لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے

مقتدا منصور  بدھ 16 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عجب دلخراش منظرتھا۔جب کوئٹہ کی نقطہ انجماد سے کئی درجہ نیچے ٹھٹھرتی سردی میں کھلے آسمان تلے ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ 70 گھنٹے تک بھوکے پیاسے انصاف کے حصول کے لیے پرامن احتجاج کرتے رہے۔ان کے دکھ اوردرد کو محسوس کرتے ہوئے کراچی سے خیبر تک اور چمن سے گلگت تک عوام کا جم غفیربھی موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پہ موجود رہا۔ مگر صبرو استقامت کا یہ عالم کہ خود اپنی ذات کو تو موسم کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا، مگر نہ کوئی گولی چلی نہ کوئی عمارت جلی۔بہ تنگ آمد بجنگ آمد کا ایک ایسا اظہار تھا جس نے پوری دنیا کے اہل دل کو لرزا کے رکھ دیا۔

پاکستان میں متشدد فرقہ واریت اور ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے کبھی خود کش حملوں،کبھی بم دھماکوں،کبھی بسوں سے اتارکر اورکبھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایاجا رہاہے۔مگر حکومت بے بسی کے عالم میں یہ سب ہوتا دیکھ رہی ہے۔وہ موبائل فون بندکرنے اور موٹرسائیکلوں پر ڈبل سواری بند کرنے سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے پر آمادہ نظرنہیں آتی ۔حکومت کے اس عفریت کے خاتمے میں ناکامی میں اس کی اپنی نااہلی کے علاوہ دیگر کئی اسباب بھی ہیں۔جن میں سب سے اہم سبب سیاسی جماعتوںمیں پایاجانے والا کنفیوژن اوردہرا معیار ہے۔جس کے نتیجے میں رائے عامہ منقسم ہوچکی ہے۔پھربااختیار حلقے بھی شدت پسندوں کے خلاف کھل کر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلندہوگئے ہیں اوروہ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جسے چاہیں آسانی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔

ملک میںآج جو کچھ ہو رہاہے وہ نیا نہیں ہے۔اس کی جڑیں ماضی کے غلط فیصلوں میں پیوست ہیں۔قرارداد مقاصد جناح کے تصور پاکستان پر پہلاباضابطہ حملہ تھا،جس نے ریاست میں شدت پسندی کی بنیاد رکھی۔اس کاپہلا مظاہرہ1953 میں لاہور سمیت پنجاب کے چند شہروں میںپرتشددمظاہروں کی شکل میں سامنے آیا۔ پھر1974 میں پارلیمنٹ سے وہ کام لیاگیا،جو اس کامینڈیٹ نہیں تھا۔1980ء میں امریکا اور سوویت یونین کی افغانستان میں باہمی کشمکش میں ٹانگ اڑانے کے نتیجے میں تہذیبی نرگسیت کا شکار ایسے جنگجو جتھے پیدا ہوئے،جوآج اپنے ہی محسنوں کو بھی زچ کرنے پر آمادہ ہیں۔اس وقت GHQسے فضائی مستقر اور فوجی تنصیبات سمیت اہم ریاستی اداروں پر حملے ہو چکے ہیں۔ اسی جنونیت کی کوکھ سے متشددفرقہ واریت اور لسانی عصبیت نے جنم لیاہے۔اگر حکمرانوں نے سنجیدگی کے ساتھ حالات پر قابو نہ پایاتووہ عناصرجو مخصوص کمیونٹی کی تکفیر کرکے ان کے درپئے آزار ہیں، کل یہی دوسرے فرقوں کو دست وگریباں کرنے کا سبب بنیں گے۔

لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وطن عزیز ایک ایسی گرداب میں پھنس چکا ہے،جس کی ان گنت پرتیں ہیں۔معاملہ صرف نظم حکمرانی کے بگاڑ تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا معاشرہ فکری ابہام کا شکار ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جمہوریت ہی وہ واحد نظم حکمرانی ہے،جو اس ملک کو قائم رکھ سکتا ہے۔ مگر جمہوریت فکری کثرتیت اور شہریوں کے مساوی حقوق سے عبارت ہے،جسے ہم سب نے مل کر روند ڈالاہے۔جمہوریت اچھی حکمرانی کی وکالت کرتی ہے، جس میں شفافیت، احتساب و جوابدہی اورشراکتی فیصلہ سازی جزو لاینفک ہوتے ہیں۔مگر ہم نے انھیں نظر انداز کردیا ہے۔جمہوریت میں مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کا مخصوص دائرہ کار ہوتا ہے،مگر ہم نے اس توازن کو ملیامیٹ کردیا ہے۔جمہوریت اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی داعی ہوتی ہے۔مگر ہم نے اختیارات کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو جمہوریت سمجھ لیا ہے۔یہی سبب ہے کہ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری اقدامات ہو رہے ہیں،جو عوام کو جمہوریت سے بدظن کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

یہی وہ رویے ہیں، جن کی وجہ سے ملک انتہائی گمبھیر اور بھیانک بحرانوں کی زد میں آچکا ہے۔ایک طرف عوامی مسائل کا ناختم ہونے والا انبار ہے، جس میں حکمرانوں کی نا اہلی کے سبب مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔دوسری طرف بعض عناصر جمہوری حکمرانی کا بستر لپیٹنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔اس صورتحال نے پاکستانی عوام کو عجیب مخمصے میں مبتلاکردیا ہے۔اگر ریاست بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو جمہوریت کی بساط لپٹتی ہے۔اگر جمہوریت کو بچاتے ہیں،تو ریاست ہاتھ سے نکلتی ہے۔وہ پریشان ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ منطق واستدلال پیٹ بھروں کا معاملہ ہے۔جویخ بستہ کمروں میں نرم وگدازصوفوں میں دھنسے،قیمتی قالینوں پر پائوں پسارے کینیڈین اسکاچ وہسکی کی چسکیوں کے ساتھ علم وفضل کے موتی روندتے اور نظم حکمرانی کی خوبیوں اور خامیوںپردلائل وبراہین کے انبارلگاتے ہیں۔جب کہ فاقہ زدہ اور مفلوک الحال انسانوں کا پیٹ منطق واستدلال سے نہیں بھرتا۔ان کی زندگی کے صبح وشام تودو وقت کی روٹی اور ستر پوشی کے حصول کی جستجومیں صرف ہوتے ہیں۔ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ افکار ونظریات پرغورکرسکیں۔اس لیے ان کی اپنی اجتماعی دانش اورسوچ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کے منھ کا نوالہ اور تن کا کپڑا چھن جاتا ہے اور ان کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے، تو وہ ہر نظرئیے،ہرنظم حکمرانی کو روندنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔سوشلزم کے فکروفلسفے کوہی لیجیے، آج بھی اس سے بہتراور منصفانہ معاشی اور سماجی نظام کوئی اور نظر نہیں آئے گا۔ مگر جب سوویت یونین میں پولٹ بیورو اور نوکر شاہی نے اس نظام کی چھتری تلے اپنی جبری حاکمیت قائم کرلی اور ان مسائل پر توجہ دیناچھوڑ دیا جن سے عام آدمی کا سابقہ پڑتا ہے،توپھراس نظام کی بساط لپٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اب کوئی لاکھ تاویلیں پیش کرے کہ امریکی سامراج نے سازش کی یا سرمایہ داری کے پھیلائو نے تباہی مچائی،مگرتبدیلی ہمیشہ سماج کے اندرسے اٹھنے والی بے چینی ہی کے کوکھ سے جنم لیتی ہے۔اس لیے جمہوریت کے حق میں دلائل اپنی جگہ درست، مگر روزمرہ کے مسائل سے پریشان حال لوگوں کا ردعمل بھی لائق توجہ ہے۔

اس بات پر بھی غور کرناچاہیے کہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان تجربات کو دہرانانھیں چاہے گا، جس سے چار مرتبہ مجموعی طورپر32برس یہ ملک گزرا ہے۔مگر ایک ایسے نظام پر بھی تکیہ نہیں کیا جا سکتا، جس میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔معاف کیجیے، ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کی میوزیکل چیئر کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں طاقتور لوگوں کا ایک بدمست گروہ اپنی برادری، جاگیر اور قبیلہ کے زعم میں لوگوں کے حق رائے دہی پر جبراًقابض ہو۔جہاں پولیس اور پٹواری کو جعلی ووٹ بھگتانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔جہاںغربت وافلاس کے مارے ناخواندہ لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہو۔وہاں لوگ بقول جوش ملیح آبادی ’’لوکی دعاء مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔‘‘اس لیے اس جانب بھی توجہ دی جائے کہ جو حکومت عوام کو سستی اشیائے خورونوش فراہم نہیں کرسکتی،انھیں بجلی اورگیس مہیا نہیں کرسکتی۔روزگار کے نئے ذرایع دریافت نہیں کرسکتی۔پرامن زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ترقیاتی کاموںمیںعوام کی براہ راست شرکت کے لیے مقامی حکومتی نظام وضع نہیں کرسکتی،اسے کس بنیاد پر نمایندہ حکومت کہا جائے۔اس سے کس بنیادپر تو قع کی جائے کہ وہ عوامی فلاح کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرسکے گی۔

دنیا بھر میں تعلیم اور صحت فلاحی شعبے تصور کیے جاتے ہیں،جن کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے،جب کہ سیاست ایک سماجی فریضہ ہے۔مگر پاکستان میں یہ تینوں انتہائی منفعت بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، کس جمہوری ملک میں منتخب اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ترقیاتی فنڈ مختص ہوتے ہیں۔کس جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں موروثیت کوفروغ دیتی ہیں۔کہاںبیٹے، بیٹیوں،بھانجے بھتیجوں کے علاوہ دامادوں اور بہنوئیوں کوجبراً مسلط کیا جاتاہے۔کیا ایسی جماعتوں کے ذریعے جمہوریت کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے،جوکاروباری لمیٹیڈ کمپنیاں بن گئی ہوں۔یہ سوال تمام اہل دل کے سوچنے کا ہے۔لیکن قصور ہمارا ہے، ہم عوام کا ہے۔جنہوں نے ہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے الٹی سمت میں چلنے کو ترجیح دی۔ افلاطون نے ڈھائی ہزار برس قبل تنبیہ کی تھی کہ دیکھو:کبھی اپنا حکمران کسی فوجی یا کسی تاجر کو مت بنانا۔ مگر ہم نے ہمیشہ اہل دانش کو نظر انداز کرتے ہوئے کبھی فوجیوں کا سواگت کیا، کبھی اپنے ووٹوں سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو تخت نشیں کیا۔ کہیں ہم برادری کے نام پر لٹے، کہیں جاگیر دار کے جبر کے آگے سرنگوں ہوئے۔ کہیں قبائلیت نے دامن پکڑا،تو کہیں شہری رہزنوں نے لوٹا۔

اس لیے اب وقت آگیاہے کہ موجودہ ابتلا سے نکلنے کے لیے وہ راہ اختیار کی جائے،جو ہمیں ہزارہ کمیونٹی کے پر امن احتجاج نے سجائی ہے۔ انھوں نے موسموں کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر جس پرامن انداز میں بے حس حکمرانوں کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا۔یہی راستہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور اشرافیہ کلچر کے ستائے اور بنیادی سہولتوں سے محروم رکھے گئے عوام اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ چند گھرانوںکی اجارہ داری کے اس تعفن زدہ نظام کو تبدیل کرنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔یاد رکھیے جب گھی سیدھی انگلیوں نہیں نکلتا،تو انھیں ٹیڑھاکرنا پڑتا ہے۔ اپنے حقوق کے لیے اپنے نمایندوں کا گھیراؤ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو،قطعی غیر قانونی نہیں ہے، بشرطیکہ اس کی پشت پر کوئی نادیدہ قوت نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔