سانحہ جلیانوالہ باغ

محمد زبیر نیازی  اتوار 10 مارچ 2013
معافی نہ مانگنے پر ڈیوڈ کیمرون کو بھارت میں تنقید کا سامنا، شرمندگی کا اظہار کس لیے، معذرت سے گریز کیوں؟ ۔ فوٹو : فائل

معافی نہ مانگنے پر ڈیوڈ کیمرون کو بھارت میں تنقید کا سامنا، شرمندگی کا اظہار کس لیے، معذرت سے گریز کیوں؟ ۔ فوٹو : فائل

نوم چومسکی نے کہا تھا کہ طاقت ور کے نزدیک ’’جرم‘‘ وہی ہے جو کسی اور شخص سے سرزد ہوا ہو ۔

وہ خود چاہے لاشوں کے ڈھیر لگا دے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دے، اپنے ظلم سے دریائے دجلہ کا پانی خون آلود کردے، وہ جرم نہیں بلکہ اُس کا حق کہلاتا ہے۔ لیکن تاریخ نے ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ ظالم اور قاتل وقتی طور پر بھلے ہی انسانیت کا لبادہ اوڑھ لیں، درباری اُن کی شان میں قصیدے گاتے پھریں، ہر طرف اُن کی واہ واہ ہوتی رہے، لیکن تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ وہ ظالم اور وحشی کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں۔ پھر اُن کا یہ ظلم نہ صرف اُن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہوتا ہے بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کے پاس بھی ان مظالم پر سوائے شرمندگی، ندامت اور افسوس کے اور کچھ نہیں رہتا۔

ظلم، جبر، وحشت اور بربریت پر مبنی ایک ایسا ہی الم ناک سانحہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل متحدہ ہندوستان میں بھی پیش آیا، جو آج بھی کسی درد دل رکھنے والے شخص کے رونگھٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور ایک فوجی جرنیل نے ظلم کی وہ داستان رقم کی جس پر انسانیت آج بھی شرمندہ ہے۔

13اپریل 1919ء کو اتوار کا دن تھا۔ ہندوستان بھر میں جہاں ایک طرف ’’بے ساکھی‘‘ کا تہوار منایا جارہا تھا۔ وہیں پورا ملک رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ، مجریہ 21مارچ، 1919ء کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا تھا، جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ امرتسر میں اُس وقت بغاوت کی سی کیفیت تھی۔ امرتسر کے ہزاروں شہری اپنے راہ نماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ میں جمع تھے۔

یہ سِکھوں کے دورِحکومت میں لگایا جانے والا قدیم باغ ہے، جو دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا ہے۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ مکانات بھی تھے۔ باہر نکلنے کے لیے ایک چھوٹا سا تنگ راستہ تھا۔ حکومت نے جلسے جلوسوں پر تین روز قبل پابندی لگا دی تھی، لیکن اس کے باوجود پورا باغ لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ امرتسر اور گرد و نواح سے ہزاروں لوگ باغ میں جمع ہو چکے تھے، جن میں عورتیں اور بچے، بزرگ، جوان سبھی بھی شامل تھے۔ راہ نماؤں کی تقرریں جاری تھیں اور لوگ بڑے انہماک سے اُنہیں سُن رہے تھے۔

جوں ہی شام کے سائے ڈھلنے لگے، جنرل ڈائر نامی ایک فوجی جرنیل 50 فوجیوں اور بھاری اسلحے کے ساتھ وہاں پہنچا۔ وہ ہندوستانیوں کے احتجاج پر سیخ پا تھا۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بغیر کسی وارننگ کے پُرامن جلسے پر فائرنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں کے اندر سیکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاتعداد لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے، باغ کے کونے میں بنے ہوئے کنویں میں چھلانگ لگادی، لیکن ان پر بھی فائرنگ کر دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئیں اور باقی نہیں نکالی جا سکیں۔

فائرنگ20 منٹ جاری رہی جس کے بعد جنرل ڈائر اور اس کے ماتحت فوجی واپس روانہ ہو گئے۔ جنرل ڈایر کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تین سو ہے، جب کہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 379 اور زخمیوں کی تعداد 1200تھی۔ تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی۔

بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے اُس وقت بڑے گھمنڈ کے ساتھ اپنے غلیظ عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’پنجاب کو اخلاقی سبق سکھانے کے لیے یہ ضروری تھا۔‘‘ لیکن اُسے کیا خبر تھی کہ اُس کا یہ ظلم ہندوستانی عوام کے اندر برطانوی راج کے خلاف ایک ایسی بغاوت کو جنم دے گا جس کی منزل صرف اور صرف آزادی ہوگی۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے برطانوی سام راج سے جان چھڑانے اور آزادی حاصل کرنے کی تحریک پیدا کی۔ جنرل ڈائر کو بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا اور تقریباً21سال بعد لندن میں وہ ایک ہندوستانی نوجوان اُدھم سنگھ کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس نوجوان کو بعد ازاں پھانسی دے دی گئی۔

گذشتہ دونوں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون تین روزہ دورے پر بھارت پہنچے۔ اس موقع پر انہوں نے امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے تاریخی مقام کا دورہ بھی کیا اور اپنے تاثرات میں اس واقعے کو برطانوی تاریخ کا انتہائی ’’شرم ناک‘‘ واقعہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کو برطانوی تاریخ کا ایک دھبا سمجھتے ہیں اور اس پر برطانیہ میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کو افسوس کا اظہار کر نے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے تاثرات میں لکھا،’’ہمیں یہ ہرگز ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں پر کیا ہوا تھا۔ اس واقعے کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ برطانیہ دنیا بھر میں پُرامن احتجاج کے حق کی حمایت کرتا رہے۔‘‘

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون وہ پہلے شخص نہیں جنہوں نے اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی برطانوی راہ نما و سیاست داں اس تاریخی مقام پر آکر سانحے کی مذمت کر چکے ہیں، لیکن اُن میں کوئی وزیراعظم کے عہدے پر فائز نہیں تھا۔ اس طرح ڈیوڈ کیمرون، برطانیہ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اس سانحے پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا، بلکہ اسے برطانوی راج کے دوران ایک انتہائی شرم ناک واقعہ بھی قرار دیا۔

اس سے قبل 1920ء میں اُس وقت کے وزیر خارجہ ونسٹن چرچل نے اس سانحے کو ’’ہیبت ناک ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے برطانوی عوام کی سوچ کے خلاف قرار دیا تھا۔ 1997ء میں ملکہ الزبتھ نے بھی اپنے دورۂ امرتسر کے موقع پر اس سانحے کو ’’افسوس ناک باب‘‘ قرار دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ’’تاریخ کے اوراق کو پلٹا نہیں جاسکتا۔‘‘ تاہم ان کے شوہر پرنس فلپ کی جانب سے مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے اُٹھائے گئے سوال نے متنازعہ شکل اختیار کر لی تھی۔ ان تمام شخصیات کے علاوہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی وزیر اعظم بننے سے قبل جب اس مقام کا دورہ کیا، تو انہوں نے بھی اس یادگار کو ’’نوآبادیاتی دور کی ایک تلخ تصویر‘‘ قرار دیا تھا۔

سانحۂ جلیانوالہ باغ، برطانوی راج کی زیادتیوں کا کوئی پہلا واقعہ نہیں جس پر برطانوی حکم رانوں نے افسوس کا اظہار کیا ہو، بلکہ گذشتہ چند برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایسے کئی واقعات ہیں جن پر افسوس کرنے اور معافی مانگنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون 2011ء میں جب پاکستان آئے، تو انہوں نے برملا طور پر یہ کہا تھا،’’برطانیہ دنیا کے بڑے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنا ہے، جن میں پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعۂ کشمیر بھی شامل ہے۔‘‘ لیکن یہ مسئلہ حل کس طرح ہوگا، اور اس کے حل کے لیے برطانیہ کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے، جو نہ صرف دونوں ممالک کے مابین کئی جنگوں کا سبب بنا ہے بلکہ ہزاروں جانیں بھی لے چکا ہے، اس حوالے سے انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اﷲ نہ کرے اگر دونوں ممالک کے مابین آئندہ اس طرح کی کوئی صورت حال پیدا ہو تی ہے تو اس کے بڑے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں، کیوں کہ اب دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، لہٰذا نہ صرف برطانیہ کو اپنے پیدا کردہ اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے بلکہ عالمی برادری کو بھی، مسئلے کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

اس سے قبل سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر، اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران، انیسویں صدی میں آئرلینڈ میں آلو کے قحط، جس میں دس لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اور غلاموں کی تجارت میں برطانیہ کے ملوث ہونے پر معافی مانگ چکے ہیں۔ اسی طرح ان کے بعد آنے والے وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اس بات پر معافی مانگی تھی کہ برطانوی بچوں کی 1920ء سے 1960تک آسٹریلیا اور دولت مشترکہ کے مختلف ممالک میں اسمگلنگ ہو تی رہی ہے۔

اگرچہ بھارتی عوام کی جانب سے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس سانحے پر اظہار افسوس کا خیر مقدم کیا جارہا ہے، لیکن پھر بھی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ اگر وزیر اعظم کیمرون اس سانحے پر سرکاری طور پر معافی مانگتے تو یہ اُن کے لیے اور بھی زیادہ خوشی کی بات ہو تی۔ 36سالہ سنیل کپور، جن کے پردادا اس سانحے میں ہلاک ہو گئے تھے، کا کہنا ہے،’’ہم 94 برسوں سے برطانوی اور بھارتی حکومت کی طرف سے انصاف کے منتظر ہیں۔ سنیل نے مزید کہا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم کی یہاں آمد پر ان کے شکرگزار ہیں، لیکن اُسے اور بھی زیادہ خوشی ہوگی اگر وہ سرکاری طور پر معافی مانگیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اہم راہ نماؤں کی جانب سے سانحۂ جلیانوالہ باغ پر اظہار افسوس کے باوجود سرکاری سطح پر معافی مانگنے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر برطانیہ سانحۂ جلیانوالہ باغ کو اُس وقت کی حکومت کا ظلم قرار دیتے ہوئے سرکاری طور پر معافی مانگتا ہے تو پھر بات یہیں نہیں رکے گی، بلکہ اس طرح کے او ر بھی کئی مطالبات سامنے آئیں گے۔ مثلاً، پھر ہندوستان پر حکم رانی کے دوران لوٹے گئے تمام نوادرات کی واپسی کی بھی بات ہو گی۔ ملکہ برطانیہ کے تاج میں آویزاں کوہِ نور ہیرے کی واپسی کا بھی مطالبہ ہوگا، اور یہ معاملہ فقط ہندوستان تک نہیں رکے گا، بلکہ برطانیہ کی افغانستان میں جنگوں کے دوران جو لوگ ہلاک ہوئے اُن پر بھی معافی کا مطالبہ آئے گا۔ پھر برطانیہ کو 1943ء میں قحطِ بنگال پر بھی معافی مانگنا ہو گی، جس میں 30 لاکھ سے زاید افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس سانحے کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی دینی چاہیے تھے۔ اگرچہ ونسٹن چرچل نے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کو ’خوف ناک‘ کہا تھا، لیکن قحطِ بنگال کے بارے میں ان کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ قحطِ بنگال کے مستند مورخ مادھوشری مکھرجی کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم کیمرون کو اس قحط پر بھی معافی مانگنی چاہیے تھی۔

دوسری جانب وزیرِاعظم کیمرون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کیمرون کا جلیانوالہ باغ میں جانے کا مقصد برطانوی راج کی زیادتی پر معافی مانگنا نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چوں کہ وہ امرتسر کے دورے پر گئے تھے، اس لیے وہ اس واقعے پر معذرت کر رہے تھے۔ مادھوشری مکھرجی کے مطابق ممکن ہے برطانوی وزیرِاعظم اس لیے بھی زیادہ کُھل کر بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے کہ اس طرح قانونی ازالے کی راہ ہم وار ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم کیمرون کے امرتسر جانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ میں پنجاب سے آئے ہوئے بے شمار ووٹرز موجود ہیں اور وزیر اعظم کو جلیانوالہ باغ کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا ہی تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی کے واقعات کے لیے سیاسی معذرتیں بے معنی ہوتی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر ٹونی بلیئر آئرلینڈ کے قحط کے لیے معذرت کر سکتے تھے تو پھر عراق کی جنگ پر کیوں معافی نہیں مانگتے؟

جہاں تک ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے سانحے کو افسوس قرار دینے کی بات ہے، یقیناً یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور بھارت کے مختلف حلقوں کی جانب سے اس اقدام کو سراہا جارہا ہے۔ سانحۂ جلیانوالہ باغ جدید انسانی تاریخ اور آزادی کی تحریکوں کا ایسا الم ناک واقعہ ہے، جو حکم رانوں کی سنگ دلی اور تنگ نظری کا مظہر بھی ہے۔ جلیانوالہ باغ کا پورا ماحول اب بھی بنا پوچھے، خاموشی سے تمام داستان بیان کر دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔