پاک بھارت کشیدگی اور سول سوسائٹی
دونوں ممالک مسلسل آمادۂ جنگ ہی رہے۔ ایک واقعہ ہوتا ہے اور پور ے کا پورا جمع شدہ تعصب باہر آ جاتا ہے
ISLAMABAD:
یہ ایک منحوس اتفاق ہے کہ سرحدی جھڑپوں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے تاشقند معاہدے پر 37 سال پہلے دستخط کیے تھے تا کہ دونوں ملکوں کو امن کا پابند بنایا جا سکے۔ شاستری نے اس معاہدے پر اپنی موت کی مہر ثبت کی تھی۔ لیکن یہ امن معاہدہ نہ تو 1971ء کی جنگ روک سکا، اور نہ ہی بعد میں ہونے والی جھڑپوں کو ۔
عجیب بات ہے کہ اس امن معاہدے کا ذرایع ابلاغ کی طرف سے کبھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی سیاسی قیادت نے کبھی اس کا نام لیا۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک مسلسل آمادۂ جنگ ہی رہے۔ ایک واقعہ ہوتا ہے اور پور ے کا پورا جمع شدہ تعصب باہر آ جاتا ہے۔
فوجیوں کے سر قلم کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔الزامات دونوں اطراف میں لگائے جاتے ہیں لیکن کوفت پیدا کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان نے سرے سے ہی ایسے کسی واقعے کا انکار کر دیا۔ بریگیڈیئر صاحب فلیگ مارچ کے اجلاس میں ایک تیار شدہ متن لے کر آئے اور مختصر بیان پڑھنے کے بعد پاکستان واپس چلے گئے۔ نہ کوئی پچھتاوا نہ کوئی اظہارِ غم۔
اقوام متحدہ کی طرف سے حقائق کی تصدیق کے لیے تحقیقات کا امکان ہو سکتا تھا۔ لیکن چونکہ نئی دہلی نے دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کو بھارت کے خلاف شکایت پر ایکشن لینے سے اس بنیاد پر روک دیا کہ دونوں ممالک کو اپنے تنازعات دوطرفہ بنیادوں پر حل کرنے ہیں جس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی گنجائش نہیں۔
بہرحال یہ واقعہ اس قدر تشویشناک ہے کہ اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو چاہیے تمام ثبوت پبلک کے سامنے پیش کرے، بالخصوص اس صورت میں جب یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید، جھڑپوں سے پہلے اس سرحد پر آئے تھے۔ پاکستان کو اپنی طرف سے اس الزام کی تحقیقات کرانی چاہیے۔ ہو سکتا ہے، یہ کارروائی باقاعدہ فوجیوں کی نہ ہو۔ ملک پہلے ہی اندرونی تشدد کا شکار ہے۔ طالبان روزانہ 20 سے 25 پاکستانیوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور کوئی ایسی جگہ نہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان وفاقی انتظام کے علاقے میں طالبان کے خلاف لڑائی بھی جاری رکھے ہوئے ہے لہذا اس صورت حال میں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آخر پاکستان کیوں بھارت کے خلاف کوئی محاذ کھولے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام آباد بھارتی سرحد سے کچھ فورسز کو واپس لے کر مغربی سرحد پر رکھنا چاہتا ہے۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے واشگاف اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کے بجائے اندرونی خطرے پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ لہذا اس سوال پر غیر ضروری واویلے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
نئی دہلی کو احساس ہے کہ پاکستان اس کے سامنے ہے اور اگر اس کو کچھ ہوتا ہے تو پھر بھارت براہ راست طالبان کی زد میں آ جائے گا۔ پاکستان کا غیر مستحکم ہونا بھارت کے مفاد میں نہیں۔ ایک کمزور پاکستان بھارت کے لیے زیادہ خطرہ ہے۔ بھارت ایک مضبوط پاکستان کے حق میں ہے۔ اگر کشیدگی میں اضافہ ہوا یا اگر بھارت نے کوئی وقت مناسب سمجھ کر کوئی رد عمل ظاہر کیا تو اس سے صورتحال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ بات چیت اور مذاکرات ہی معاملات کو سلجھانے کا واحد راستہ ہے۔ مذاکرات کسی صورت بھی معطل نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ہی انھیں بے سود خیال کرنا چاہیے۔ مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے، جو بالعموم اپنے بیانات میں زیادہ محتاط رویہ اختیار نہیں کرتیں، بڑی شد و مد سے کہا ہے کہ سرحد پر جھڑپوں کی وجہ سے مذاکرات کو ہر گز متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے جواباً تحمل اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن حکومت نے نئی اور مثبت ویزا پالیسی پر عمل درآمد روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے حالانکہ اس سے عوام سے عوام کا رابطہ اور زیادہ کم ہو جائے گا جو آپس میں بہتر افہام و تفہیم کے لیے ناگزیر ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کا یہ بیان، پاکستان کے ساتھ کاروبار حسب معمول نہیں ہو سکتا، بھی قابلِ فہم ہے کیونکہ بی جے پی تو سخت جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن میرا تجربہ بتاتا ہے کہ جب نئی دہلی اپنا رویہ درست کرتا ہے تو پاکستان اپنے سخت موقف میں نرمی پیدا کر لیتا ہے۔ ہمیں اسی سخت موقف والے پاکستان کے ساتھ رہنا سیکھنا ہو گا۔ ڈائریکٹر جنرل تجارت اسماعیل خان نے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں کہا ہے کہ جھڑپوں کے بند ہونے تک جنگ بندی لائن کے پار تجارت اور سفر معطل رہیں گے۔ یہ ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے جس کا پاکستان کو بھی اتنا ہی نقصان ہو گا جتنا کہ بھارت کو۔
کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر دونوں اطراف کے سابق فوجی افسران اپنے تبصروں میں زیادہ عقابی نقطۂ نظر کے حامل نکلے۔ مجھے یہ سن کر دھچکا لگا پاک بحریہ کے ایڈمرل اقبال نے بھارت کو مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت کی یاد دہانی کرائی۔ اتنی ہی غیر ذمے دارانہ بات اس ریٹائرڈ میجر جنرل کی تھی جو بھارت کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا مشورہ دے رہے تھے۔ دونوں ملکوں کو احساس ہونا چاہیے کہ اب دونوں ملکوں کی جھڑپ سڑکوں پر ہونے والے کسی جھگڑے کی مانند نہیں ہو گی۔ دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جن سے بدترین تباہی پھیل سکتی ہے۔
دونوں ممالک میں سول سوسائٹی مایوس کن ثابت ہوئی ہے۔ صورتحال کا غیر جذباتی تجزیہ کرنے کے بجائے، انھوں نے بس اپنے اپنے ملک کے موقف کی ہی حمایت کی۔ افسوس کی بات ہے کہ جب بھی سرحد پر کوئی جھڑپ ہوتی ہے یا کوئی تنازعہ ابھرتا ہے تو سول سوسائٹی ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔ دونوں طرف سول سوسائٹی کی اگر اپنا بوجھ امن کے پلڑے میں ڈالے اور حق سچ کی بات کرے تو اس کا یقیناً اثر ہو گا۔
نئی دہلی کا اندازہ ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی دراندازوں کو کشمیر میں خاموشی سے داخل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور ممکن ہے یہ سچ ہو لیکن وادی میں سیکیورٹی فورسز اتنی مضبوط ضرور ہیں کہ وہ حالات سنبھال سکیں۔ لیکن اس کشیدگی کا سارا ملبہ کشمیری عوام پر گرتا ہے اور وہ خود کو اور زیادہ غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ منتخب پنچایت کے ارکان کے قتل کے بعد 30 دوسرے ارکان نے استعفے د ے دیے ہیں۔
دوسری طرف، حریت رہنماؤں کی ساکھ اور زیادہ مجروح ہوتی ہے۔ بھارت والوں کا خیال ہے کہ سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کشمیری رہنماؤں کے پاکستان کے دورے کے بعد ہوئی۔ انھوں نے ہی پاکستان سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے پر اکسایا ہو گا۔ ان وجوہات کی بنا پر حریت کانفرنس بھارت میں مزید تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔ بھارت کو بھی کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کا احترام کرنا چاہیے جو اس ریاست کو آئین میں دی گئی ہے۔
جنگ بندی کی خلاف ورزی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو ایک دھچکا پہنچایا ہے۔ انھوں نے گزشتہ چند سال میں تعلقات کو بہتر بنانے کی کافی کوشش کی ہے لہذا تجارت اور نئی ویزا پالیسی جاری رہنی چاہیے۔ کاش کہ دونوں طرف سے سیز فائر لائن کا احترام کیا جائے۔ اسے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے امن کی لائن کہا تھا۔ ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کے کھیلنے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
(ترجمہ :مظہر منہاس)