امام عالی مقام حسین ؓ کا پیغامِ عاشور

’’میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں‘‘۔ فوٹو: فائل

’’میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں‘‘۔ فوٹو: فائل

ارشادِ رب العزت ہے ’’ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہم نے آپ کو شاہد اوربشارت دینے والے اورڈرانے والابناکر بھیجا۔ اور اللہ کے اذن سے اس کی جانب بلانے والانورانی و درخشاں چراغ بنا کر بھیجا‘‘۔ (سورہ احزاب 45-46)

اس میں کوئی شک نہیں کہ امت ِ مسلمہ نے تہذیب و تمدن اسلام کو اپنایا ہے، جو لفظِ شہید اور اسکے معانی و مفاہیم کو دوسر ے کلمات کی نسبت عظیم تر گردانتی ہے۔لفظ شہید ایک مقدس اور و پاکیزہ لفظ ہے یہی وجہ ہے کہ اسے تغسیل و تکفین کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ ا س نے اعلائے کلمۃ الحق کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اللہ کی وحدانیت کی گواہی دی ہے۔ جسم شہید پاک و طاہر ہے، اسی بناء پر راہِ خدا میں شہادت دینے والے کو اسی خاک و خون میں غلطاں لباس میں دفن کیا جاتا ہے۔

شہید وہ نورانی لفظ ہے، جس کے ارد گرد انوار کی شعاعیں طواف میں مصروف رہتی ہیں۔شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔شہید کا خون مٹی میں جذب نہیں ہوتا بلکہ اس کے خون کا ہر ہر قطرہ ’’ قطرہ قطرہ دریا می شود‘‘ کہ مصداق دریا کی صورت اختیار کرکے معاشرے کے روح و بد ن میں داخل ہوجاتا ہے اور اسے جاودانی بخش دیتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

حضرت علی ؓ ابن موسیٰ الرضا ؓ کا ارشاد ہے کہ امام حسین ؓ نے فرمایا ۔ ایک روز حضرت امیر المومنین خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو راہِ خدا میں جہاد پر آمادہ کررہے تھے  ۔ جس کے دوران ایک جوان کھڑا ہوا عرض کی یا امیر المومنین! مجاہدین راہِ خدا کی فضلیت بیان فرمائیں آپ ؓ نے فرمایا کہ ایک روز جب ہم غزوہ ذات السلاسل سے واپس پلٹ رہے تھے اور میں پیغمبر اسلام ؐ کے پس پشت ان کے ناقہ عضبہ پر سوار تھا۔

یہی سوال جو تم نے مجھ سے کیا میں نے پیغمبر اسلام سے کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا، مجاہدین راہِ خدا جس گھڑی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتے ہیں اللہ ان کے حق میں آتش جہنم سے بیزاری لکھ دیتا ہے جس وقت وہ جہاد کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں ، خدا ملائکہ کے درمیان ان کے وجود پر فخر و مباہات کرتا ہے اور جس وقت وہ اپنے خانوادہ سے رخصت ہوتے ہیں تو اپنی خطاؤں سے پاک و منزہ ہوجاتے ہیں۔

پھر راہِ جہاد میں قدم رکھنے کے بعد ضمنی طور پر یہ لوگ جو بھی نیک عمل انجام دیتے ہیں دوہرے ثواب کے حق دار ہوجاتے ہیں۔اس دوران گزرنے والے ایک ایک دن کے عوض ایک ایک ہزار سال کی عبادتوں کا ثواب ان کے نامہ میں لکھا جاتا ہے۔ جس وقت یہ دشمنان دین کے مقابل صف آرا ہوجاتے ہیں نیزے بلند ہوتے ہیں تیر کمانوں میں جوڑ کر انہیں رہا کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں توملائکہ الٰہی ان کا احاطہ کرکے، ان کی فتح و نصرت کیلئے دعائیں کرتے ہیں اور منادی بہشت آواز دیتا ہے جنت تلواروں کے سائے میں ہے چنانچہ ایک شہیدکیلئے تلواروں اور نیزوں کے زخم موسم گرما  میں ملنے والے ٹھنڈے پانی سے زیادہ خوشگوار ہوتے ہیں۔

جب ایک مجاہد جسم پر زخم کے سبب زمین پر گرتا ہے قبل اس کے کہ اس کا بدن زمین تک پہنچے، خداوندِعالم اسکی شریک و ہمسر کو جس کا تعلق حور العین سے ہوتا ہے اس کی خدمت کے لیے بھیج دیتا ہے تاکہ وہ پیش خدا اسکے مقام و عظمت کی بشارت دے ۔ جیسے ہی اس کا  جسم زمین تک پہنچتا ہے،  زمین اس سے گویا ہوتی ہے، کیا کہنے اس پاکیزہ روح کے کہ جو پاک و پاکیزہ بدن سے خارج ہوئی ہے۔ پس تجھ کو بشارت ہو کہ تیرے لیے وہ نعمتیں آمادہ و منتظر ہیں جن کے مثل اب تک کسی کی آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا، نہ کسی کے تصور نے ان تک پرواز کی ہے۔

خداوندِ عالم اس روح کو ایک مخصوص قالب میں ڈھال کر بہشت کی زینت قراردے دیتا ہے ۔ وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مندہوتی رہتی ہے ۔ جب روز قیامت آپہنچتا ہے شہدا اس عظمت و جلالت کے ساتھ محشور ہوتے ہیں کہ ان کی راہوں میں پیغمبران خدا سواریوں سے اتر کر احترام کرتے ہیں، پیادہ ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی مخصوص جگہوں پر جا پہنچیں۔ وہ لوگ بارگاہِ احدیت میں اتنے زیادہ عظمت و وقار کے حامل ہوتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اہل خانہ ،عزیزوں و پڑوسیوں میں سے ستر ہزار افراد کی شفاعت کاحق رکھتا ہے۔ با لآخر وہ لوگ میرے (رسول خدا) اور خلیل خدا حضرت ابراہیم ؑ کے ہمراہ ایک مخصوص مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور صبح و شام لقائے وجہ اللہ سے فیضیاب ہوتے ہیں(تفسیر مجمع البیان جلد 2)۔

یہ عام شہید کا مقام ہے اور وہ ہستی جو جوانانِ جنت کی سردار ہو جس کے بارے میں خیر البشر ،احمد مصطفی  ؐ کا فرمان ہے حسینؓ منی و انا من الحسین ؓ احب اللہ من احب حسیناجو سوار دوشِ رسول ؐ جو فرزند علی ؓ و بتول ؓ ہو اور جس نے حضرت ابراہیم کے خواب فدیناہ بذبح عظیم کو کربلا کے تپتے صحرا پر اپنے 72جگر پاروں و جانثاروں کی طاہر مطہر جانوں کے نذرانے پیش کرکے نہ صرف سچ کردکھایا ہو بلکہ ملتِ ابراہیمی اور امت مسلمہ کی عزت و حرمت کو بام عروج تک پہنچا کر سید الشہداء کا لقب پایا ہو اس کے مقام اعلیٰ کا کیا رتبہ و درجہ ہوگا۔

امام حسینؓ کا ارشاد ہے ۔ اللہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنے واجب کی حیثیت سے پہلے ذکر کیا کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے۔ اگر یہ دونوں فریضے ادا کیے گئے اور قائم ہوگئے تو سب فرائض خواہ نرم ہو یا سخت خود ادا ہوجائیں گے۔ یہ دونوں انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور صاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے اور ظالموں کومخالفت پر آمادہ کرنے والے ہیں (تحفہ العقول صفحہ237)۔

ایک اور جگہ پر فرمایا لوگو! رسالت مآب ؐ کا ارشاد ہے وہ جو کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے،پیمان الہی کو توڑ دیا ہے ،سنت رسول ؐ کی مخالفت کرتا ہے، بندگان خدا کے درمیان ظلم و گناہ کرتا ہے اور پھر بھی  عمل سے اور نہ قول سے اسکی مخالفت کرتا ہے اللہ پر واجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس شخص کو ڈال دے گا (مقتل الخوارزمی جلد1)۔

پھر ایک اور جگہ ارشاد فرما یا کہ کیا تم نہیں دیکھ رہے ، حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے دوری نہیں کی جارہی، ایسی صورت میں مومن کو حق ہے کہ وہ اللہ سے ملاقات کی رغبت کرے (تحف العقول)

اسی بناء پر حسین ؓ نے کہا تھا ،میں موت کو سعادت ، اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (تحف العقول صفحہ645)

پھر اپنا مقصدِ شہادت یوں فرمایا

خدا تو جانتا ہے، میرا قیام نہ سلطنت کیلئے ہے ،  نہ حصول دولت کے لیے، بلکہ ہم تیرے دین کو پیش کرنا چاہتے ہیں، تیرے شہروں میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں، تیرے مظلوم بندوں کے لیے، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں فرائض سنن اور احکام پر عمل کیا جائے (تحفہ العقول)

اس حدیث میں امام نے دنیا پر واضح کردیا کہ دین  سے رو گردانی کی جارہی ہے ۔ شہروں میں اصلاح کی بجائے دنگا و فساد ہے ، مظلومین و مستضعفین مصائب و آلام میں گرفتار ہیں ۔اس بات کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا ، میرا خروج نہ خودپسندی، نہ اکڑ، نہ فساد، نہ ظلم کے لیے ہیں، میں نے جد کی امت کی اصلا ح کے لیے خروج کیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد محمد ؐ اور والد نامدار علی کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔(مقتل الخوارزمی)

یزید نے، حاکم مدینہ کو حسین ؓ  ابن علی ابن ابی طالب ؓ کو بیعت کے لیے مکتوب لکھا  ۔ حسین ؓ نے صاف انکار کردیا چنانچہ حسین ؓ نے 28 رجب کو نانا کے شہر مدینہ کو الوداع کہا۔ کعبہ کی حرمت بچانے کیلئے8 ذوالحجہ کوحج کو عمرہ میں تبدیل کرتے ہوئے، مکہ چھوڑ دیا اور 2 محرم 61 ہجری کو کربلا میں وار د ہوئے۔ 7 محرم کو پانی بند ہوا ،شب عاشور کو حسین ؓ  نے چراغ بجھا کر اپنے اصحاب کو اجازت دی کہ جس نے جانا ہے جاسکتا ہے۔ لیکن جب چراغ روشن ہوا تو سب کے سب اپنی گردنوں پر تلواریں رکھے بیٹھے تھے۔

شب عا شور حسین ؓ  نے اپنے اصحاب و انصار ؓ اور اولاد کے ساتھ عبادت میں بسر کی۔روزِعاشور اصحاب باوفا اور اولادِ باصفا کی شہادت کے بعد میدانِ کربلا کا رخ کیا۔

ازاں بعد استغاثہ بلند فرمایا ۔ اس حالت میں آپ کی نگاہ مقتل پر پڑی اوراپنے جانثاروں کی لاشیں دیکھ کر یوں گویا ہوئے ، اے حبیب ابن مظاہر ، اے زہیر ابن قین ، اے مسلم ابن عوسجہ ، اے قاسم ؓ، اے عباس ؓ،اے علی اکبر ؓ ، اے بیشہ شجاعت کے شیرو!میرے جنگ جو بہادرو! میں پکارتا ہوں تو تم جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں تمہیں مدد کو بلا رہا ہوں۔تم جواب کیوں نہیں دیتے،اے جنگ جو جوانو! تم سو رہے ہو۔ کیا تمہارے دل امام ؓ  کی محبت سے خالی ہوگئے ،اے نیک طینت مددگارو! اٹھو اور حرم رسول ؐ سے ان سرکشوں کو ہٹا دو۔یہ درد بھری آواز سن کر لاشہ ہائے شہداء تڑپ اٹھے، ازاں بعد حسین ؓ قوم جفا کار کے سامنے تشریف لائے ،انہیں اپنا تعارف کرایا جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔

’’ظالمو عذاب خدا سے ڈرو  ۔ وہ بہت سخت عذاب ہوگا  ، وہ وقت قریب ہے ، جب عذاب الٰہی کے شعلے تمہیں گھیر لیں گے‘‘

لیکن اس سرکش قوم پر کسی نصیحت کا اثر نہ ہوا امام ؓ لا حول ولاقوۃ الا باللہ کہتے ہوئے پلٹے اور کہا پھر اب تیار ہوجاؤ میں نے سب کچھ اتمام حجت کے لیے کیا ہے ،اب رسول ؐ کے نواسے، کربلا کے پیاسے جعفر طیار ؓ کے بھتیجے اور حیدر کرار ؓ کے بیٹے کی شمشیر زنی کا منظر دیکھو۔پھر آپ ؓنے ذوالفقار حیدری کو نیام سے نکالا اور شیرانہ رجز پڑھتے ہوئے اس قوم زبوں کردار پر حملہ آور ہوئے جس کے بارے میں انگریز مورخ لکھتا ہے

میں نے آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا ایک وہ شخص جس کے عزیز و اقارب،جوان بچے اس کے سامنے ذبح کردیئے جائیں ،تین دن کا پیاسا ہو ،زخموں سے چور چور ہو وہ حسین ؓ ابن علی ؓ کی طرح اتنی بہادری سے لڑا ہوا ،ایک کے حملہ نے دشمن کی فوج میں وہ ہل چل مچادی کہ ڈر اور خوف سے سپاہی پر سپاہی گر رہا تھا ۔حسین ؓ جدھر رخ کرتے ، دشمن ایسے بھاگتے گویا ہوا کے زور سے ٹڈی دل پریشان ہو رہی ہے۔

امام حسین ؓ کا تیسرا حملہ اس قدر سخت ترین تھا کہ فوجِ یزید ہٹتے ہٹتے کوفہ کے دروازے کے اندر داخل ہوگئی۔ ڈھیروں ٹاپوں کے تلے آکر کچلے گئے۔ہر طرف سے الاماں الاماں کی آوازیں آنے لگیں۔جب حضرت نے عاقبت بربادوں کی یہ صورت دیکھی تو ذوالجناح کی باگ کھینچ لی اور ایک مقام پر ایستادہ ہوکر ہر سو دیکھا نا گاہ ایک ندائے غیبی زمین و آسمان میں گونجی۔ حسین ؓ کب تک لڑوگے،تمھارے وعدے کا وقت قریب آگیا ہے ۔ حسین ؓ نے یہ صدا سنتے ہی اپنی ذوالفقار آبدار کو نیام میں کرلیااور لقائے الہی کے شوق میں اپنی شہادت کا انتظار کرنے لگے۔

سپاہ یزید نے جب حضرت کو اس طرح دیکھا تو سمجھ گئے حسین ؓ شاید تھک گئے ہیں اب تو حملے پے حملہ ،وار پے وار ،تلواروں ،نیروں اور تیروں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ایک مظلوم بھوکے پیاسے کو ہزاروں خون کے پیاسوں نے گھیرلیا،آپ ؓ کا لباس اطہر خون سے تر بتر تھا ،ضعف کی بناء پر غش پر غش آرہے تھے اور شدت پیاس سے زبان خشک تھی اس حالت بے بسی میں امام ؓ نے پھر آواز استغاثہ بلندکی۔اس آواز کے بلند ہوتے ہی ملاء اعلیٰ میں قیامت برپا ہوگئی۔ جبرائیل امین نے درگاہ خداوندی میں عرض کی۔

مجھ سے اپنے پیار ے حسین ؓکی حالت دیکھی نہیں جاتی، یہی حسین ؓ ہے جس کیلئے میں جنت کے میوے سے کر جاتاتھا جس کے گہوارے کو جھلایا کرتا تھا پالنے والے مجھ سے حسین ؓ کی بے کسی نہیں دیکھی جاتی ،پالنے والے مجھے اذن دے حجاب قدرت سے آواز آئی اگر میرا حسین ؓ  مدد قبول کرے تو ضرور کرو ،جبرائیل امین بہ اذن خدا کربلا پہنچے اور امام غریب کے سر پر پروں کا سایہ کرلیا۔

امام ؓ کو سایہ کی وجہ سے ٹھنڈک محسوس ہوئی تو پوچھا کہ اے سایہ کرنے والی مخلوق تو کون ہے کہ تجھے اس بے کسی میں میری مدد کا خیال آیا ۔آواز آئی میں تیرا خادم جبرائیل ہوں۔اجازت دیں تو آپ کے تمام دشمنوں کا خاتمہ کردوں۔حضرت نے وہی جواب دیا جو ابراہیم ؑ نے اس وقت دیا تھا جب انہیں نار نمرود میں پھینکا جارہا تھا ۔ میں لقائے الٰہی کا مشتاق ہوں۔ ہٹ جاؤ جبرائیل یہ وقت امتحان کا ہے۔

مختصر یہ کہ اپنا عمامہ اور دیگر تبرکات ذوالجناح کی زین سے باندھے اور فرمایا اے اسپ باوفا جب تیرا سوار (جوسوار دوش رسول ؐ ہے) زین سے زمین پر آجائے تو تیری ذمہ داری ہے کہ ان تبرکات کو اہل حرم تک پہنچا دینا ۔آہ کس طرح بیان کیا جائے کہ اس قوم جفا کار نے چاروں طرف سے نیزوں، تیروں کی بارش کردی اور امام عالی مقام اپنے گھوڑے باوفا پر نہ ٹھہر سکے۔

وہ نماز عصر کا وقت تھا نہ حسینؓ  گھوڑے پہ تھم سکے

وہ صدا اذاں کی بلند تھی کہ زمیں پہ خود کو گرادیا

رضا بقضائہ و تسلیما لامرہ کہتے ہوئے زمین پر تشریف لائے،نماز عصر ادا کرتے ہوئے سجدہ خداوندی میں سر رکھا کہ شمر ذوی الجوشن نے بے دردی سے بوسہ گاہ نبی ؐ پر خنجر چلا دیا  جس سے دشتِ نینوا میں زلزلہ آگیا، سورج کو گہن لگ گیا،ہر سو سیاہ آندھیاں چلنے لگیں ، قد قتل الحسین ؓ  بکربلاکی صدائیں گونجنے لگیں۔جب خنجر امام ؓ  کے حلق پر چل رہا تھا دیکھا کہ ایک چیز اوپر سے نیچے یعنی آسمان سے زمین پر آئی ،ایک زمین سے آسمان کی طرف گئی اور ایک آپ کا طواف کرنے لگی ۔آسمان سے جو چیز آئی وہ جبرائیل تھے۔ زمین سے جو اٹھا وہ نیز ے پر بلندہونے والا امام کا سر تھا اور جو حسین ؓ  کے ارد گرد طواف کررہی تھی وہ حسین ؓ کی دکھیاری بہن زینب تھی جو واہ محمدا و علیا کے بین کررہی تھیں کہ کربلا کے بن میں میری ماں فاطمہ زہرا ؓ  کا ہرا بھرا دیس لٹ گیا۔

امام حسین ؓ  نے دنیا کو بتا دیا کہ میں نے ایثار وقربانی کی شمع اس لیے روشن کی ہے تاکہ قلوب الناس میں جوش و خروش پیدا ہو اورجو معاشرے کو منور اور روشن خیال بناسکے اور اسکے ہر ہر فرد میں نئے سرے سے روح و جان ڈال سکے اور اس کے  جسم میں تازہ خون مہیا کرسکے۔ آج پوری دنیا ئے مظلومیت شرق ،غرب ،شمال ،جنوب میں آپ ؓ اور آپ ؓ کے اصحاب ؓ باوفا کی شہادت سے متاثر ہے۔سیکڑوں سال بیت گئے لیکن مظلوم اقوام آج بھی جوش و ولولہ اور جذبے سے سرشار ہیں۔

امام حسین ؓ  نے یزیدیت کے بخیے اڈھیر کر رکھ دیے اور آمریت و ملوکیت کے چہروں پر پڑے ہوئے تمام پردوں کو چاک کرکے دنیا کو یہ بتادیا کہ موت  ، ہمیشہ ذلت و رسوائی کی ندامت سے لبریز زندگی سے زیادہ بہتر،عزیز اور زیادہ محبوب ہے ۔آج اگر امتِ مسلمہ نے ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانا ہے تو اسے شعار حسینی  ؓاپنا ناہوگا  ۔

شہادت امامِ حسین ؓ

دس محرم الحرام 61 ہجری کو میدانِ کربلا میں تاریخ اسلام کا انتہائی اندوہ ناک اور دلوں کو ہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔ یزیدی افواج نے نواسۂ رسول، لختِ جگرِ فاطمہ وعلی حضرت امام حسینؓ، ان کی اولاد، اقربا اور اعوان وانصار کو انتہائی مظلومیت کے عالم میں شہید کردیا۔ کوفے کی مساجد سے نماز جمعہ کے لیے ’’اشہد ان محمد الرسول اﷲ‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور کربلا میں رسول ؐ کے محبوب نواسے کی گردن پر خنجر چلایا جارہا تھا۔ یہ وہی حسین ہیں جن کے لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا:’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘ یعنی حسین میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، میرے نسب کے امین ہیں اور میری برکات اور کمالات کا ظہور انہی کے ذریعے ہوگا۔

ان کی والدہ کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’فاطمہ ؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، میرے وجود کا حصہ ہیں، جو انھیں ناراض کرے گا، وہ مجھے ناراض کرے گا۔‘‘ حضورؐ نے حسنین کریمین کے مبارک نام خود رکھے، انھیں اپنے لعاب دہن کی گھٹی دی، ان کے بدن کے بوسے لیے، گود میں بٹھا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، کندھوں پر بٹھا کر سیر کرایا کرتے تھے۔

نبوت و رسالت کے بعد اسلام میں تقرب ِبارگاہ الٰہی کے جو اعلیٰ مقامات ہیں، ان میں ایک نمایاں مقام، مقامِ شہادت ہے۔ جو خوش نصیب اس مقام پر فائز ہوجائے، اسے شہید کہتے ہیں۔ اس منصب کو مزید عزت بخشنے کے لیے حضور ؐ نے اس کی تمنا فرمائی۔

آپؐ نے فرمایا:’’میری آرزو ہے کہ میں اﷲ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیا جاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

قرآن مجید میں اس منصب کے لیے ’’قُتل فی سبیل اﷲ‘‘ (یعنی:’’اﷲ کی راہ میں قتل کیاجانا‘‘) کے کلمات ارشاد ہوئے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انھیں مُردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمھیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘ بقرہ: 154)

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کیے گئے، انھیں مُردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں (اور) انھیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ (آل عمران:170)

اب یہاں بہ ظاہر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص راہ خدا میں قتل کردیا گیا، ہمارے طبّی معیار اور مشاہدے کے مطابق طبعی طور پر وہ وفات پاگیا۔ تو قرآن یہ بات کیوں کہتا ہے کہ وہ زندہ ہے، اسے مُردہ مت سمجھو۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حیات وموت کا ایک معیارِ حسّی وطبعی ہے، اس اعتبار سے تو بلاشبہہ شہید مر چکا ہے، اسے مردوں کی طرح دفن کر دیا جاتا ہے، اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، اس کا ترکہ، اس کے ورثاء میں تقسیم ہوجاتا ہے، اس کی بیوہ عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن حیات وموت کا ایک فلسفہ وتصور یہ ہے کہ مقصد تخلیق اور مقصد حیات کو پالینے کا نام زندگی ہے، خواہ طبعی طور پر مرچکا ہو، اور مقصد حیات کو فراموش کر دینے کا نام موت ہے، خواہ طبعی طور پر زندہ ہی کیوں نہ ہو۔

اب رہا یہ سوال کہ مقصد تخلیق وحیات کیا ہے؟

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پید ا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات:56)

مفسرین نے فرمایا کہ یہاں عبادت سے مراد معرفت باری تعالیٰ ہے، کیوں کہ جب ذات باری تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل ہوگی تو اس امر کا یقین ہوگا کہ خالق ومخلوق اور عبد اور معبود کا باہمی تعلق کیا ہے۔ اس کی رضا کے حصول کا راستہ کون سا ہے۔ مقام عبدیت یہ ہے کہ اﷲ کی دی ہوئی ہر نعمت حتیٰ کہ عزیز ترین نعمت ’’جان‘‘ کو اس کی راہ میں قربان کردیا جائے۔ اور جو خوش نصیب اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ’’نعمتِ حیات‘‘ کو اس کی راہ میں قربان کردے تو اسے ’’بقائے دوام‘‘ اور ’’حیات ابدی‘‘ کی نعمت مل جاتی ہے۔

گویا زندگی کبھی تحفظ وبقائے حیات کا نام ہے اور کبھی ’’جان عزیز‘‘ کو جاں آفریں (خالق) کی راہ میں قربان کردینے کا نام ہے، بلکہ ’’معراجِ حیات‘‘ یہی ہے۔

اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ خالق کے نام پر اور اس کی ذات کے لیے فنا ہی میں ’’بقائے دوام‘‘ ہے، اور فطرت کا عام قانون یہی ہے کہ ہر ادنیٰ چیز اپنے سے اعلیٰ چیز میں فنا ہوکر ہی بقا پاتی ہے، یعنی کسی اعلیٰ مرتبے اور منصب کو پانے کے لیے اپنی ہستی اور ’’انا‘‘ کو قربان کرنا پڑتا ہے، کسی بھی درخت کا تخم یا بیج جب اپنے وجود کو فنا کرتا ہے تو پھر وہ پودے کی شکل اختیار کرتا ہے، پروان چڑھتا ہے، برگ و بار لاتا ہے اور گل وگل زار بنتا ہے۔ نباتات، حیوانات کی غذا بن کر ان میں فنا ہوتے ہیں، حیوانات، انسان کی غذا بن کر اس کا جزو بدن بنتے ہیں۔ ساری کائنات انسان کے لیے تابع اور مسخر کردی گئی ہے تو لازم ہے کہ انسان جو افضل المخلوقات ہے، اگر بقائے دوام چاہتا ہے تو اپنی ذات کو اعلیٰ ترین ہستی، ذاتِ باری تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے ’’حیات ابدی‘‘ کی منزل سے ہم کنار ہوجائے۔

لفظ شہید ’’شہادت‘‘ سے بنا ہے اور ’’شہادت‘‘ کے معنیٰ ہیں:’’گواہی‘‘ اور ’’کسی مقام پر حاضر و موجود ہونا‘‘ شہید کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ظاہری حال اس کے مقبول بارگاہ ہونے پر گواہ ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت اعزاز و اکرام کے طور پر فرشتے اس کی روح کے استقبال کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:’’بلاشبہہ جن لوگوں نے کہا، ہمارا رب اﷲ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور بشارت دیتے ہیں) کہ تمھیں نہ تو کسی (آنے والے خطرے) کا خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی (کسی گذشتہ بات کا) رنج وملال، اور اس جنت کی خوش خبری سنو، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘ (حٰم السجدہ:23)

شہید کو شہید اس لیے بھی کہتے ہیں کہ دنیا سے وفات پاتے ہی اس کی روح جنت میں حاضر و موجود ہوجاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ابتلا وآزمائش کی کئی صورتیں ہیں: کبھی انسان پر دشمن کا خوف مسلط کردیا جاتا ہے، کبھی فاقہ وافلاس میں مبتلا کردیا جاتا ہے، کبھی مال سے محروم کردیا جاتا ہے اور کبھی اسے ثمرات دنیا سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ثمرات (پھل) سے مراد اولاد کی قربانی بھی ہے۔ اور کبھی انسان کو اپنی سب سے عزیز ترین متاع یعنی جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ غرض جس کا امتحان جتنا سخت ہوگا، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ بھی اتنا ہی بلند ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور ہم ضرور تمھیں آزمائیں گے (کبھی) خوف اور (کبھی) بھوک اور (کبھی) جان ومال اور ثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے۔ اور (ایسے حالات میں) صبر کرنے والوں کو (جنت کی) بشارت دے دیجیے۔‘‘ (بقرہ:155)

اگر کسی کے لیے ابتلا وآزمائش اور امتحان کے یہ سارے مراحل اور مصائب جمع کردیے جائیں تو وہ کمال ایمان اور کمال شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور وہ اﷲ اور اس کے رسول مکر م ﷺ کا محبوب ہوتا ہے۔

معرکہ، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے لیے قربانی کی یہ تمام صورتیں یک جا کردی گئی تھیں۔ دشمن کا خوف، وطن سے دوری، وسائلِ حیات کا فقدان، احباب، اقرباء، اولاد حتیٰ کہ بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی قربانی، خواتین کے مصائب وآلام اور پھر عالم مظلومیت میں جان کی قربانی، ایسی بے مثال اور لازوال قربانی کی نظیر تاریخ اسلام، بلکہ تاریخ انسانیت میں بہت کم ملتی ہے۔

امام حسینؓ نے یہ قربانی طلب اقتدار اور حصول ِ منصب کے لیے نہیں دی، بلکہ دین حق کی سربلندی اور اسلامی اقدار کے احیاء اور ظلم وتعدی کو مٹانے کے لیے دی تھی۔

حدیث پاک میں آیا ہے کہ رسول کریم ؐ سے دریافت کیا گیا:’’اے اﷲ کے رسول ؐ، ایک شخص (اپنی ذاتی، گروہی، قبائلی یا قومی) حمیت وعصبیت کے لیے لڑتا ہے، ایک شخص صرف اس لیے لڑتا ہے کہ دنیا میں اس کی شجاعت کے چرچے ہوں، ان میں سے اﷲ کی راہ (اور رضا) میں کون ہے؟‘‘

نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا:’’وہ، جو صرف اس لیے لڑتا ہے کہ اﷲ کا دین سربلند ہو۔‘‘

ایسے مجاہد کا اﷲ کی بارگاہ میں اتنا بلند مقام ہے کہ قرآن مجید کی سوویں سورت ’’العٰدیات‘‘ کی ابتدائی آیات میں اﷲ تعالیٰ، مجاہدین کے ہانپتے ہوئے گھوڑوں، ان کے قدموں کی رگڑ سے نکلنے والی چنگاریوں، ان کے علی الصبح حملہ کرنے کی ادا، ان کے قدموں سے اڑنے والی گرد اور ان کے دشمن کی صفوں میں گھس جانے کی قسم فرماتا ہے۔ اندازہ لگائیے! نگاہِ الو ہیت جل وعلا میں جس مجاہد کے گھوڑے کی ادائیں اس قدر دل کش و دل ربا ہوں، خود اس مجاہد کی کیا شان ہوگی؟ یہ تو عام مجاہد کا مقام ہے، سید الانبیاء ﷺ کے محبوب نواسے کی مظلوم شہادت کا کیا درجہ ہوگا؟

یہی وجہ ہے کہ اگر چہ دنیاوی معیار اور مشاہدے کے مطابق اس وقت یزید فاتح بن گیا تھا اور حضرت امام حسینؓ شہید ہوگئے تھے، وقتی طور پر یزید کی سلطنت وحکومت قائم رہی تھی، لیکن آج کرۂ ارض پر ایک صاحب ایمان فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جو اپنے آپ کو فخر سے ’’یزیدی‘‘ کہے، جب کہ اپنے آپ کو حسینی، بلکہ امام حسین کے قدموں کی خاک سمجھنے اور کہلانے والے کروڑوں ملیں گے۔

البتہ یہ بھی ایک افسوس ناک اور تلخ حقیقت  ہے کہ آج بلاشبہہ امام حسینؓ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے تو لاتعداد ہیں، لیکن کردار حسینؓ کا مظہر کوئی نہیں۔ امام حسین سے عقیدت ومحبت کا دعویٰ ہر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے، حسینؓ سے محبت کے نعرے بھی ہر چار سو سنائی دیتے ہیں، لیکن حسینیت کی اعلیٰ اقدار کا حامل کوئی نہیں۔ ہر دور کے یزید وقت اور یزیدی اقدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔

امامِ حسین ؓ کا فلسفۂ انقلاب

سرزمین مکہ پر ایک آواز گونجی تھی۔

’’ لوگو! لاالہ الااﷲ کہو، اور فلاح پا جاؤ‘‘  یہ آواز خدا کے آخری رسولﷺ کی آواز تھی کربلا اسی آواز کی بازگشت ہے ۔ نواسۂ رسول ﷺ جگر گوشۂ بتول کی عظیم قربانی کی یاد منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اس کلمے کے معنی سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جانیں کہ فلاح کے معنی کیا ہیں ، جو اس کلمہ لاالہ کا نتیجہ اور ثمر ہے۔

وہ کیا حالات تھے ، جن کے خلاف احتجاج کی خاطر آپ نے اپنا سب کچھ لٹا دیا اور وہ مصائب برداشت کئے جن کی یاد آج تک انسان کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ کیا لوگوں نے کلمہ لاالہ الااﷲ کا اعتراف بند کر دیا تھا، یا نمازیں ترک کر دی تھیں یا مسجد یں مٹا دی گئی تھیں۔ امامؓ نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ کلمہ محض زبانی اعتراف نہیں ہے۔ عبادتیں محض چند ارکان ادا کرلینے کا  نام نہیں ہے۔ یہ کلمہ پورے معاشرتی انقلاب کا پیغام ہے جس انقلاب کی بنیادیں خدا نے اس طرح بیان کیں۔

’’اﷲ وہ ہے جو حکم دیتا ہے تمہیں عدل کا اور احسان کا اور قرابتوں کے احترام کا اور منع کرتا ہے تمہیں فحشاء و منکر اور اپنی حدوں سے آگے قدم بڑھانے سے‘‘ (سورۂ نحل 9)

نواسۂ رسولﷺ اپنے آپ کو تاریخ کے اس موڑ پر دیکھ رہے ہیں جہاں یہ کلمہ محض زبانوں پر باقی ہے اور اس کی روح کو مردہ کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے نام پر بدترین اور ظالم ترین حکومت برسر اقتدار ہے ۔ ملوکیت نے اسلام کی نقابیں اوڑھ لی ہے۔ اور اسلام کی شناخت گم ہوچکی ہے۔ اور اگر آپ اس صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے تو ہمیشہ کے لیے اسلام کی اصل پہچان ختم ہوجا تی۔ یہ یاد منانے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہم جانیں ،کہ امام کا احتجاج کن حالات کے خلاف تھا، اور اسلام کی سچائیاں کیا ہیں ۔ یہ جاننے  کے لیے  ہم امام عالی مقام کے ہی ایک خطبے سے راہنمائی حاصل کرنے  کی کوشش کریں گے۔

یہ خطبہ آپ نے واقعہ کربلا سے دو سال پہلے میدان منیٰ میں ارشاد فرمایا ۔ اس موقع پر آپ نے دنیائے اسلام کے علماء اور دانشوروں کو حج پر آنے کی خصوصی دعوت دی۔ ان علماء اور دانشوروں میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ آپ نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلائیں ۔ آپ فرما رہے ہیں۔

’’اے وہ گروہ! جو علم و فضل کے لیے مشہور ہے، جس کا نیکی اور خیر سے تذکرہ ہوتا ہے ۔ یہ عزت و احترام ا س لیے  ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ احکام الٰہی کا اجراء کریں گے۔‘‘

یہاں ہمیں امام علیؓ کا قول یاد آتا ہے۔ آپ قبول خلافت کی وجہ بیان فرما رہے ہیں ، آپ نے فرمایا:

’’اگر لوگوں کے حاضر ہونے کی وجہ سے مجھ پرحجت تمام نہ  ہوگئی ہوتی اور علماء سے یہ خدائی عہد نہ ہوتا کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک سے سمجھوتہ نہیں کریں گے، تو تم دیکھتے کہ میں ناقۂ خلافت کی مُہارکو اس کی پشت پر ڈال  دیتا تاکہ یہ ناقۂ خلافت جدھر چاہے نکل جائے اور جس خار زار کو چاہے، اپنی چراگاہ بنا لے، تاکہ تم دیکھتے کہ تمھاری یہ امارت اور خلافت میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ حقیر ہے۔‘‘ (خطبہ نمبر3 نہج البلاغہ)

امام علیؓ کے یہ الفاظ ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہر دور کے علماء کا یہ خدائی فریضہ ہے ،کہ ظلم سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اور پھر امام حسینؓ بتا رہے ہیں کہ ان کے دور کے علماء کے اس فریضہ کو فراموش کرنے سے امت پر کیا گزری ۔

’’آپ نے امت کے حقوق کو نظرانداز کر دیا ہے ۔ کمزور اور بے بس افراد کے حقوق کو ضائع کر دیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے ہیں اسے حاصل کرکے بیٹھ گئے ہیں۔‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں ’’ آپ کے آباء و اجداد کے بعض عہد و پیماں ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں، جب کہ رسول ﷺ کے عہد و پیماں نظر انداز ہو رہے ہیں اور آپ کو کوئی پروا نہیں۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ رسول ﷺ کے عہد و پیمان ٹوٹنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ وضاحت فرماتے ہیں۔

’’اندھے، گونگے ،  اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں، کوئی  ان  کی حالت زار پر رحم نہیں کرتا۔  ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے ہیں اور کچھ مصیبت کے مارے اپنی  معیشت کے ہاتھوں بے بس ہوگئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

ہر شہر میں، ہر منبر پر اس کا خطیب چیختا ہے۔ عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ کوئی حاکم ظالم ہے ۔ جابر، دشمنی اور عناد رکھنے والا، اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ہے۔ ہر جگہ ان کا حکم چلتا ہے۔ جب کہ یہ خدا کو مانتے ہیں نہ روز جزا کو۔‘‘

امام عالی مقام نے ان الفاظ میں ظلم اور ظالمانہ کردار کے حاکموں  کے کردار کی خصوصیات بتائیں، ظلم کا ایک پہلو لوگوں کو غلام بنانا ہے۔ غلام محض وہی نہیں ہوتے، جنہیں خرید لیا جائے۔ غلامی کا مطلب یہ ہے  کہ انسان کا ہر عمل دوسروں کی مرضی کے تابع ہوجائے۔ دوسرا پہلو عوام کی معاش پر قبضہ کرکے ان سے احتجاج کی طاقت کو چھین لیا جائے۔ اور تیسرا اور سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کے جسم پر ہی نہیں بلکہ ان کے ذہنوں پر بھی غلط تاویلوں کے ذریعے قبضہ کر لیا جائے، عمل کی آزادی ہی سلب نہ ہو ، ذہن کی آزادی بھی ختم ہوجائے۔

ان الفاظ میں بڑی آفاقیت ہے۔ ہر ظلم کے یہی تین رخ ہوتے ہیں۔ آزادیوں کو سلب کرنا، معاشی لوٹ مار اور برین واشنگ ۔

سب سے بڑا المیہ امام عالی مقام یہ  دیکھ رہے ہیں کہ جس دین کے اصول  عدل و احسان ہوں اس دین کے نام پر یہ حالت ہوجائے کہ :

’’تعجب ہے اور کیوں نہ تعجب ہو، ملک ایک دھوکے باز ستم گر کے ہاتھوں میں ہے ۔  جس کے ٹیکس وصول کرنے والے ظالم ہیں اور صوبوں میں اس کے گورنر مومنوں کے لیے سنگ دل اور بے رحم ہیں۔‘‘

پھر آپ ان حالات میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بار الٰہا ! تو جانتا ہے  ، جو کچھ ہمارے طرف سے ہوا وہ نہ تو حصول اقتدار کے لیے،  نہ مال و دنیا میں اضافے کے لیے، بلکہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تیرے دین کو آشکار کردیں تاکہ تیرے مظلوم اور بے یار و مددگار بندوں کو امن و سکون میسر آسکے۔‘‘

آخر میں آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’ اے لوگو! آج اگر تم نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو مجھے خوف ہے کہ ظالم تم پر ہمیشہ کے لے مسلط ہوجائیں گے اور مجھے یہ خطرہ ہے کہ وہ دین خدا کے چراغ کو نہ بجھا دیں ۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ اس نظام ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت نے نواسۂ رسول ﷺ کا اس طرح ساتھ نہیں دیا ، جو حالات کا تقاضہ تھا ۔ امام عالی مقام ؓ کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔ آج تک امت مسلمہ پر ظالم حکومت کر رہے ہیں۔

لیکن جہاں تک دین خد اکے چراغ کا تعلق ہے، اسلامی اقدار کی روشنی کا سوال ہے ، نبی ﷺ کے نواسے نے اپنا خون ہی نہیں نذر کیا ، بلکہ جن کا خون اپنے خون سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ، جو بازؤں کی طاقت ہوں۔ آنکھوں کا نور ہوں، گود کے پالے ، گھر کے اجالے ، سب ہی کا خون نذر کر دیا۔ گھر کے سارے چراغوں کو میدان کربلا میں لے آئے تاکہ چراغ نبوت کی لو مدھم نہ ہونے پائے۔ جب یہ پاک و معصوم خون چراغ نبوت کی نذر ہوں تو نور نبوت نوراً علا نور بن جائے ، ہمیشہ کے لیے ، ہر زمانے کے لیے ہر خطہ ارض کے لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔