دنیا میں موجود عجیب وغریب مقامات کا احوال

ذیشان محمد بیگ  اتوار 18 مارچ 2018
زمین پر صرف برمودا ٹرائی اینگل ہی واحد پراسرار جگہ نہیں کرۂ ارض کے بھیدوں کی دلچسپ معلومات۔ فوٹو: سوشل میڈیا

زمین پر صرف برمودا ٹرائی اینگل ہی واحد پراسرار جگہ نہیں کرۂ ارض کے بھیدوں کی دلچسپ معلومات۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کہا جاتا ہے کہ انسان اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی کے حساب سے جس اوج کمال پر پہنچ چکا ہے وہ حیران کن ہے۔

جن باتوں اور سائنسی ایجادات کا تصور بھی سو سال پہلے تک محال تھا، آج وہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں اور ایسی اشیاء ہماری عام ضروریات میں شامل اور ہمارے استعمال میں ہیں کہ جن کو ہم ’عجائبات‘ میں شمار نہیں کرتے، مگر اب سے سو سال پہلے تک یہ چیزیں ہماری زندگی میں موجود ہونا تو درکنار ان کے بارے میں سوچنا بھی محیر العقول سمجھا جاتا تھا۔ انٹرنیٹ، موبائل فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ سے آگے بڑھ کر آئی فون اور ٹیبلٹ پی سی جیسی ایجادات آج ہماری نوجوان نسل یہاں تک کہ بچوں کے لیے بھی استعمال کی عام سی اشیاء کی حیثیت رکھتی ہیں۔

دوسری جانب صحت کے معاملات میں نت نئی مشینیں جیسے الٹرا ساؤنڈ اور ایم آر آئی کے ذریعے امراض کی جدید ترین تشخیص کا نظام میڈیکل سائنس کی ترقی کا مظہر ہے۔ روبوٹس اب صنعتوں کے بعد ہوٹلوں میں گاہکوں کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بات اب مصنوعی ذہانت تک جاپہنچی ہے۔

اس طرح انسان خلا کی وسعتوں کے بارے میں تحقیق کے میدان میں کائنات کے اسراروں کا کھوج لگاتے لگاتے، چاند کے بعد مریخ اور اس سے بھی آگے اپنے نظام شمسی کی حدود سے باہر بھی راکٹ اور خلائی گاڑیاں بھیجنے کے قابل ہوچکا ہے۔ غرض آسمان کی بلندیوں سے لے کر سمندر اور پاتال کی گہرائیاں تک انسان کی دسترس میں آچکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں اور جس پر ہم بستے ہیں، ابھی بھی بے شمار ایسی چیزیں اور جگہیں ہیں کہ جن کے بارے میں ہم بہت زیادہ نہیں جانتے۔ برمودا ٹرائی اینگل کا نام ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگوں نے سنا ہی ہوگا۔ آج بھی سائنس دان اس کے متعلق صحیح طور پر جاننے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح اہرام مصر کے بارے میں بھی مکمل معلومات ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکیں۔

برمودہ ٹرائی اینگل اور اہرام مصر کے علاوہ بھی ہماری اس زمین پر بہت سے ایسے مقامات ہیں کہ جن کی توجیہہ و تشریح کرنے سے سائنس عاجز ہے۔ ایسے ہی چند مقامات کا ذکر درج ذیل ہے۔

-1 برج واٹر ٹرائی اینگل
(Bridge Water Triangle)
برج واٹر ٹرائی اینگل دو سو سکوائر میل پر محیط ہے اور امریکی ریاست میسا چیوسیٹس کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ مافوق الفطرت مخلوقات، اڑن طشتریوں، جن بھوتوں، آتشی بگولوں، غیر سائنسی مظاہر (جن کی سائنس کوئی توجیہہ پیش نہ کرسکے)، برفانی انسانوں، بڑے بڑے اژدھوں اور دیوہیکل پرندوں کا مسکن ہے۔ اس جگہ کا ذکر سب سے پہلے 1970ء کے عشرے میں ’’لورین کول مین‘‘ نامی ایک ’’کریٹپوزولوجسٹ‘‘ (مافوق الفطرت مخلوقات کے بارے میں جاننے کا علم رکھنے کے ماہر) نے اپنی کتاب ’’میسٹیریس امریکہ‘‘ (Mysterious America) میں کیا۔

یہاں ایک حصہ ’سوامپ‘(Swamp) کہلاتا ہے، روایات کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں روحیں رہتی ہیں۔ برج واٹر ٹرائی اینگل میں مختلف چٹانیں اور جنگل بھی واقع ہیں۔ ان چٹانوں کے نام ’’ڈگھٹن راک‘‘ (Dighton Rock) اور ’’پروفائل راک (Profile Rock) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا کے قدیم مقامی قبائل کے تاریخی کردار ’’آناوان‘‘ (Anawan) نے اپنے بادشاہ فلپ سے ’کوڑیوں کی لڑیوں سے بنی ہوئی روایتی تلوار‘ اعزاز کے طور پر پائی تھی۔ مشہور ہے کہ آج بھی رات کو بازو پھیلائے ہوئے ایک شخص کی شبیہہ ان میں سے ایک چٹان کے اوپر نظر آتی ہے۔

برج واٹر ٹرائی اینگل میں واقع ’’فری ٹاؤن فال ریوراسٹیٹ فاریسٹ‘‘ (Free Town Fall River State Forest) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں قدیم امریکی مقامی قبائل جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ نیز یہاں ناصرف لوگ خودکشیاں کرتے تھے بلکہ جرائم پیشہ عناصر اور شیطان کے پیروکار بھی یہاں انسانوں کو قتل کر کے ان کی قربانی کیا کرتے تھے۔

برج واٹر ٹرائی اینگل کی حدود کے اس پاس رہنے والے اکثر لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے یہاں اڑن طشتریاں، پراسرار جانور اور انسان اور ان کے علاوہ بھوت اور بدروحیں اور جانوروں کی مسخ شدہ لاشیں بھی دیکھی ہیں۔ ’’ہوکو موک سوامپ‘‘ کے علاقے میں برفانی انسانوں کا مسکن اور دیوہیکل پرندوں کو بھی اڑتے ہوئے دیکھے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ان پرندوںکے پر آٹھ سے بارہ فٹ چوڑے بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک دعویٰ نارٹنی کے ایک پولیس سارجنٹ ’’تھامس ڈراؤنی‘‘ نے بھی کیا۔ اس دعویٰ کی اہمیت یہ ہے کہ سارجنٹ تھامس نے اس دعویٰ کو باقاعدہ اپنی سرکاری رپورٹ میں درج کیا۔ 1998ء میں مقامی پولیس کو دو واقعات کی چھان بین کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جن میں ایک گائے اور کچھ بچھڑوں کے پاؤں کٹے مسخ شدہ لاشے جنگل میں مختلف جگہوں پر پائے گئے تھے۔

روایت مشہور ہے کہ جب مقامی قدیم قبائل، یورپ سے آنے والوں کے آگے مغلوب ہوگئے تو انہوں نے صدیوں پہلے اس علاقے کو بددعا دی تھی۔ اس وقت سے یہ جگہ آسیب زدہ ہوگئی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جنگ کے دوران ان قبائل سے اپنے بادشاہ کی مقدس ’کوڑیوں کی لڑیوں سے بنی ہوئی تلوار‘ گم ہوگئی تھی، جس کی پاداش میں وہ مغلوب کر دیے گئے۔

-2 بیننگٹن ٹرائی اینگل
 (Benning ton Triangle)

اس جگہ کو یہ نام ’’نیو انگلینڈ‘‘ نامی کتاب کے مصنف ’’جوزف اے سیٹرو‘‘ (Joseph A. Citro) نے 1992ء میں ایک ریڈیو نشریات کے دوران دیا تھا۔ اس کا مقصد یونان کی ایک پہاڑی ریاست ’’ورمونٹ‘‘ (Vermont) کے جنوب مغربی علاقے میں 1920ء سے 1950 ء کے دوران لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کے نام سے ایک علاقہ منسوب کرنا تھا۔ یہ نام پھر مزید دو کتب کے ذریعے زبان زد عام ہوا، جن میں سے ایک کتاب ’’شیڈو چائلڈ‘‘ (Shadow Child) ہے، جن میں اس نے کئی ابواب ان لاپتہ لوگوں کے تذکرے کے لیے مختص کیے۔ ’’جوزف‘‘ اس علاقے کو بھی ’’برج واٹر ٹرائی اینگل‘‘ کے مماثل قرار دیتا ہے۔

جوزف کی کتب کے مطابق مقامی لوگ اس علاقے میں پراسرار طور پر لاپتہ ہوجانے والوں کے متعلق عجیب و غریب کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ پراسرار گم شدگیاں 1940ء کے عشرے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک مشہور کہانی ایک امریکی طالبہ ’’پاؤلہ جین ویلڈن‘‘ کی ہے جو اس جگہ کی سیر کے لیے آئی تھی اور 1946ء میں یہاں ہائکنگ کرتے ہوئے لاپتہ ہوگئی۔

اس طرح 1945ء میں چوہتر سالہ ’’مڈی ریورز‘‘ چار شکاریوں کے گروپ گائیڈ کے طور پر ان کے ساتھ یہاں آیا اور یہاں سے غائب ہوگیا۔ 1949ء میں ’’جمیز ٹیڈ فورڈ‘‘ نامی ایک تجربہ کار ہائکر یہاں سے لاپتہ ہوگیا اور پھر اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق ’’جمیز‘‘ یہاں آنے کے لیے بس میں سوار ہوا مگر آخری سٹاپ کے آنے سے پہلے ہی اسے زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا، کچھ پتہ نہ چل سکا۔ چوتھا گم شدہ فرد ایک آٹھ سالہ بچہ ’’پاؤل جیفسن‘‘ تھا۔ یہ بچہ بھی 1950ء میں لاپتہ ہوا۔ پاؤل اپنی ماں کے ساتھ ٹرک میں سوار تھا۔ ایک جگہ اس کی ماں ٹرک روک کر کسی کام سے نزدیکی باڑے میں گئی اور جب وہ تقریباً ایک گھنٹے بعد واپس آئی تو ’’پاؤل‘‘ غائب تھا۔ اس کا سراخ بھی پھر کبھی نہیں ملا۔

پاؤل کے لاپتہ ہونے کے محض سولہ دن بعد تریپن سالہ ’’فرائد الینگر‘‘ اپنے کزن ’’ہربرٹ ایلسز‘‘ کے ساتھ اس علاقے میں ہائکنگ کے لیے آئی۔ ہائکنگ کے دوران اس کا پیر پھسلا اور وہ ایک ندی میں جاگری۔ ندی سے باہر نکل کر اس نے اپنے کزن کو کہا کہ وہ وہیں اس کا انتظار کرے اور وہ کیمپ سائٹ جاکر کپڑے تبدیل کرکے آتی ہے۔ وہ پھر کبھی واپس نہیں آئی۔ سات ماہ بعد اس کی لاش تو اس علاقے سے مل گئی لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس علاقے سے اس کی لاش ملی اس جگہ کو ان سات ماہ کے دوران درجنوں رضا کاروں نے پیدل اور ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے بھی متعدد بار چھان مارا تھا۔

آس پاس کے لوگ ان گمشدگیوں کو غیر مرئی مخلوق اور برفانی انسانوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔

-3 سین لیوئس ویلی
 (San Luis Valley)

امریکی ریاست ’’کولوریڈو‘‘ (Colorado) میں واقع اس وادی کا کچھ حصہ نیو میکسیکو تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’دریائے ریو گرانڈے‘‘ (Rio Grande) کا منبع یہیں ہے۔ میکسیکو امریکی جنگ کے بعد یہ علاقہ امریکا کے قبضے میں آیا۔ 1868ء سے پہلے مقامی انڈین ’’یوٹے‘‘ (Ute) قبائل کی شاخ ’’کپوٹا‘‘ (Capote) یہاں آباد تھے۔

پوری دنیا میں اس وادی کی وجۂ شہرت یہ ہے کہ یہیں پر آج تک سب سے زیادہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔ مسخ شدہ مردہ پالتو جانوروں کے ملنے کے دعوے اس کے علاوہ ہیں۔ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے واقعات اس علاقے میں اتنے عام ہیں کہ ’’جوڈی میسولین‘‘ نامی ایک خاتون نے اپنے فارم ہاؤس میں باقاعدہ ایک واچ ٹاور محض اس لیے تعمیر کروایا تاکہ وہ ان اڑن طشتریوں کو واضح طور پر دیکھ سکے۔ اس خاتون نے 2000ء سے لے کر اب تک اکیلے ہی پچاس سے زائد بار اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کئی بار تو درجنوں افراد نے اکٹھے ایک ہی وقت میں ان کا نظارہ کیا۔

 

مگر اڑن طشتریوں سے بھی زیادہ مسخ شدہ مردہ جانوروں کے پائے جانے کی چٹ پٹی کہانیاں یہاں مشہور ہیں۔ یہ سلسلہ 1967ء میں شروع ہوا جب ’’سنیپی‘‘ (Snippy) نامی ایک گھوڑے کی لاش ملی، جس کا مغز غائب تھا اور گردن کی ہڈیاں نچی ہوئی تھیں۔ اس واقعہ کے بعد اس طرح کے سینکڑوں مزید واقعات پیش آئے۔ ان تمام واقعات میں کئی چیزیں مشترکہ ہیں۔ مثلاً جانوروں کے اردگرد خون کا کوئی قطرہ نہیں پایا گیا۔ دوسرے ان کے جسموں کو بہت صفائی سے کاٹا گیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شکاری درندوں کا کام نہیں اور تیسرے یہ کہ یہ تمام جانور ایک دن پہلے تک بالکل تندرست و توانا تھے۔ اس سلسلے میں آج تک تحقیقات کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں اور یہ واقعات اب بھی جاری ہیں۔

کچھ کسانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے پہلے کی رات انہیں آسمان پر کچھ پراسرار سی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ کام کسی خلائی مخلوق کا ہے۔

 

-4 مشی گن ٹرائی اینگل
 (Michigan Triangle)

جھیل مشی گن شمالی امریکا کی پانچ سب سے بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کی خصوصیت مگر یہ ہے کہ یہ جھیل ساری کی ساری امریکا ہی میں واقع ہے، ورنہ دیگر چار جھیلیں مشترکہ طور پر امریکااور کینیڈا میں ہیں۔

اس جھیل کے گرد آباد اولین لوگ ’’ہوپ ویل انڈینز (Hope Well Indians) کہلاتے تھے۔ 800ء کے بعد ان کا کلچر نابود ہوگیا اور اگلے چند سو سالوں تک یہ علاقہ ’’لیٹ وڈلینڈ انڈینز‘‘ (Late Wood Land Indians) کا گہوارہ بنا رہا اور بالآخر بعد میں یہاں یورپینز کا قبضہ ہوگیا۔

مشی گن ٹرائی اینگل اسی جھیل کے مرکزی حصہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ ٹرائی اینگل بھی طیاروں اور بحری جہازوں کے غیاب کے باعث شہرت رکھتا ہے۔

28 اپریل 1937ء کو کیپٹن جارج آر ڈونر اپنے بحری جہاز میں اس جھیل سے گزرے۔ کیپٹن ڈونر کچھ تھکاوٹ محسوس کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے ماتحت کو کہا کہ وہ اپنے کیبن میں آرام کرنا چاہتے ہیں، تاہم منزل پر پہنچنے سے پہلے انہیں جگا دیا جائے۔ کئی گھنٹوں بعد جب ان کا ماتحت انہیں اٹھانے کے لیے گیا تو کیپٹن اپنے کیبن میں موجود نہیں تھے۔ پورے جہاز کوچھان مارا گیا مگر کیپٹن ڈونر نہیں ملے۔

23 جون 1950ء کو نارتھ ویسٹ ایئرلائن کی فلائٹ نمبر 2501 اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ جہاز کے پائلٹ ’’رابرٹ سیلنڈ‘‘ بہت تجربے کار پائلٹ شمار ہوتے تھے۔ جہاز میں اس وقت اٹھاون مسافر بھی سوار تھے۔ درمیانی شب میں جب ان کی فلائٹ کو خراب موسم کی وجہ سے اپنا رخ تھوڑا تبدیل کرنا پڑا تو وہ مشی گن جھیل کے او پر سے گزرے۔ اسی دوران پائلٹ نے کنٹرول ٹاور سے اپنی بلندی 3500 فٹ سے کم کرکے 2500 فٹ پر آنے کی درخواست کی لیکن اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ اسی وجہ سے ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔ یہ آخری رابطہ تھا جو جہاز اور کنٹرول ٹاور کے درمیان ہوا اس کے بعد جہاز لاپتہ ہوگیا۔ یہ بات واضح رہے کہ جہاز جھیل میں گرگیا تھا کیونکہ بعد میں جھیل کی سطح پر اس کی نشستوں کے کور کے ٹکڑے تیرتے ہوئے پائے گئے مگر سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ بہت تلاش و بسیار کے باوجود نا تو جہاز اور نا ہی مسافروںکی کوئی باقیات مل سکیں۔

-5 پوائنٹ پلیزنٹ
 (Point Pleasant)

اس نام کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سب خوش رہتے ہوں گے اور وہاں جانے والے بھی اس جگہ پہنچ کر بہت خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

یہ شہر ریاست ویسٹ ورجینیا، امریکامیں واقع ہے۔ یہ قصبہ بھی اپنی پراسرار اور عجیب و غریب داستانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ان کہانیوں میں سب سے زیادہ شہرت ان کہانیوں کو ملی جن میں ’’موتھ مین‘‘ (Mothman) نامی ایک مخلوق کا ذکر آتا ہے۔ نومبر 1966ء سے دسمبر 1967ء تک اس مخلوق نے پورے علاقے میں دہشت پھیلائے رکھی۔ ’پوائنٹ پلیزنٹ‘ کے سو سے زائد افراد ’’موتھ مین‘‘ کو دیکھنے کے دعویدار ہیں۔ ان کے بقول ’’موتھ مین‘‘ کا قد سات فٹ لمبا تھا، اس کی چھاتی چوڑی اور لال سرخ آنکھیں مقناطیسی قوت رکھتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کے دس فٹ لمبے پر بھی تھے جو اس کے پیچھے پیچھے زمین پر گھسیٹتے رہتے تھے۔

’’موتھ مین‘‘ جو کتابوں اور فلموں کا موضوع بھی رہا ہے، کی کئی توجیہات ہوسکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ کوئی خلائی مخلوق تھی جبکہ کچھ کے خیال میں وہ ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی کوئی نوع تھی۔ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اصل میں کوئی الّو یا ساحلی بگلا نما پرندہ تھا جس سے پوائنٹ پلیزنٹ کے لوگ خوف کھاتے رہے۔

اس کے علاوہ پوائنٹ پلیزنٹ کے لوگ بھی اڑن طشتریاں دیکھے جانے اور ’’مین ان بلیک‘‘ (Men in Black) کے نام سے موسوم انسان نما ایسی مخلوق کے عینی شاہد ہونے کے دعویدار ہیں جو ظاہری وضع قطع اور آواز کے ذریعے لوگوں کے اوسان خطا کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مخلوق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صرف ایسے لوگوں کے ملاقات کرتے ہیں جو محیر العقول واقعات کے عینی شاہد ہونے کی شہرت رکھتے ہوں۔

-6 بگیلو رینچ (Bige Low Ranch)

480 ایکڑ پر محیط یہ ذاتی جائیداد، امریکی ریاست ’’اوٹاہ‘‘ (Utah) میں واقع ہے۔ یہ بھی ماورائے عقل واقعات اور اڑن طشتریوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ 1950ء کی دہائی سے یہاں حیرت انگیز واقعات تسلسل سے رونما ہوتے چلے آرہے ہیں، مگر زیادہ تر ایسے واقعات کا تذکرہ 1994ء میں ’’ٹیری‘‘ (Terry) اور ’’گون شرمین‘‘ (Gwen Sherman) نامی دو رینجرز کی یہاں تعیناتی کے بعد سے سننے کو ملے۔

پہلے دن جب یہ دونوں رینجرز یہاں آئے تو انہوں نے ایک قوی الجثہ بھیڑیے کو چراگاہ میں کھڑا دیکھا۔ وہ اس بھیڑیے کو پالتو سمجھ کر اس کے پاس چلے گئے۔ بھیڑیا سرجھکائے کھڑا رہا لیکن اچانک ہی اس نے قریبی واقع گائے بھینسوں کے باڑے کی باڑھ میں سے ایک بچھڑے کو تھوتھنی سے پکڑ کر باہر کھینچ لیا اور بھاگ نکلا۔ جب ایک رینجر ’’ٹیری‘‘ نے اپنے پستول سے اس پر فائر کیا تو بھیڑیے پر گولیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آخر کار ’’ٹیری‘‘ اپنی شاٹ گن نکال لایا اور اس سے بھیڑیے پر فائر کیے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور بھیڑیے کو کوئی گزند نہ پہنچی۔ جب اس بھیڑیے کا تعاقب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے پیروں کے نشان تک نہ ملے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ ہوا میں تحلیل ہوگیا ہو۔

ان واقعات کا یہاں اختتام نہیں ہوا بلکہ یکے بعد دیگرے اڑن طشتریوں کا نظر آنا، ہوا میں رقصاں بگولوں کا ظاہر ہونا، (جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی زد میں آکر تین کتے بھی غائب ہوگئے)، ماورائے عقل مخلوقات اور مسخ شدہ مردہ مویشی ملنے جیسے واقعات کا ایک تسلسل رواں رہا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ 1996ء میں مالکوں نے یہ جائیداد فروخت کردی۔ نیا مالک ’’نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈسکوری سائنس‘‘ نامی ادارے کا بانی تھا جو یہاں آکر ان پراسرار واقعات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا لیکن یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ اس نے یا اس کے ادارے نے اس بارے میں اپنی تحقیقات کے نتائج کو آج تک صیغہ راز میں رکھا ہوا ہے۔

-7 دی ڈیولز سی (The Devil’s Sea)

اس کو ’’دی ڈریگنز ٹرائی اینگل ’’یا‘‘ دی پیسفک برمودا ٹرائی اینگل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بحرالکاہل کے جزیرے ’’میاکے‘‘ (Miyake) کے اردگرد کا علاقہ ہے جو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے جنوب میں تقریباً سو کلو میٹرز کے فاصلے پر واقع ہے۔ برمودہ ٹرائی اینگل ہی کی طرح سمندر کا یہ حصہ بھی پراسرار واقعات، غیر معمولی مقناطیسی طاقت، ناقابل فہم اجسام اور روشنیوں کے ظہور اور غیر توضیحی گم شدگیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں تک کہ جاپانی محکمہ ماہی گیری نے بھی اس علاقے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے ماہی گیروں کو اس سے دور رہنے کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں۔

24 دسمبر 1952ء کو یہاں زیر سمندر پھٹ پڑنے والے ایک آتش فشاں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جاپان نے اپنا ایک تحقیقاتی بحری جہاز اس علاقے کی طرف روانہ کیا، جس کا نام ’’کائیو مارو۔5‘‘ (Kaiyo Maru-5) تھا۔ اس جہاز پر عملے کے اکتیس افراد سوار تھے۔ یہ جہاز نے اس علاقے میں پہنچنے کے بعد صرف ایک ’’SOS‘‘ (مدد کے لیے بھیجا جانے والا ریڈیائی پیغام) بھیجا اور پھر اس کا کچھ پتا نہ چل سکا، نہ ہی پھر کبھی اسے دوبارہ دیکھا گیا۔

اسی طرح اپریل 1949ء سے لے کر اکتوبر 1953ء تک کے درمیانی عرصے میں بارہ سو کلو میٹرز کے اس سمندری علاقے میں کوئی سات کے قریب چھوٹی ماہی گیر کشتیاں غائب ہوئیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ چین کے مشہور بادشاہ قبلائی خان نے جاپان کو فتح کرنے کے لیے متعدد بار بحری مہمات بھیجیں مگر وہ اس شیطانی سمندر کو عبور نہ کرسکیں اور تقریباً چالیس ہزار افراد اس مہم جوئی میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

اس ٹرائی اینگل کے بارے میں بہت سی کہانیاں روایت کی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ زمین پر آنے کے لیے یہ کسی خلائی مخلوق کا ’’گیٹ وے‘‘ ہے۔ اکثر ماہرین یہ سائنسی توجیح بھی پیش کرتے ہیں کہ یہاں زیر سمندر ’’میتھین ہائڈریٹس‘‘ (Methane Hydrates) کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ میتھین ہائڈریٹس گیسC ْ18 سے زائد درجہ حرارت پر دھماکے سے پھٹ جاتی ہے۔ یہ گیس برف کے ذخائر نما شکل کی ہوتی ہے اور اس کے تودے پیندے کی جانب سے ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں اور پھر اوپر تک ٹوٹتے چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سطح آب پر بلبلے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران یہ بلبلے کسی بھی بحری جہاز کو آسانی سے ڈبو سکتے ہیں اور اس کے ملبے تک کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ ایک اور نظریہ یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں واقع زیر سمندر آتش فشاں (جو یہاں بہت عام ہیں) ان تمام واقعات کے ذمہ دار ہیں۔

-8 لیک اینجیکیونی (Lake Anji Kuni)

دیگر پراسرار جگہوں کے برخلاف اس جھیل نے اکا دکا افراد یا جہازوں کی بجائے ایک پورے گاؤں کے باسیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اسراروں سے بھری اس دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔

یہ جھیل کینیڈا میں واقع ہے۔ اس جھیل کا ساحل چٹانوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے سے اکثر ان شکاریوں کا گزرنا ہوتا رہتا ہے جو کھالوں کے حصول کے لیے جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ نومبر 1930ء میں ایسے ہی ایک شکاری ’’جوئی لابلے‘‘ (Joe Labelle) ، جو اکثر یہاں آتا رہتا تھا، کا گزر جب اس جگہ سے ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گاؤں کے تمام باسی غائب تھے۔ اسے ان کے گھروں میں ان سلے کپڑے ملے جن میں سوئیاں تک پیوست تھیں، جیسے کوئی انہیں سیتے سیتے ابھی اٹھ کر گیا ہو۔ چولہوں پر کھانے کی دیگچیاں دھری تھیں اور ان میں گرم کھانا موجود تھا۔

یوں لگتا تھا کہ جیسے گاؤں والوں کو اچانک ہی کہیں جانا پڑگیا ہو اور جو جس حال میں بھی تھا، سب چھوڑ کر اٹھا اور چل دیا۔ پر، وہ سب کہاں اور کیوں گئے اور وہ بھی اتنے اچانک؟ یہ بات آج بھی ایک راز ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ وہاں ’’جوئی‘‘ کو برف گاڑی کھینچنے والے سات کتے بھوک کی وجہ سے مرے ہوئے ملے، جبکہ کھلی ہوئی دکانوں میں کھانے پینے کی اشیا بھی موجود تھیں۔ نیز گاؤں کے قبرستان کی ایک قبر بھی کھدی ہوئی تھی اور مردہ اندر موجود نہیں تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرائن سے یہ بات صاف معلوم ہورہی تھی کہ یہ کام کسی جنگلی جانور کا نہیں کیونکہ کھدی ہوئی قبر کے چاروں طرف موجود پتھروں کی حد بندی اپنی جگہ اسی طرح صحیح سالم موجود تھی۔ لوگ کہتے ہیںکہ اس واقعہ سے پیشتر بھی آسمان پر عجیب و غریب روشنیاں دیکھی گئی تھیں۔ یوں یہ واقعہ بھی خلائی مخلوق، بھوتوں اور ڈریکولا کے کھاتے میں چلا گیا اور آج تک اس کی اصل حقیقت معلوم نہ ہوسکی۔

-9 ساؤتھ ایٹلانٹک اینوملی
 (Soth Antlantic Anonaly)

اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ ہماری زمین کے اوپر خلا میں بھی ایک ’’برمودا ٹرائی اینگل‘ موجود ہے تو کیا آپ یقین کریں گے؟ نہیں نا؟ مگر ایسا ہے اور یہ ’’ساؤتھ ایٹلانٹک اینوملی‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مقناطیسی ’چارجڈ پارٹیکلز‘ شمسی ہواؤں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ یہ مقناطیسی چارجڈ پارٹیکلز کراہ ارض کے مقناطیسی میدان کی کشش کی وجہ سے جکڑ میں آ جاتے ہیں اور زمین کے گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ خلا میں جس جگہ یہ مقناطیسی قوت زمین کی سطح کے نزدیک ترین واقع ہے وہ ’’ارتھ انر وان آلین بیلٹ‘‘ (Earth’s Iner Van Allen Belt) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہاں زمین کے مقناطیسی میدان کی کشش سب سے کمزور ترین ہوتی ہے اور یہ اٹیلانٹک اوشن کے برازیل والی سمت عین اوپر خلا میں موجود ہے۔

اس مقام سے گزرنے والے مصنوعی سیارے اور خلائی شٹل وغیرہ مختلف مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں لگے کمپیوٹرز اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ خلا میں گردش کرتی ’’ہبل‘‘ نامی ٹیلی سکوپ، جو سائنس دانوں کو کائنات کی وسعتوں میں تیرتے سیاروں اور ستاروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے ایک اہم ذریعہ ہے، وہ بھی دوران گردش یہاں سے گزرتے ہوئے اپنے تمام مشاہدات بند کردیتی ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن، جو یہاں سے 24 گھنٹے میں 5 بار گزرتا ہے، سے بھی خلا میں چہل قدمی جیسے افعال یہاں سے گزرنے کے دوران معطل کردیئے جاتے ہیں کیونکہ خلا بازوں کو یہاں صرف پھوٹتے ستاروں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے یہ صرف کوئی ٹیکنیکل مسئلہ نہیں ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان سب مسائل کا تکنیکی سبب اس مقناطیسی میدان کے یہ چارجڈ پارٹیکلز ہی ہیں لیکن سائنس دان ابھی بھی اس بارے میں پر اعتماد نہیں ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ تو پھر کیوں نا یہ سب بھی کسی نامعلوم خلائی مخلوق کے کھاتے میں ڈال دیا جائے؟

-10 سپر سٹیشن ماؤنٹنز
 (Superstition Mountains)

امریکی ریاست ایرازونا میں واقع یہ سلسلے کوہ، آج سے تقریباً پچیس ملین برس پہلے آتش فشانی عمل کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ روائتی داستانوں کے مطابق 1800ء کے اریب قریب ’’جیکب والٹز‘‘ (Jacob Walts) نامی ایک شخص نے ان پہاڑوں میں ایک بہت بڑی سونے کی کان دریافت کی۔ اس وقت سے ہی اس کان کو ’’دی لاسٹ ڈچ مینز گولڈ مائن‘‘ (The Lost Dutchmans Gold Mine) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیکب نے بستر مرگ تک اس کان کا محل وقوع صیغۂ راز میں رکھا۔ بعد میں بے شمار لوگوں نے اس کان کو دھونڈنے کی کوششیں کیں مگر لاحاصل۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی روحیں آج بھی ان پہاڑوں میں بین کرتی پھرتی ہیں جو سونے کی کان کی تلاش میں یہاں سرگرداں رہے اور بالآخر موت کی گھائیوں میں اترگئے۔

ایک اور روائتی کہانی کے مطابق سونے کی کان کے خزانے کے پہرے دار ’’ٹو آر۔ ٹمز‘‘ (Tuar-Tums) یعنی چھوٹے قد والے ’’بونے لوگ‘‘ ہیں جو ان پہاڑوں کے نیچے واقع غاروں اور سرنگوں میں رہتے ہیں۔ چند کوچہ گردوں کا خیال ہے کہ انہیں یقین ہے کہ جہنم کا دروازہ ان ہی پہاڑوں میں موجود ہے۔گو آج بھی بہت سے لوگ یہاں ہائیکنگ کے لیے بھی آتے ہیں۔

یہ ہیں وہ حیرت انگیز مقامات جو ہمارے اس بھید بھرے سیارے پر پائے جاتے ہیں اور ان کا اسرار آج بھی قائم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔