صحیح الیکشن ہی زندگی ہے

اگر الیکشن صحیح ہوں تو جمہوریت کا یہی حسن ہے اور جمہوریت کی یہی زندگی ہے جس کے ساتھ جمہوریت زندہ رہتی ہے۔


Abdul Qadir Hassan October 14, 2015
[email protected]

جو لوگ حالات کا جائزہ نہیں لیتے یعنی رپورٹنگ نہیں کرتے میرے خیال میں انھیں روزمرہ کے حالات پر کالم لکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ ایک پرانے گھسے پٹے کالم نویس کی رائے ہے لیکن میں پرانا ہونے کے باوجود کوشش میں رہتا ہوں کہ اس رائے سے اختلاف کروں اور نئے لکھنے والوں کو بتاتا رہوں کہ قارئین کی دلچسپی برقرار رکھتے ہوئے کسی طرح کالم لکھا جائے۔

ایک مشہور ترک کالم نگار کی رائے ہے کہ کالم شروع میں چند دلچسپ جملوں کے بعد ذرا سست بھی پڑ جائے تو ہرج نہیں لیکن کالم کا آخری حصہ پہلے کی طرح جاندار ہونا ضروری ہے تا کہ قاری کچھ لے کر جائے۔ بہر کیف کالم نویسوں کے اس ہجوم میں جو دنیا بھر کے اخباروں میں برپا ہے آپ کو اپنی جگہ ہر حال میں بنانی پڑتی ہے۔ نہ اخبار کا ایڈیٹر آپ سے کوئی رعایت برت سکتا ہے اور نہ پیسے خرچ کر کے اخبار خریدنے والا۔ آپ کو ہی ہر حال میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

یہ آپ کی پیشہ ورانہ مجبوری ہے اور انھی مجبوریوں میں کام کرنے میں لطف آتا ہے۔ مثلاً لاہور شہر ان دنوں الیکشن کی زد میں ہے اور بوکھلایا ہوا ہے کیونکہ الیکشن جیتنے اور ہارنے والے دونوں اپنے مخالفوں کو معاف نہیں کر رہے اور نہ ہی ان کا معاف کرنے کا کوئی ارادہ ہے مثلاً جب الیکشن میں حصہ لینے والوں میں کوئی دولت مند ہوتا ہے تو اس کی دولت کو معاف نہیں کیا جا سکتا اور دولت لٹانے کی مثالیں سامنے لائی جاتی ہیں۔

لاہور کو دولت سے خریدنے کا ایک تاریخی واقعہ ہماری تاریخ نے محفوظ کر رکھا ہے اسے جلدی کسی دن ایک بار پھر بیان کیا جا سکتا ہے لیکن الیکشن میں سرمایہ کاری اور فراخدلانہ خدمت خلق کسی سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ جن لوگوں کو گلی محلوں میں عوامی کام پڑے ہیں ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ووٹ خریدنے سے پہلے ان کے مسائل حل کیے جائیں لیکن ان کے مسائل تو پھر بھی کبھی حل ہو سکتے ہیں لیکن ووٹ کی ضرورت تو فوری ہوتی ہے اس میں تاخیر نہیں کی جا سکتی چنانچہ یہی وجہ کہ جہاں بھی الیکشن ہوتا ہے وہاں مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

لاہور کے اس شاہانہ الیکشن میں بھی اس شہر اور الیکشن والے حلقوں میں عوام اپنے مسائل کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ان کی قسمت ایک بار جاگی تھی جو پھر سو گئی اور وہ اسے مکمل جاگتا اور بیدار نہ رکھ سکے۔

اب وہ کسی دوسرے ایسے ہی موقع کی تلاش کریں کیونکہ ایک اور الیکشن آنے والا ہے جو سراسر دیہاتی ہو گا یعنی بلدیاتی الیکشن مقامی کام کرنے کے لیے یہ بلدیاتی الیکشن سب سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس کے امیدوار انھی گلی کوچوں میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور یہ تمام کام گویا ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے لیے اس وقت ملک بھر میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں اور وہ تمام حربے بھی جو الیکشن میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر الیکشن صحیح ہوں تو جمہوریت کا یہی حسن ہے اور جمہوریت کی یہی زندگی ہے جس کے ساتھ جمہوریت زندہ رہتی ہے۔

بات گلی محلے کی تو مقامی آبادی سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات میں ایک خاص تبدیلی سامنے آئی ہے کہ لوگ اب گھروں محلوں کے کام ٹھیکہ داروں کو نہیں دیتے جو کھاتے زیادہ اور کام کم کرتے ہیں۔ ایسے تلخ تجربے کے بعد گلی محلے کے لوگوں نے مل جل کر یہ کام خود کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ہر گاؤں میں ان چھوٹے موٹے کاموں کو کرنے والے موجود رہتے ہیں اب ان لوگوں کو گاؤں کے کاموں میں لایا جا رہا ہے اور وہ یہ کام جو ان کے اپنے کام ہیں ٹھیکیداروں سے کہیں زیادہ بہتر کرتے ہیں کم خرچ بھی اور مضبوط بھی۔ میں ایک گاؤں کا دیہاتی ہوں اور میرا یہ مشاہدہ ہے کہ گاؤں کے لوگ اپنا کام سب سے بہتر کرتے ہیں۔

سستا بھی اور پائیدار بھی۔ ہمارے دیہات میں ایک کہاوت ہے کہ ہم تو اپنے کام کر لیتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار ہمارے کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں نہ خود کرتے ہیں نہ ہمیں کرنے دیتے ہیں۔ ہم دیہاتی لوگ نہیں جانتے کہ اگر ہم اہلکاروں کے بغیر کام کر لیں گے تو پھر ان سرکاری کارندوں کو کون پوچھے گا۔

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اسّی نوے ہزار کا سامان موجود تھا جس میں اسپرے کرنے والے آلات اور زراعت کی مدد کے دوسرے سامان ہوا کرتے تھے یہ ایوب خان اور کالا باغ کا زمانہ تھا مگر یہ تمام آسانیاں گزر گئیں۔ اس زمانے میں فنی عملہ بھی دو ایک دیہات میں حاضر نوکری رہتا تھا اور جب کوئی کام ان کی ہنرمندی سے زیادہ ہوتا تھا تو وہ تحصیل ہیڈ کوارٹر سے امداد منگوا لیتے تھے لیکن یہ سب اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اوپر بیٹھے لوگ زراعت دشمنی نہ کریں جس کے بعد یہ ملک باقی نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ صنعتی نہیں زرعی ملک ہے۔

مقبول خبریں