت خانے اور اسلام آباد سے بیان جاری کیا گیا جس میں تصدیق کی گئی کہ چین کے صدر کو پاکستان آنا تھا لیکن سیاسی ماحول کی وجہ سے یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ کسی نے یہ بھی نہ سوچا کہ حکومت سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ ملک اور ریاست کا تشخص پوری دنیا میں بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔

ہندوستان میں بھی عام انتخابات ہوئے۔ کانگریس کو بد ترین شکست ہوئی۔ بی جے پی اقتدار میں آ گئی۔ وہاں تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کے عام انتخابات میں بے قاعدگیاں نہ ہوتی ہوں' یہ ہر جگہ ہوتی ہیں حتیٰ کہ امریکا بھی اس سے مبرا نہیں۔ ہر ملک میں عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ کوئی شکایت ہوتی ہے تو داد رسی کا قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم ہیں کہ پرانی ڈگر چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وہ جماعت جو تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے نہ کر سکی ہو جس کے درجنوں امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہوں۔

جس نے دھاندلی یا بے قاعدگی کے خلاف 58 عذرداریاں داخل کی ہوں اور ان میں سے 90 فیصد کا فیصلہ بھی ہو چکا ہو اس کا یہ دعویٰ کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے کہ اس کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ہے؟ پارلیمنٹ کو کس کس طرح بے توقیر نہیں کیا گیا۔ اس میں بیٹھے معزز ارکان کو جوش خطابت میں چور' ڈاکو' خائن اور قاتل تک کہہ دیا گیا۔ ہندوستان کی لوک سبھا میں 50 سے زیادہ ارکان ایسے ہیں جن پر مختلف مقدمات چل رہے ہیں' وہاں تو کسی نے اپنی پارلیمنٹ کی اس طرح توہین نہیں کی۔ ایسا انداز خطابت اختیار کرنے کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ نہ امپائر کی انگلی بلند ہوئی' نہ وزیر اعظم سے غیر آئینی طور پر استعفیٰ لیا جا سکا اور نہ جمہوریت کا بستر گول ہوا۔ یہ تو ہونا ہی نہیں تھا۔ کیسے ہوتا یہ سب؟ جو چاہا وہ نہ ہوا البتہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا۔ معیشت کو کم از کم 700 ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔

یہ نقصان حکومت کا نہیں ملک کی معیشت کا ہوا ہے۔ مہنگائی' افراط زر' بے روزگاری کی شکل میں اس کی قیمت حکمران نہیں' پاکستان کے عوام اور تاجر ادا کریں گے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملنے والی رقوم رک گئیں اور روپے کی قدر گر گئی جس سے درآمدی اشیا مہنگی ہوئیں۔ اسٹاک مارکیٹ کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ نقصان بھی پاکستان کے چھوٹے سرمایہ کاروں کا ہوا۔ قومی رہنما تو بے غرض ہوا کرتے ہیں۔ ملک اور قوم کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے ملک' معیشت اور عوام کا نقصان نہیں کرتے۔ ہندوستان میں گنگا سیدھی بہہ رہی ہے اور ہم سندھ دریا کو الٹا بہانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کے غم میں ہلکان ہونے والے رہنما عوام کی زندگی اجیرن کر چکے ہیں۔ 7 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ایک سال میں 14 ارب ڈالر ہو گئے تھے۔

110 روپے کا ڈالر 98 روپے کا ہو گیا۔ 1500 انڈیکس کی اسٹاک مارکیٹ 30000 سے تجاوز کر گئی۔ ورلڈ بینک' آئی ایم ایف' ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام اہم مالیاتی اداروں نے پاکستان کے ساتھ روابط دوبارہ استوار کیے۔ ریلوے جو ٹھپ ہو گئی تھی وہ چلنے لگی' ملک میں سرمایہ کاری کی فضا ہموار ہوئی۔ ایک سال' محض ایک سال میں کیا یہ بہتر کام نہیں ہوئے؟ ایوانِ اقتدار میں چور دروازے سے داخل ہونے کی خواہش نے ایک سال کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ عمارت گرانی بہت آسان لیکن تعمیر کا عمل جاں گسل ہوتا ہے۔ جو نقصان ہو چکا اس کی تلافی برسوں میں ہو سکے گی۔ تاریخ ثابت کرے گی کہ ملک کو نقصان ہوا یا فائدہ پہنچا؟ تاریخ سے ڈرنا چاہیے۔

دیکھئے تو واقعی حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے ملک کو ماضی کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ چینی صدر اور ہندوستانی وزیر اعظم کو خوبصورت جھولے میں بیٹھا دیکھ کر خوشی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ ہم حقائق کو اب تک نہ سمجھ سکے لیکن ہمارے پڑوسی نے تو سمجھ لیا کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں نے دشمنی چھوڑ دی اور باہمی تجارت کو چند برسوں میں 100 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم کیا۔ دونوں نے یہ طے کیا کہ وہ باہمی اشتراک سے عالمی معیشت کی قیادت کریں گے' وقت ضایع کیے بغیر 20 ارب ڈالر کے منصوبے طے کیے اور کئی سو ارب ڈالر کے منصوبوں پر مذاکرات شروع کر دیے گئے۔

اپنے گھر کو دیکھا تو اداسی ہوئی۔ دو دشمن پڑوسی ملکوں نے اپنے ملکوں کے مفاد کے لیے دانش مندانہ رویہ اختیار کیا اور ہم سیاسی دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے کہ خود اپنا کئی کھرب روپے کا نقصان کر لیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے حکومت سنبھالتے ہی سعودی عرب یا امریکا کا نہیں بلکہ چین کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ وژن واضح تھا کہ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے' پاکستان اس کی اور وہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

چین کے درجنوں دورے ہوئے' کم از کم 32 ارب ڈالر کے بڑے بڑے منصوبوں پر اتفاق رائے ہوا۔ چینی صدر آتے تو بات آگے بڑھتی' سرمایہ کاری ہوتی' معاشی مسائل کم ہوتے' بیروزگاری میں کمی آتی لیکن اب انتظار فرمائیے۔ کب تک؟ یہ نہیں معلوم۔ کچھ معلوم ہو نہ ہو یہ حقیقت ضرور آشکار ہوتی ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں' اس کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔ دنیا دشمنی کو فراموش کر کے ایک ہو رہی ہے' ہم سیاسی نفرت کی آگ میں خود جل رہے ہیں اور سب کو جلا رہے ہیں۔ خوب بہت خوب۔ انقلاب زندہ باد!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں