وہ دیوانہ

عمر قاضی  پير 16 مارچ 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

عوامی زباں میں عوامی حقوق کی خوبصورت آواز کو صرف اس دن یاد کیوں کریں جب ان کی برسی ہو، اس کا تذکرہ ہر اس دن کیا جائے جس دن وہ یاد آئے۔

آج پنجاب کی مٹی کو انقلاب کی زبان دینے والا وہ حبیب جالب نہ معلوم کیوں شدت کے ساتھ یاد آ رہا ہے جس نے اپنے عہد میں ہر طاقت کو للکارا اور ہر آمر کے خلاف اپنی شاعری کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔ کیا حبیب جالب کی یاد اس لیے آ رہی ہے کیوں کہ تین روز قبل ان کی برسی تھی؟ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا پر انھیں اتنا وقت یاد نہیں کیا گیا جتنی دیر لائیو کوریج میں کسی بیکار سیاستدان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں انقلابی شاعروں اور ادیبوں کی اہمیت نہ ہو، وہ ملک کون سی ثقافت کا امین ہوگا؟ ثقافت صرف لباس اور زبان تک محدود نہیں۔

ثقافت تو اصل میں معیارات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ اور جس طرح انگریز شاعر شیلے نے لکھا تھا کہ ’’شاعر اس دنیا کے اصل قانون ساز ہیں‘‘ ویسے ہی ہمیں اصل معاشرتی معیار وہ شاعر دیتے ہیں جو ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کس عہد میں ہمیں کون سا کردار ادا کرنا چاہیے؟ جس طرح علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے ایک منظوم پیغام دیا ۔ وہ پیغام ایک نئے ملک کو تخلیق کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ اسی طرح اقبال کے بعد فیض نے ہمیں سمجھایا کہ ’’یہ آزادی وہ آزادی نہیں جس کے لیے ہم نے غلامی کی سیاہ راتوں میں سفر کیا تھا‘‘ اور یہ فیض ہی تھے جنھوں نے مایوس ہونے اور مایوس کرنے کے بجائے ہمیں کہا تھا کہ:

نجات دید و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

وہ منزل جو اپنے مسافروں کی منتظر ہوا کرتی ہے۔ اس منزل کی راہ میں جو حکمران رکاوٹ بنے حبیب جالب نے ان حکمرانوں کو نشانہ بنایا اور عوامی شاعر ہونے کا فرض ادا کرتے ہوئے عوامی جذبات کا اظہار اس خوبصورتی کے ساتھ کیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ابھی تک حبیب جالب کے کلام کو ترنم سے پڑھتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب یا وفاقی حکومت نے حبیب جالب کی خدمات اور ان کے تاریخی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس سے یہ بات ثابت ہو سکے کہ واقعی حبیب جالب کے لیے موجودہ حکمرانوں کے دل میں احترام اور اہمیت ہے۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ حبیب جالب کا مزار اس اندازسے تعمیر کروایا جائے کہ اس کے آرکیٹیکچر سے یہ بات صاف طور پر نظر آئے کہ یہ ایک انقلابی اور عوامی شاعر کا مزار ہے۔ کیا حکومت کے لیے ممکن نہیں؟ ان کے اشعار وزیراعلیٰ عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں،انھیں اس غریب شاعر کے مزار پر بھی آنا چاہیے، جس نے لکھا تھا کہ:

کہاں قاتل بدلتے ہیں صرف چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

تاریخ کا وہ فاصلہ ابھی تک موجود ہے۔ منزل اور مسافر کے درمیاں فاصلہ ختم تو کیا کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتا۔ اور اس حقیقت کو کون نہیں مانے گا کہ اس ملک کے عوام نے نظام کی نہیں بلکہ چہروں کی تبدیلی دیکھی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے شعراء نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی شاعری کا شروع سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اپنے ملک کی سیاسی تاریخ صاف نظر آئے۔ یہ طرہ امتیاز صرف حبیب جالب کو حاصل ہے کہ ان کی شاعری اس ملک کی سیاسی تاریخ ہے۔ جب اس ملک پر ایوبی آمریت مسلط تھی تب حبیب جالب نے لکھا تھا کہ:

کہیں گیس کا دھواں ہے
کہیں گولیوں کی بارش
شب عہد کم نگاہی
تجھے کس طرح سراہیں؟

اور جب ایوبی آمریت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اس وقت بنگال میں ہونے والے ایکشن پر ایسے اشعار صرف حبیب جالب ہی لکھ سکتے تھے کہ:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کوکہ منزل کھو رہے ہو

اور صرف آمروں کو نہیں بلکہ جب انھیں محسوس ہوا کہ عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی جمہوریت کا حق ادا نہیں کر رہے تو انھوں نے بھٹو کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور ان کی وہ نظم آج بھی سب کے دلوں پر نقش ہے جو انھوں نے بھٹو کے حوالے سے لکھی تھی:

قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

مگر وہی حبیب جالب جنرل ضیا کی آمریت کے سب سے بڑے مخالف ثابت ہوئے۔ انھوں نے جنرل ضیا کے دور میں خواتین کے خلاف سیاہ قوانین کی مخالفت میں نکلنے والے جلوس میں شامل ہوکر اپنے انقلابی اشعار سنائے اور تشدد کا نشانہ بھی بنے اور اس کارروائی کے خلاف بھی انھوں نے یہ شعر لکھا تھا کہ:

بڑے بنے تھے جالب صاحب کھڑے سڑک کے بیچ
گالی کھائی، لاٹھی کھائی، گرے سڑک کے بیچ

ایسے اشعار لکھنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ وہ حبیب جالب جس نے شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا اور جنرل ضیا کے خلاف ان کے کردار کی بھرپور حمایت بھی کی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ:

وردی والے ڈرتے ہیں
ایک نہتی لڑکی سے

اور یہی نہیں مگر جب بینظیر بھٹو برسر اقتدار آئی اور جالب نے دیکھا کہ برسوں سے انصاف کا انتظار کرنے والے عوام کو کچھ نہیں ملا تو انھوں نے بینظیر کو بھی معاف نہیں کیا۔ انھوں نے عہد بینظیر میں لکھا تھا کہ:

حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے

اس عظیم شاعر کو کسی جمہوری حکمران نے عملی طور پر عوامی اظہار کے حوالے سے کوئی علامتی عزت نہیں بخشی، جس کی وفات پر کسی اور نے نہیں بلکہ اس ملک کے اک شاعر قتیل شفائی نے حبیب جالب کو عزت کا سلام پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اپنے سارے درد بھلا کر اور کے غم سہتا تھا
ہم جب غزلیں کہتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا

آخر چلا ہی گیا روٹھ کر ہم فرزانوں سے
وہ دیوانہ جس کو زمانہ جالب جالب کہتا تھا

وہ واقعی دیوانہ تھا۔ مگر ایسے دیوانے ہی اس دنیا کا حسن ہوا کرتے ہیں۔ یہ دنیا ہے اور موجود رہے گی مگر اس دور میں جالب جیسی آواز نہیں تو یہ دور اس طرح خوبصورت نہیں اور اگر مستقبل میں بھی جالب جیسا دیوانہ شاعر پیدا نہ ہوا تو مستقبل بھی حسن سے عاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔