تیسرا ستون اور ملکی حالات و حقائق

مبین مرزا  اتوار 11 مارچ 2018
ہمارے ملک میں بیوروکریسی اور عدلیہ نے بھی موقع پرستوں، طالع آزماؤں اور غاصبوں سے گٹھ جوڑ کیا۔ فوٹو : فائل

ہمارے ملک میں بیوروکریسی اور عدلیہ نے بھی موقع پرستوں، طالع آزماؤں اور غاصبوں سے گٹھ جوڑ کیا۔ فوٹو : فائل

اس وقت ہمارے یہاں جو ادارہ پورے ملک میں، بلکہ ملک سے باہر بھی موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے، وہ ہے عدل و انصاف کا ادارہ۔ ہم سب جانتے ہیں، کسی بھی ملک و قوم کی عمارت جن تین بنیادی ستونوں پر قائم ہوتی ہے، وہ ہیں، مقننہ (پارلیمنٹ)، انتظامی اشرافیہ (بیورو کریسی) اور عدلیہ (جوڈیشری)۔

ان میں سے ایک ستون بھی کم زور، غیرمتوازن یا عدم تناسب کا شکار ہو تو ملک کی ترقی اور استحکام کا عمل متأثر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اپنی خرابی کے باعث وہ ملکی ترقی کی راہ میں مزاحم ہوجاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آزادی حاصل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اہلِ نظر محسوس کرنے لگے کہ ہمارے یہاں ان تینوں قومی ستونوں میں باہمی توازن یا ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بعد ازاں اس اندیشے کی تصدیق بار بار ہوئی اور اب تو ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ ہماری قومی زندگی کا شاید ہی کوئی دور ایسا گزرا ہو جب یہ تینوں ادارے باہمی توازن کے حامل رہے ہوں۔

سیاست دانوں اور اُن کی کارستانیوں سے کون نہیں واقف؟ سب کے سامنے ہے کہ جو ملک آزادی کے بعد جنوبی ایشیا کا سب سے اہم ملک سمجھا گیا، جس کے بارے میں اپنے پرائے سب کی یہ رائے تھی کہ اس ملک کا پوٹینشل ہی اور ہے اور نہایت طاقت ور پڑوسی بھی جس سے اچھے تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور دنیا کے نقشے پر جس ملک کی اسٹریٹجک پوزیشن نے عالمی طاقتوں کو اس کی طرف مائل کیا تھا— جی ہاں، ایسی خوبی اور اہمیت رکھنے والے ملک کی آگے چل کر کیا درگت بنی۔ بلاشبہ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار تو اہلِ سیاست کا ہے۔ اقتدار کی خواہش اور ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے کی تمنا رکھنے والے سیاست دانوں نے اس ملک کے اداروں، ملکی پوزیشن، صنعت، معیشت اور نئی نسلوں کا مستقبل، سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

اس سچائی سے بھی، لیکن انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے حالات اور عوام کی تقدیر کے بگاڑ کا یہ صرف ایک رُخ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ قومی زوال کے عمل میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی اور عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر صرف سیاست داں ہی ہمارے یہاں کرپٹ ہوتے تو وہ سارا زور لگا کر بھی ملک کو تباہی کے اس دہانے تک پہنچانے میں کام یاب نہیں ہوسکتے تھے۔

اس کے برعکس بیوروکریسی اور عدلیہ اپنی ایمان داری اور ملک سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل کر انھیں اس طرح لگام دے سکتے تھے کہ پھر خود سیاست داں بھی آدمی کی جون میں رہنے پر مجبور ہوجاتے۔ یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں ہے۔ جن ممالک میں آپ کو انصاف اور قانون کی عمل داری نظر آتی ہے، وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صرف سیاست دانوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ کسی بھی طبقے کے بدعنوان لوگوں کے لیے نظامِ مملکت نے ایسے ایسے شکنجے بنا رکھے ہیں کہ ان سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کوئی نہ تو ملک اور اس کے اداروں کا استحصال کرسکتا ہے اور نہ اس کے عوام کو بیوقوف بنا سکتا ہے۔

ہمارے ملک میں بیوروکریسی اور عدلیہ نے بھی موقع پرستوں، طالع آزماؤں اور غاصبوں سے گٹھ جوڑ کیا، ان کا ساتھ دیا، انھیں فائدہ پہنچایا اور اُن سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست دانوں میں کرپٹ لوگوں کا تناسب زیادہ ہوگا، لیکن اشرافیہ اور عدلیہ میں بھی کالی بھیڑیں موجود رہی ہیں۔ آج آپ چھوٹی عدالتوں میں جاکر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں عام آدمی کو انصاف کے حصول کے لیے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نظام ایک سچے اور اچھے آدمی کو اگر وہ طاقت و اختیار نہ رکھتا ہو، اس درجہ خواری اور ذلت سے دوچار کرتا ہے کہ وہ انصاف کے لیے تگ و دو کرنے کے بجائے اوپر والے کی عدالت میں اپنا مقدمہ بھیج کر صبر سے خاموش بیٹھنے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہے۔

انگریزی کے اس محاورے Justice delayed justice denied کی عملی صورت آئے دن ہمارے سامنے آتی ہے۔ جن مقدمات کا آغاز دادا کی زندگی میں ہوا، اُن میں کتنے ہی پوتے کی زندگی تک چلے آتے ہیں۔ ہم اس کے لیے ججوں کی کمی کا عذر پیش کریں یا مقدمات کی بھرمار یا پھر نظام کی خرابی کا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدل و انصاف کی صورتِ حال کا نقشہ بھی کوئی بہت اطمینان بخش بہرحال نہیں ہے۔

اس کے باوجود اس سچائی سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ جسٹس چودھری افتخار اور جسٹس ثاقب نثار جیسی شخصیات بھی اسی معاشرے اور اسی نظام میں ابھر کر سامنے آئی ہیں اور انھوں نے ملک کے مایوس عوام کے دلوں میں اُمید کی لہر جگا دی۔ اگر آج اس خیال کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دونوں چیف جسٹس صاحبان اپنے سوموٹو اقدامات کی وجہ سے عوام کو یہ حوصلہ دینے میں کام یاب رہے ہیں کہ وطنِ عزیز میں انصاف ختم نہیں ہوا، تو یہ بات ہرگز غلط نہیں ہے۔ جسٹس چودھری افتخار نے جس طرح اپنے ازخود اقدامات سے ان مسائل پر توجہ دی جو ملک اور عوام دونوں کے لیے اذیت اور رسوائی کا سامان بن رہے تھے۔

اور اُن کے بارے میں آزادانہ فیصلے ملک و قوم کے مفاد میں کیے، اس عمل نے انھیں عوام میں وہ پذیرائی اور مقبولیت دلائی جو سیاست دانوں کو بڑی بڑی تقریروں اور لمبے چوڑے جلسے جلوسوں سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اب اسی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی از خود اقدامات کے ذریعے براہِ راست اُن مسائل کو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں جو عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پانی کا مسئلہ، دودھ کا مسئلہ، غذاؤں کا مسئلہ، دواؤں کا مسئلہ— ایک ایک کرکے انھوں نے ان مسائل کو عدالتوں میں دیکھنا شروع کیا۔ ویسے تو امیروں کے لیے بھی یہ مسائل تکلیف دہ، بلکہ اندوہ ناک نتائج کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن ملک کی غریب اکثریت ان مسائل کا شکار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کے ان سوموٹو اقدامات نے عوام کی سائیکی پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ لوگوں نے ایک بار پھر امید اور حوصلے کے ساتھ اپنی نگاہیں ملک کی عدلیہ پر مرکوز کرلیں۔ خصوصاً اعلیٰ عدالت تو اب عوامی امنگوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یقیناً یہ خوشی کی بات ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ عوام کی اکثریت ایک بار پھر یہ محسوس کررہی ہے کہ وہ بے یار و مددگار نہیں ہے، بلکہ اعلیٰ اختیار کی سطح تک ایسے لوگ اب بھی اس ملک میں ہیں جنھیں عوام سے محبت ہے، اور یہ محبت سچی ہے اور یقیناً نتیجہ خیز بھی ہوگی۔ ملک گیر سطح پر اثباتی رویوں کے فروغ میں یہ احساس بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس کے اقدامات اس لیے بھی خوش آئند اور امید افزا ہیں کہ وہ ذاتی اور منصبی دائرے میں رہ کر خاموشی اور عافیت کی زندگی گزارنے کے قائل نظر نہیں آتے، بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا منصب اور اختیار عوامی، یعنی اجتماعی تقاضا بھی رکھتا ہے اور انھیں منافقانہ خاموشی اور عافیت کی ضمانت دینے والی مصلحت ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں عوام کے حقوق کے لیے قدم اٹھانا ہے اور ملک میں نظام کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا ہے، اس لیے کہ اسی میں ملک کی بقا اور استحکام ممکن ہے۔ چناںچہ کارِ منصبی کے بے پناہ دباؤ کے باوجود ہر طرح کی احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، وہ سب کچھ کر گزرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں جو اُن سے ممکن ہے اور جس میں قومی فلاح کا امکان ہے۔

ظاہر ہے، یہ سب باتیں بہت خوش کن اور امید افزا ہیں۔ خوشی اور امید کا یہ پہلو صرف عوام کے لیے نہیں ہے، بلکہ ان سب لوگوں کے لیے جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی ترقی، کامیابی، استحکام اور خوش حالی کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے حتی المقدور کوششیں کرتے ہیں اور مسلسل دعا گو بھی رہتے ہیں۔ عدلیہ اِس وقت جس مضبوط کردار کے ساتھ ابھری ہے، وہ ایک طرف ملک کے ایک اہم ملکی ستون کی طاقت کا مظہر ہے۔ دوسری طرف یہ ان سب لوگوں کے لیے ایک للکار بھی ہے جو اکیس ویں صدی کی اس دوسری دہائی میں بھی زمانۂ ماضی کے اندھے اختیار و اقتدار کی تمنا رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اُن سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ عدلیہ کے اقدامات ایسے سب لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں جن کی آنکھوں پر ہوسِ اقتدار نے پٹی باندھی ہوئی تھی۔

یہاں تک حالات و واقعات کا روشن رُخ ہمارے سامنے آتا ہے۔ تاہم جیسا کہ ہر تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہوتا ہے، اس سارے منظرنامے کا بھی دوسرا رخ ہے۔ اہلِ نظر، اس رُخ کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ تصویر اُس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں یہی دوسرا رُخ کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور وہ اس کی بابت سوچ رہے ہیں اور کچھ سوالات بھی سامنے لارہے ہیں۔ یہ سوالات غیر اہم نہیں ہیں، اس لیے انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اب مثلاً سوچنے والے ذہنوں میں یہ سوال بہرحال کلبلاتا ہے کہ جب ایس ایم ظفر اور علی احمد کرد جیسے سنیئر وکلا اس فیصلے کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں یا یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کم زور بنیاد پر فیصلہ دیا گیا ہے، تو آخر اس فیصلے کی حیثیت کیا ہے؟ کیا آگے چل کر ہماری تاریخ کے اوراق میں یہ بھی جسٹس مولوی مشتاق احمد جیسے اس فیصلے کی مثال سمجھا جائے گا، جس میں انھوں نے کم زور بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنائی تھی یا پھر جیسے ایک معاملے میں عدلیہ نے بے بنیاد نظریۂ ضرورت تشکیل دیا تھا؟

اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ عدلیہ از خود نوٹس لے کر نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کے الزام میں بلاتی ہے اور فی الفور مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ آجاتا ہے اور انھیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کے بارے میں بھی فیصلے تاخیر کا شکار نہیں ہوتے۔ نوازشریف کے خلاف کرپشن تو ثابت نہیں ہوتی، لیکن غلط بیانی پر انھیں صادق و امین نہ رہنے کی وجہ سے پہلے ملک کی وزارتِ عظمیٰ اور بعد ازاں اپنی سیاسی جماعت کی صدارت سے بھی الگ ہونا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت کے خلاف اوپر تلے مقدمات نیب اور اعلیٰ عدالتوں میں پہنچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ پر صوبائی اور وفاقی سطح پر گھیرا تنگ ہونے کی صورتِ حال کو ایک عام آدمی بھی محسوس کررہا ہے۔

ایک طرف تو یہ صورتِ حال ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری اور ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف مقدمات ختم ہورہے ہیں۔ فریال تالپور کی ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے، وہ ایک الیکشن مہم میں علاقے کے لوگوں سے صاف دھونس اور دھمکی کا لہجہ اختیار کیے ہوئے نظر آتی ہیں، لیکن نیب، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کہیں بھی اسے غور طلب نہیں سمجھا جاتا۔

سندھ حکومت کے بارے میں بار بار آوازیں اٹھتی ہیں، تعلیم کے شعبے کی صورتِ حال اور حقائق منظرِعام پر آتے ہیں، اس کے پراجیکٹس کی تاخیر، عوام کے مسائل اور حکومتی طرزِعمل پر سوالات سامنے آتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی چیز کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ نقیب اللہ محسود کا مقدمہ دائر ہونے کے بعد ایس پی راؤ انوار روپوش ہوجاتا ہے، عدالتی احکامات کے باوجود، عدالت میں پیشی ممکن نہیں ہوپاتی، عدلیہ چپ ہوجاتی ہے۔

خیبر پختونخواہ حکومت کے سیاسی کردار، نظامِ حکومت، بلین ٹری جیسے مسائل کو سامنے لایا جاتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی چیز عدلیہ کی توجہ حاصل نہیں کرپاتی۔ حسین حقانی کے خلاف مقدمات اور امریکا میں بیٹھ کر ملک و قوم کے خلاف بیانات کے باوجود واپسی کا یقینی انتظام نہیں ہوتا، لیکن کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا۔ زینب کا کیس ضرور عدالت میں آتا اور فیصلے کے مرحلے تک پہنچتا ہے، لیکن اس کے بعد بھی جو متعدد واقعات ہوتے ہیں، جن میں بچوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے، اُن میں سے کوئی اور واقعہ فوکس نہیں ہوپاتا۔

پانی، دودھ، غذا اور دوا کے حوالے سے اعلیٰ عدالت میں مقدمات تو قائم ہوتے ہیں، لیکن التوا کا شکار ہوتے رہتے ہیں، حالاںکہ یہ تو فوری فیصلے کے متقاضی معاملات ہیں، اس لیے کہ ان سے براہِ راست عوام متأثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے خلاف مقدمات پر تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے، فیصلے کا موقع نہیں آتا۔ غرضے کہ یہ اور ایسی ہی کچھ اور باتیں ہیں جو عام آدمی کے ذہن میں سوال پیدا کرتی ہیں، آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا اس وقت نوازشریف، اُن کے اہلِ خانہ اور مسلم لیگ نون کا احتساب مقصود اور مقدم ہے، باقی سب جماعتوں کا حساب ثانوی یا ضمنی ہوگیا ہے؟

کیا خود عدلیہ اس وقت حکومتی جماعت کے خلاف ہے یا پھر کچھ قوتیں مل کر اُسے اس سمت لے جارہی ہیں، جہاں2018کے انتخابات کی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے عدلیہ کی قوت اور کردار کو استعمال کیا جائے؟ کیا باقی سارے سیاسی لوگ اور جماعتیں عدالتِ عالیہ کی نظر میں معصوم ہیں یا پھر اتنے غیر اہم کہ اُن پر پوری اور فوری توجہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی؟ یا پھر واقعی اصل مقصود کچھ اور ہے؟

سطورِ بالا میں چند باتیں یا چند سوالات کسی تکلف، احتیاط، اہتمام اور مصلحت کے بغیر صرف اس خیال سے بیان کیے گئے ہیں کہ ان کا براہِ راست تعلق عدلیہ سے بنتا ہے۔ وہی عدلیہ جس کی طرف آج عوام کی ایک بڑی اکثریت امید باندھے دیکھ رہی ہے۔ یہ سوالات جن ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عدالتِ عالیہ ان میں سے کسی کا جواب دینے کی مکلف نہیں ہے۔

اس کے باوجود تصویر کا یہ رخ یہاں دکھایا گیا تو اس کا مقصد اصل میں یہ ہے کہ ایک ادارہ جب اپنے کردار اور منصب کی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے فعال اور مؤثر ہونا چاہتا ہے اور ہو بھی گیا ہے تو عوامی ذہن کی ان الجھنوں کو بھی اُس تک پہنچنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے عمل اور اقدام کو واضح کرکے عوام کے یقین کو اور پختہ کرسکے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی گئی کہ اعلیٰ عدالت نے گزشتہ دنوں اس امر کا بطورِ خاص نوٹس لیا کہ خبروں میں اُس کی درست ترجمانی کے بجائے اپنے اپنے تأثرات پیش کیے جارہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے۔ بعض حلقے یہ تأثر دے رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے اراکین عوامی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ذرا پریشان کن بات ہے۔ اس لیے کہ عدلیہ کا کام عوامی فلاح تو بے شک ہے، لیکن یہ کام انصاف کی فراہمی کے ذریعے اور قانون کی بالادستی کے تحت ہونا چاہیے۔ عوامی توقعات کو پورا کرنا بہ صورتِ دیگر عدلیہ کے حوالے سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

عوام کی توقعات اور خوشی کے لیے ٹی وی اور فلم کے اداکار، سیاسی پروگرامز کے بہت سے اینکرز اور غیرسنجیدہ سیاست داں پہلے ہی یہ کام بہت کررہے ہیں۔ عدلیہ کا کام تو یہ ہے کہ وہ ملکی بقا، قومی استحکام اور سب کو یکساں انصاف کی فراہمی اور کسی بھی قیمت پر قانون کی مکمل عمل داری کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔