اوبر اور کریم یا ٹیکنالوجی بردار ٹرانسپورٹ مافیا؟

علیم احمد  ہفتہ 1 جولائی 2017
مجھے ڈر ہے کہ آنے والے برسوں میں ایک ارتقاء یافتہ ٹرانسپورٹ مافیا وجود میں آچکی ہوگی۔ فوٹو: فائل

مجھے ڈر ہے کہ آنے والے برسوں میں ایک ارتقاء یافتہ ٹرانسپورٹ مافیا وجود میں آچکی ہوگی۔ فوٹو: فائل

عید کا دن تھا لیکن ’’نوکری کی تے نخرا کی‘‘ والے پنجابی محاورے کے مصداق، ناچیز کو دوپہر تک دفتر پہنچنا تھا۔ گھر والوں پر رعب جمانے کے لیے ہم نے جیب سے اسمارٹ فون نکالا اور ’’ایپ‘‘ کے ذریعے ’’اُوبر‘‘ کی ’’رائیڈ‘‘ بُک کروالی… اور پھر پچھتائے کہ کاش کوئی رکشہ کرلیا ہوتا!

اِس حقیر فقیر بندہ ناچیز المعروف علیم احمد کی داستانِ الم کا خلاصہ یہ ہے کہ جس فاصلے کا کرایہ عام طور پر 300 روپے بنتا ہے، عید والے روز اُوبر نے پِیک فیکٹر/ سرج کے نام پر ہم سے 925 روپے اینٹھ لیے۔ ڈرائیور سے شریفانہ انداز میں ڈسکاؤنٹ لینا چاہا تو اُس نے کمال معصومیت سے کہا، ’’سر! یہ رقم میں نے اپنی مرضی سے تھوڑا ہی چارج کی ہے، میں تو وہی رقم لے رہا ہوں جو ایپ میں لکھی آرہی ہے۔‘‘

ڈرائیور کی بات بھی درست تھی اور ہم اپنے نادیدہ زخموں پر بے آواز بلبلاتے ہوئے دفتر میں داخل ہوگئے۔ البتہ زندگی میں پہلی بار اسمارٹ یعنی ذہین فون کے ہاتھوں بے وقوف بننے کا ایسا تجربہ ہوا کہ ساری عمر بھلایا نہ جاسکے گا… ظالم نے ایسا مارا کہ رونے بھی نہ دیا۔

ایک غیر سماجی مخلوق ہونے کے باوصف مابدولت نے سوشل میڈیا پر اپنی یہ رام کہانی لکھنا بالکل بھی مناسب نہ سمجھا لیکن جب فیس بُک پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ صرف اُوبر ہی نہیں بلکہ ’’کریم‘‘ نے بھی عید کے تینوں دنوں میں اپنی کرامت دکھائی اور سواریوں سے پِیک فیکٹر کے نام پر 3 سے 4 گنا تک کرایہ وصول کیا… یہ دیکھا تو بس پھر ہمیں کچھ کچھ صبر آگیا۔

لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے سے اوبر اور کریم، دونوں سروسز پر دن کے بیشتر اوقات میں ’’پِیک فیکٹر/ سرج‘‘ کی عبارت جگمگاتی رہی اور سفر کرنے والوں سے دگنے تگنے کرائے وصول کیے جاتے رہے۔ اور تو اور، اِس عشرے میں خریداری کے لیے راتوں کو مارکیٹوں میں دھکے کھانے والوں سے بھی ڈھائی گنا اور تین گنا کرایہ وصول کیا گیا۔

اُمید تھی کہ عید کے بعد یہ کرائے معمول پر واپس آجائیں گے لیکن عید کے ختم ہوتے ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اُوبر/ کریم کے اضافی کرائے شیطان کی آنت اور ظالم کی رسّی کی طرح دراز ہوتے چلے گئے (آج صبح تک یہی کیفیت تھی)۔

اِس کُھلی ناانصافی پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ دونوں ہی ’’ٹیکنالوجی کمپنیز‘‘ ہیں جو اپنی خصوصی ایپس کے ذریعے عام لوگوں کو سفر کی سہولت حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہی ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا اِس طرح اِن کمپنیوں کو من پسند کرایہ وصول کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے؟ کیا پاکستان کے سائبر قوانین میں کوئی ایسی ترمیم، کوئی ایسا اضافہ ممکن ہی نہیں کہ جس کے ذریعے اِن کمپنیوں کی ناجائز منافع خوری کو لگام دی جاسکے؟

جب سوشل میڈیا پر مہنگے پھل فروخت کرنے والوں کے خلاف مہم چلائی جاسکتی ہے تو کیا اتنے مہنگے کرایوں پر اُوبر اور کریم کا بائیکاٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر کوئی مہم نہیں چل سکتی؟

اپنے اشتہارات میں یہ کمپنیاں کم خرچ اور باکفایت سفر کی دھڑلّے سے تشہیر کرتی ہیں لیکن حقائق کی زبانی سامنے آنے والی داستان اِس کے بالکل برعکس ہے۔ عید کے روز اُوبر سے پڑنے والی چپت کے بعد جب سر سہلایا تو خیال آیا کہ منافع خوری میں اِن ’’ٹیکنالوجی کمپنیز‘‘ نے ٹرانسپورٹ مافیا کو بھی کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ٹیکنالوجی کتنی ہی جدید کیوں نہ ہوجائے، کیسی ہی دیدہ زیب ایپ کیوں نہ بنا لی جائے، گوگل میپ اور اِس جیسی لوکیشن سروسز سے خودکار استفادہ ہی کیوں نہ کرلیا جائے لیکن جب تک ایک عام صارف کو اِن سروسز سے عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تب تک اِن نئی کمپنیوں کو روایتی ٹرانسپورٹ مافیا سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہی رہے گا۔

اگر اتنے مہنگے اضافی کرایوں کا جواز یہ پیش کیا جائے کہ مانگ زیادہ ہے اور گاڑیاں کم پڑگئی ہیں تو بصد معذرت، یہ عذرِ لنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسپتال کے باہر کھڑے ہوئے لالچی ٹیکسی ڈرائیوروں کے پاس بھی یہی جواز ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی بدولت حاصل ہونے والی سہولت اپنی جگہ لیکن صاحبو! اسمارٹ فون کی اسکرین پر ایپ کے توسط سے ظاہر ہونے والا اِس قدر اضافی کرایہ بھی اتنا ہی ناجائز اور غیرقانونی ہے جتنا ٹیکسی ڈرائیوروں کی جانب سے منہ پھاڑ کر مانگا گیا کرایہ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور سے بھاؤ تاؤ کرکے کرائے میں کمی کروائی جاسکتی ہے لیکن اوبر اور کریم میں یہ سہولت سرے سے موجود ہی نہیں۔ ایپ نے جتنا کرایہ ظاہر کردیا، وہ تو ادا کرنا ہی کرنا ہے۔

یہ تمام باتیں لکھ دینے کے بعد حکومت اور متعلقہ اداروں سے میری گزارش ہے کہ ٹیکنالوجی کے نام پر کاروبار کرنے والی ان کمپنیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی من مانیوں کو قابو میں کرنے کے لیے جلد از جلد کوئی مؤثر قانون سازی کی جائے ورنہ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے برسوں میں ایک ارتقاء یافتہ ٹرانسپورٹ مافیا وجود میں آچکی ہوگی اور، خاکم بدہن، شاید تب ہم اِس مافیا کے سامنے بھی بالکل بے بس ہوں گے۔

مناسب یہی ہوگا کہ ٹرانسپورٹ کے بارے میں موجودہ قوانین پر نظرِ ثانی کی جائے اور اِن میں جدید دور کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس انداز سے وسعت پیدا کی جائے کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سفر کی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی اِن کے دائرے میں آجائیں۔

البتہ ایسی کسی بھی قانون سازی کے لیے حکومت کی جانب سے مفادِ عامّہ کی خاطر مکمل خلوص درکار ہوگا ورنہ نئے قوانین سے عوام کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، البتہ سرکاری اہلکاروں اور افسران کو رشوت خوری کا ایک نیا راستہ ضرور مل جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس بھی۔
علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔