میٹھا ہپ ہپ کڑوا تھو تھو
’’ کویت اور خلیج تعاون کونسل کی دیگر رکن ریاستیں صرف غیرملکی کارکنوں کے لیے سازگار ہیں۔
اب سے پچیس برس پہلے جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کر لیا تو شاہی خاندان سمیت لاکھوں کویتی جان بچانے کے لیے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرف بھاگے۔ابو ظہبی کی حکومت نے سیکڑوں اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر ان میں پناہ گزیں خاندانوں کو تب تک مفت ٹھہرایا جب تک کویت آزاد نہیں ہوگیا۔اسی جنگِ خلیج میں شامی صدر حافظ الاسد نے ایک مسلح بریگیڈ کویت کی آزادی کے لیے سعودی عرب بھی بھیجا۔اس پس منظر کے ہوتے ایک اعلی کویتی اہل کار کا یہ حالیہ بیان ملاحظہ فرمائیے۔
'' کویت اور خلیج تعاون کونسل کی دیگر رکن ریاستیں صرف غیرملکی کارکنوں کے لیے سازگار ہیں۔انھیں ( شامی پناہ گزیں) یہاں منتقل کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ویسے بھی ترکی اور لبنان کے مقابلے میں کویت پناہ گزینوں کے لیے ایک مہنگا ملک ہے۔اس لیے ترکی اور لبنان شامی پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔ویسے بھی ہمارے لیے مناسب نہیں کہ اپنے سے مختلف لوگوں کو قبول کریں۔ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں جو ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل ساتھ لائیں ''۔
( فہد الشلامی ، چیئرمین گلف فورم فار پیس اینڈ سیکیورٹی کویت ، دو ستمبر دو ہزار پندرہ )۔
عرب لیگ کے بائیس ارکان ہیں۔شام کی رکنیت پچھلے چار برس سے معطل ہے۔ عرب لیگ یمن کے بحران میں خلیجی ممالک کے ساتھ ہے لیکن ہم نسل و ہم مذہب شامی پناہ گزینوں کی ابتری اور بحالی کی بابت آج تک عرب لیگ کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا۔
ایک غیر عرب ترکی کو چھوڑ کے جہاں سب سے زیادہ شامی پناہ گزین ( بیس لاکھ ) موجود ہیں۔سب سے زیادہ بوجھ عرب لیگ کے دو غریب ارکان اپنی مرضی سے برداشت کررہے ہیں۔یعنی لبنان میں تقریباً بارہ لاکھ اور اردن میں سات لاکھ کے لگ بھگ شامی پناہ گزین موجود ہیں۔دونوں ممالک میں اب اور سکت نہیں رہی لہٰذا انھوں نے مزید انسانی بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔جب کہ شام کا ایک اور ہمسایہ عراق جس کے ایک تہائی علاقے پر داعش قابض ہے اور مجموعی طور پر باقی ملک بھی بدامنی اور کشیدگی کا شکار ہے وہاں بھی تقریباً ڈھائی لاکھ شامی پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ مصر میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ، الجزائر میں تیس ہزار اور تیونس میں چار ہزار کے قریب شامی پناہ گزیں رہ رہے ہیں۔
مگر عرب لیگ کی رکن امیر ترین ریاستوں کا طرزِ عمل بالکل مختلف ہے۔کونسل کے چھ رکن ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بشار الاسد کی مخالف مسلح تنظیموں کو تربیت ، اسلحے، غیر فوجی رسد کی فراہمی اور علاج معالجے کی سہولتوں میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر خطیر خرچہ اٹھا رہے ہیں۔تاہم اقوامِ متحدہ کے مطابق گذ شتہ چار برس کے دوران خلیج تعاون کونسل کے ارکان نے شامی پناہ گزینوں کی امداد کی مد میں مجموعی طور پر صرف ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔ امریکا بھی بشار الاسد کے مخالفین کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے مگر شامی پناہ گزینوں کی مد میں بھی وہ اب تک دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر فراہم کرچکا ہے۔جب کہ برطانیہ بھی خانہ جنگی میں عسکری فریق ہے لیکن پناہ گزینوں کی مد میں ایک ارب ڈالر کے برابر امداد دے چکا ہے۔
حالانکہ خلیج تعاون کونسل کا رکن قطر فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے امیر ریاست ہے۔کویت اور بحرین فی کس آمدنی کے عالمی چارٹ میں دسویں ، متحدہ عرب امارات تیرہویں ، سعودی عرب بیسویں اور تعاون کونسل سے باہر کا ایک خلیجی ملک اومان اکتیسویں درجے پر ہے۔
مگر سوائے متحدہ عرب امارات کہ جہاں ایک لاکھ شامی پناہ گزین کارکنوں سمیت ڈھائی لاکھ شامی کارکن موجود ہیں۔ خلیج تعاون کونسل کے دیگر پانچ ارکان اور اومان نے ایک بھی شامی پناہ گزیں قبول نہیں کیا۔
کسی بھی خلیجی ملک نے آج تک پناہ گزینوں سے متعلق انیس سو اکیاون کے عالمی کنونشن پر دستخط نہیں کیے جس کے تحت رکن ممالک پابند ہو جاتے ہیں کہ وہ بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب و ملت ایسے تمام متاثرین کو عارضی پناہ دیں گے جن کی جان و مال عزت و آبرو اپنے ملک میں محفوظ نہ ہو۔اس بابت شام کا المیہ اظہر من الشمس ہے جہاں ڈھائی کروڑ آبادی میں سے ایک کروڑ اندرونِ ملک دربدر ہو چکے ہیں اور چالیس لاکھ سے زائد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
امیر خلیجی عرب ممالک نہ صرف عرب لیگ بلکہ اقوامِ متحدہ کے بعد حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی تنظیم اسلامی کانفرنس کے بھی رکن ہیں کہ جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم نے پانچ ستمبر کو ستاون رکن ممالک سے اپیل کی کہ ہر مسلمان ملک برادر شامی پناہ گزینوں کی مدد اور پناہ کے سلسلے میں جو بھی کر سکتا ہے ضرور کرے کیونکہ یہ کسی ایک مسلمان ملک یا عالمِ اسلام کا نہیں بلکہ کل عالم کا المیہ ہے۔اس اپیل کے نتیجے میں ترکی کے علاوہ جس غیر عرب ملک نے پانچ ہزار پناہ گزین قبول کیے وہ ملیشیا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک اور کینیڈا وغیرہ نے اب تک چار لاکھ کے لگ بھگ شامی پناہ گزین قبول کیے ہیں اور پیرس حملوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔جب کہ یونان ، اٹلی اور قبرص کے ساحلوں پر مخیر یورپی فلاحی تنظیمیں بحیرہِ روم پار کرنے والے بدقسمت پناہ گزینوں کی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں اور ان کے اخراجات عام طور سے غیر سرکاری ذرایع سے پورے ہوتے ہیں۔
روس اگرچہ شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں برابر کا شریک ہے لیکن اس نے بھی شامی پناہ گزین قبول کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ایک شامی خاندان تو ماسکو کے ایک ایرپورٹ کے لاؤنج میں گذشتہ تین ماہ سے ڈیرہ جمائے ہوئے ہے کیونکہ پناہ کی درخواست کا فیصلہ ہونے تک اسے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔
ایرانی پاسداران نہ صرف بشار الاسد کے شانہ بشانہ داعش اور دیگر سنی باغیوں سے نبرد آزما ہیں بلکہ انھوں نے افغان اور پاکستانی رضاکار بھی بھرتی کرکے شام بھیجے ہیں۔ تاہم ایران نے آج تک ایک بھی شامی پناہ گزیں قبول نہیں کیا۔الٹا صدر حسن روحانی یورپی یونین سے متعدد اپیلیں کر چکے ہیں کہ وہ مزید شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دے۔یہ وہی ایران ہے جس نے 80 کے عشرے میں بیس لاکھ کے لگ بھگ افغان پناہ گزین قبول کیے تھے۔مگر افغانستان کے برعکس شام سے ایران کی سرحد براہِ راست نہیں لگتی۔لیکن شام کی سرحد تو کینیڈا سے بھی نہیں لگتی۔
انسانی پناہ کے سلسلے میں امیر عرب ممالک کا طرزِ عمل نیا نہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ 80کے عشرے میں یہ ممالک افغان مجاہدین کو اسلحہ ، تربیت ، رسد اور سیاسی مدد دینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔بلکہ سعودی عرب نے تو افغان جنگ میں ہر امریکی ڈالر کے بدلے ایک ڈالر اپنے خزانے سے دیا۔مگر جب چالیس لاکھ سے زائد برادر افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانے کی بات آئی تو اس بابت قربانی کی توقع پاکستان سے ہی کی گئی کہ جس کی اپنی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔برادر عرب مجاہد بھی پاکستان کو اسی جہیز میں ملے۔اسے کہتے ہیں،
حق اچھا ، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔۔۔۔