بڑے تاباں، بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں!

جنید قریشی  جمعـء 13 مارچ 2015
ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں تمام تر فنی نزاکتوں اور تقاضوں سے پُر ہیں اور ان میں عصری شعور جھلکتا ہے۔

ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں تمام تر فنی نزاکتوں اور تقاضوں سے پُر ہیں اور ان میں عصری شعور جھلکتا ہے۔

ادا جعفری نے 12 مارچ 2015 کو ہمیشہ کے لیے ہم سے آنکھیں موند لیں۔ ادب میں تہذیب و روایت کا ایک اور باب بند ہوگیا۔ اردو شاعری کا ایک عہد تمام ہوا۔ منکسرالمزاج، شائستہ اور درویش صفت شاعرہ کے علم و فن پر کچھ کہنے لکھنے کے لیے قدوقامت چاہیے۔ ہم جیسے پستہ قد ان کی شخصیت اور فن کا احاطہ نہیں کرسکتے۔

چند سطور میں ان کی زندگی کے ابتدائی حالات، شعری سفر کی روداد اور اُن کا کچھ کلام آپ تک پہنچانا چاؤں گا۔ استاد امانت علی خان کی آواز اور ادا جعفری کی غزل کے مطلع کا یہ مصرع ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے‘ کسے یاد نہ ہوگا۔ ان کا ایک شعر ہے؎

ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں ادا
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں

ادا جعفری کی زندگی کی کتاب کا پہلا ورق الٹیں تو اس پر تاریخ پیدائش 22 اگست 1924 درج ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولی۔ اہلِ خانہ نے انہیں عزیز جہاں کے نام سے پکارا۔ تین برس کی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ان کی پرورش aaa میں ہوئی۔ عزیز جہاں کی تعلیم و تربیت اُس زمانے کے روایتی ماحول میں ہوئی تھی جب دینی اور تہذیبی روایات کا بے حد خیال رکھا جاتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک نسبتاً گھٹا ہوا ماحول تھا، لیکن اِس لڑکی نے ایک ایسی دنیا سے ناطہ جوڑ لیا جس میں ذہنی وفکری کشادگی اور خیالات کے تنوع کا عمل دخل تھا۔

ادا جعفری ادب کی طرف مائل ہوگئیں اور شعر کہنے لگیں۔ اُنہوں نے 13 سال کی عمر میں شاعری شروع کردی تھی۔ جہاں علم و سخن میں ان کی ذاتی زندگی کے مشاہدے، تجربے اور مطالعہ کی وسعت کام آئی۔ جبکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ دنیا بھر میں جغرافیائی تبدیلیاں ہورہی تھیں اور نئے خیالات و رجحانات پنپ رہے تھے۔ وہ سیاسی، سماجی لحاظ سے بڑی تبدیلیوں کا دور تھا، جس نے ادا جعفری کو بھی متاثر کیا۔ اسی حوالے سے ان کا  یہ شعر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے؎

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا، کبھی اخبار ہوجانا

ادا جعفری نے بھی حساس عورت کی طرح اپنی ہم جنسوں پر روایات، پابندیوں اور جبر کے خلاف روایت شکنی کی اور تبدیلی کے خواب سجائے اور شعروں میں انہیں بیان کرنا شروع کیا۔

حال کھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اٹھائے ہیں جن قرینوں سے

اس حوالے سے ایک اور شعر کچھ یوں ہے؎

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بکو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

اور ایک معصوم سی آرزو کا اظہار یوں کیا؛

اِک کرن تبسم کی زاد راہ بن جاتی
اور دل نے کیا مانگا اور ہم نے کیا چاہا

یہ دو شعر ملاحظہ ہوں؛

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

ہم اتنی دور کہاں تھے کہ پھر پلٹ نہ سکیں
سوادِ شہر سے کوئی صدا نہیں آئی

ان کا کلام اس وقت کے مشہور ادبی رسالوں میں شائع ہوا۔ اختر شیرانی اور اثر لکھنوی جیسے باکمال شعراء سے کلام پر اصلاح لیتی رہیں۔ ادا جعفری کا انداز اپنے عہد کی دیگر شاعرات سے جداگانہ اور انفرادی تھا۔ ان کے دور میں نسائی ادب، جدید فکر اور کسی نئے تجربے کو قبول کرنے سے دور نظر آرہا تھا۔ لیکن ادا جعفری نے ترقی پسند موضوعات کو نظموں میں بیان کیا اور شاعری میں تجربات کی طرف متوجہ ہوئیں۔ انہیں غزل اور نظم دونوں اصناف میں کمال حاصل تھا۔ ادا جعفری نے اپنی ذات میں قید رہنے کے بجائے عام زندگی اور کائنات پر بھی غوروفکر کیا۔ ان کی کئی نظموں میں مسائل حیات کا جرات مندانہ اظہار ملتا ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں تمام تر فنی نزاکتوں اور تقاضوں سے پُر ہیں اور ان میں عصری شعور جھلکتا ہے۔ ان کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

میں دشت زندگی میں کھلے سر نہیں رہی
اک حرف آرزو کی ردا مل گئی مجھے

جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑھتی گئی

بڑے تاباں، بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ
مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا

ادب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری پاکیزہ خیالات اور شائستگی کا نمونہ ہے۔ اس میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدید رجحانات یا مغرب کی مثبت اقدار کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یوں کہیے کہ ان کا کلام جدید و قدیم کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے فکروفن کے اظہار میں نہایت سلیقے سے کام لیا ہے۔ ادا جعفری نے قدامت پرست یا روایتی ہونے کا لیبل نہیں لگوایا تو مغرب کی نمائندہ یا ترجمان بھی نہیں بنیں۔

ادا جعفری کی شعری تصانیف میں ’’حرف شناسائی‘‘، ’’ساز سخن بہانہ ہے‘‘، ’’سفر باقی ہے‘‘، ’’شہر درد‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ اور ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی کتاب ’’غزل نما‘‘ 1987ء میں شائع ہوئی جس میں اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور کلام پر مشتمل مضامین شامل ہیں۔ جولائی 1995ء ان کی خود نوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ شائع ہوئی جو نثر کے میدان میں ان کی فنی مہارت اور زبان و بیان پر دسترس کا نمونہ ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرز معاشرت کو بیان کیا ہے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے ادا جعفری کو تمغہ امتیاز کے علاوہ آدم جی ایوارڈ، بابائے اردو ایوارڈ اور پاکستان رائٹرز گلڈ سمیت دنیا بھر کی اردو ادب کی تنظیموں کی طرف سے بھی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے۔ ادا جعفری وہ نام ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔