وقت کی صدا ہے

شبیر احمد ارمان  پير 17 دسمبر 2012
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ہماری سیاسی تاریخ کا تجربہ وتجزیہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت ہو یا غیر جمہوری حکومت، ہر دور میں چند سو خاندانوں کے ڈرائنگ رومز میں میوزیکل چیئر گیم کھیلا جاتا رہا ہے یعنی ایک بھائی اقتدار میں تو دوسرا بھائی اپوزیشن میں، ایک رشتے دار حزب اقتدار میں تو دوسرا حزب اختلاف میں اور اسی تناسب میں سرکاری عہدے آپس میں تقسیم کیے جاتے رہے ہیں، ہر صورت میں اقتدار کی اتھارٹی اسٹامپ مہر گھر کی میز پر رہی ہے، ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ یہی ہمارا سیاسی فلسفہ رہا ہے، اس کھیل تماشے میں کچلے ہوئے غریب عوام ڈگڈگی کی آواز پر تالیاں بجاتے رہے اور کھیل کھیل میں ملک دولخت ہوگیا اور صدا بھی نہ آئی۔

ملک و قوم کے نام پر حاصل کی گئی دولت غلط سمت میں استعمال ہوتی رہی نتیجتاً ماں کی کوکھ میں نشوونما پانے والا بچہ بھی مقروض وگروی ہوگیا، معیشت و اقتصادیات کی ابتری و زبوں حالی،سرائیت کرتی ہوئی کرپشن، مہنگائی و بے روزگاری سے جنم لینے والے جرائم و خودکشیاں درحقیقت فرسودہ ناکام نظام حکومت و متعصبانہ سیاست کا شاخسانہ ہیں۔

ہماری معیشت ایسی ہے کہ 20 فیصد سرکاری تنخواہوں اوردیگر ترقیاتی کاموں میں صرف ہورہے ہیں اور 80 فیصد دفاع اور قرضوں وسود کی ادائیگی میں جارہے ہیں (کرپشن کا معاملہ الگ ہے)۔ ایسی صورت میں معیشت کیسے بحال ہوسکتی ہے؟ وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جسے گھماکر قوم کی ناگفتہ بہ حالت سدھاری جاسکتی ہے؟ مفلس بدحال غریب عوام نے ہر دور میں قربانیاں دی ہیں اور آج بھی خودکشیوں کے ذریعے اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہی ہیں۔

خدارا ! قوم کو اس قابل نہ بناؤ کہ زندگی بوجھ بن جائے، وقت کا تقاضا ہے کہ قومی دولت کو لوٹنے والے قومی لٹیروں سے قومی دولت واپس لے لی جائے، جدی پشتی حکمرانی کرنے والوں کا یہ قومی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی دولت ملک میں واپس لائیں اورمعیشت کو بحال کرنے میں اپنا قومی فرض نبھائیں۔

قوم کے ساتھ میوزیکل چیئرگیم بہت ہوگیا، بار بار ایک ہی کہانی کی چربے سے بوریت ہوچکی ہے، جب ہال میں تماشائی نہ ہوں گے تو ایسی کہانی کو اسٹیج کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

’’نیا سورج سکھ و چین کا پیام لے کر طلوع ہوگا، وہ وقت قریب ہے جب ہر سو خوشحالی وشادمانی کے ترانے بجیں گے، نہ کوئی امیر ہوگا اور نہ کوئی غریب ہوگا، مساوات پر مبنی معاشرے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے، سب برابر ہوں گے، یہ مشکلات و مصائب ورثے میں ملے ہیں جنھیں عوام کی طاقت اور قوم کی قربانیوں سے کنٹرول کیا جائے گا، یہ آخری موقع ہے قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے، قربانی دیے بغیر راحت مل نہیں سکتی، وغیرہ وغیرہ۔

گھسے پٹّے یہ خوش کن قومی مکالمے سننے والوں کے کانوں میں رس تو گھولتے رہے لیکن انھیں اجتماعی قومی خودکشی سے بچایا نہیں جاسکا۔ یہی ناکام حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے اور یہی قومی المیہ ہے کہ قوم نے ہر بار انھی کو اپنا مسیحا جانا جنہوں نے انھیں بے یارومددگار اجتماعی قومی خودکشی کرنے پر اکسایا اور ان کی سوالیہ میت پر مگرمچھ کے آنسو بہاکر ہمدردیاں حاصل کیں، لیکن وقت کی صدا ہے ان خودساختہ بتوں کو ریزہ ریزہ کرنا ہوگا جن کی خواہش رہی ہے کہ ان کی پرستش کی جائے، ان ہاتھوں کو قلم کرنا ہوگا جو گلشن کو آگ لگادینے کے لیے اٹھا کرتے ہیں، ان آنکھوں کو پھوڑنا ہوگا جو گلشن کو میلی آنکھ سے دیکھتی ہیں، ان قدموں کو بھی کاٹنا ہوگا جو ہمقدم بن کر دشمنوں کے ہم قدم منزل ہوتے ہیں، ان زبانوں کو گونگا کرنا ہوگا جو ترجمان بن کر دشمنوں کی زبان بولتی ہیں، ان سروں کو قلم کرنا ہوگا جو گلشن کی بہار کو خزاں میں تبدیل کرنے کے لیے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ الغرض کہ ہر اس وجود کو مٹانا ہوگا جو گلشن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں۔

اگر ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے، اس کی آزادی سے، خودمختاری، سلامتی، بقا واستحکام عزیز ہیں تو ہمیں ہر سطح پر، ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا اپنا قومی فرض تمام ترتعصبات وعناد سے پاک ہوکر نبھانا ہوگا، ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا پاس کرنا ہوگا، جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانی ہوگی، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، وسائل و اختیارات کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں پاکستانیت پر فخر کرنا ہوگا۔

سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو، اردو، سرائیکی اوردیگر زبانیں بولنے والے ایک ہی چمن (پاکستان) کے مختلف رنگ برنگے پھول ہیں ان کی جداگانہ خوشبوئیں جب باہم مل کر ایک گلدان (مرکز) میں مہکتی ہیں تو فضا میں سحر انگیزی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس نایاب مہک سے مست ہوکر جیوے جیوے پاکستان کہتے ہیں۔ ہمیں اس چمن کے گل کی حفاظت کرنا ہوگی اورسبزہلالی پرچم کے سائے تلے ایک ہوکر یہ عہد کرنا ہوگا کہ پاک دھرتی کواستحصالی نظام سے نجات دلائیں گے۔

ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، سقوط ڈھاکا ایک ایسا المیہ ہے جو بھلایا نہیں جاسکتا ہمیں اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں پر نہ صرف ندامت و شرمندگی محسوس کرنی چاہیے بلکہ آیندہ کے لیے عہد کرنا ہوگا کہ ہم قومی یکجہتی کو کسی صورت پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے ۔ خدانخواستہ اگر وہی غلطی دہرائی گئی تو پھر پاکستان کا وجودکرہ ارض کے نقشے پر موجود نہیں ہوگا۔ آئیے مل کر عہد کریں کہ ہم ایک ایسا نظام رائج کریں گے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے حقیقی وسیع تر مفاد میں ہو، اس کے لیے ہمیں نام نہاد فرضی کرداروں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا اور ہر محب وطن پاکستانی شہری کو اپنا کردار ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ادا کرنا ہوگا۔عوام اگر سیاسی شعور وذہنی بالیدگی کا مظاہرہ کر کے درست نمایندوں کا چنائو کریں تو ملک ترقی وخوشحالی کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے ۔

بقول اقبال:
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔