آج کل صرف انگوٹھا کھایا جاتا ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 1 جون 2016
barq@email.com

[email protected]

محترمہ شہید بینظیر کی حکومت کا زمانہ تھا۔ ٹی وی پر اشتہار اکثر آیا کرتا تھا، اس کا مفہوم تو یاد نہیں ہے لیکن اس میں ایک چھوٹی سی بچی سے جب پوچھا جاتا تھا کہ بڑی ہو کر تم کیا بنو گی تو وہ بڑے یقین کے ساتھ جواب دیتی ’’ پرائم منسٹر بنوں گی‘‘۔ وہ لڑکی اب یقیناً بڑی ہو گئی ہو گی لیکن پرائم منسٹر یقیناً بنی نہیں ہو گی۔  جن میں اس نے کوشش کی ہے کہ صحیح واقعات جمع کرے لیکن بے چارہ نہ تو اپنے سے اگلے زمانے میں موجود تھا اور نہ ساری دنیا میں سفر کر سکتا تھا اس لیے ذرایع کے لیے اس نے ان زمانوں اور علاقوں کے لوگوں پر انحصار کیا، خود تو غالباً مصر یا عراق سے آگے نہیں آیا تھا لیکن وہاں جس علاقے کے لوگوں سے ملا ان سے وہاں کے حالات و واقعات سن کر درج کر دیے۔

البتہ اس نے کمال دیانت داری سے مختلف واقعات سنا کر آخر میں اپنی رائے دی ہے کہ یوں بھی کہا جاتا ہے اور یوں بھی لیکن میرا دل فلاں بات کو صحیح سمجھتا ہے۔ مشہور بادشاہ داریوش کبیر کی سلطنت کے بائیس صوبوں کا ذکر وہ تفصیل سے کرتا ہے کہ اس میں کون لوگ رہتے تھے اور وہاں سے کتنا خراج وصول ہوتا تھا۔

جدید دور کے گینگسٹر بھی ہفتہ وصول کر کے اس علاقے کی ’’حفاظت‘‘ کرتے ہیں یعنی کسی دوسرے کو لوٹنے نہیں دیتے ہیں خود ہی پہلے سے لوٹ کر، خیر یہ تو اپنی جگہ ایک الگ داستان ہے جس پر ہمارے ایک دوست نے بڑا ہی اچھا تبصرہ کیا تھا وہ بے چارا کافی عرصے سے بیروزگار تھا ہر قسم کی ملازمت ڈھونڈی، ہر سرکاری دفتر پر باوجود میرٹ کے دستک دے کر بھی خالی ہاتھ ہی رہا تو اس نے بازار میں زمین پر بیٹھ کر لسی ساگ اور جوار کی روٹی کا دھندہ شروع کیا جو چل نکلا پھر اس نے بھینس خریدی پھر کئی اور بھینسیں اور آخری ڈیری فارم تک پہنچا، ایک دن اس کے نام ’’انکم ٹیکس‘‘ کا پرچہ آیا تو اپنا سر پیٹ کر بولا کہ کل جب میں انکم تو کیا بھوکوں مر رہا تھا تو ان کم بختوں میں کوئی بھی نہیں جاگ رہا تھا اور آج میری انکم کی سب کو خبر ہو گئی۔

کم از کم انکم میں کچھ ہاتھ تو بٹایا کریں، پھر خود ہی بولا چیونٹیاں مٹھاس سونگھ کر ہی کہیں جاتی ہیں جہاں مٹھاس نہ ہو وہاں کوئی مرے یا جئے چیونٹیوں کا کیا کام اور وہ بستی بسنے سے پہلے ڈاکوؤں کا آنا تو آپ نے سنا ہی ہو گا، جہاں پر آج کل مملکت خداداد پاکستان کے علاقے پائے جاتے ہیں اور دلیل اس پر یہ ہے کہ ان علاقوں میں آج کل بھی بزرگوں کے ساتھ تقریباً ویسا ہی برتاؤ کیا جاتا ہے، صرف جسمانی طور پر نہیں کھاتے کیوں کہ مسلمان ہونے کے ناطے انسان کا گوشت براہ راست کھانا ممنوع ہے لیکن جسم کے باہر ان بزرگوں نے جو کچھ بھی ’’گین‘‘ کیا ہوا ہوتا ہے وہ بڑے آرام سے ہڑپ کر لیتے ہیں۔

ہیروڈوٹس نے اپنی چٹکلہ باز طبیعت سے مجبور ہو کر بتایا ہے کہ جب خاندان کے بزرگ ایکسپائری ڈیٹ کے قریب ہو جاتے ہیں تو ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے کہ کہیں بھاگ کر ان کی خاندانی تقریب خاص کا ستیاناس نہ کر دیں کیونکہ اپنے بزرگوں کو تبرک کے طور پر کھاتے ہیں بلکہ ان کا گوشت اپنے دوستوں اور عزیروں میں بانٹتے ہیں۔ بزرگوں کو بھی احساس ہو جاتا ہے کہ ہمارے زینت دستر خوان ہونے کے دن آپہنچے ہیں اس لیے وہ موقع دیکھ کر کھسک جاتے ہیں لیکن بچ نہیں پاتے کیوں کہ ایسے مواقع پر بستی والوں میں حد درجہ اتفاقپایا جاتا ہے۔ بستی کی حدود میں باقاعدہ سرچ پارٹیاں پھرتی رہتی ہیں کہ کہیں ’’خوان لغیما‘‘ ہاتھوں سے نکل نہ پائے۔

ایسے مواقع پر لواحقین بڑے فخر سے اپنے بزرگوں کا گوشت کھاتے کھلواتے اور تقسیم کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے تبصرے بھی ہوتے ہوں کہ ہمارے والد جب مرے تھے تو ہم نے ان کم بختوں کو یہ ران کا پارچہ بھیجا تھا اور ان خدا ماروں نے پسلی کی ہڈیوں پر ہمیں ٹرکا دیا، ویسے آج کل حالات کافی سدھرے ہوئے ہیں، صرف ایک انگوٹھا لے کر باقی بزرگ کو معاف کر دیتے ہیں بلکہ از راہ ترحم کوئی عنقریب گرنے والی تنگ سی کوٹھری یا اسٹور وغیرہ بھی دے دیتے ہیں کہ جا اللہ اللہ کر۔کچھ بزرگ البتہ مسئلہ یہ پیدا کر دیتے ہیں کہ پنشن ان کے نام ہوتی ہے جب کسی بھی جتن سے وہ پنشن دینے پر راضی نہیں ہوتے تو ان کو سہارا دینے کے لیے کوئی وارث بھی ساتھ جاتا ہے۔جب بزرگ کے انگوٹھے وغیرہ ہو جاتے ہیں تو باقی تکلیف کے لیے وارث ہاتھ بڑھا کر وہ گوشت اچک لیتا ہے جو نوٹوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ یوں کہیے کہ آج کل بزرگوں کا صرف انگوٹھا کھایا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔