وفاداری

فرح ناز  اتوار 18 مارچ 2018
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

سینیٹ کا الیکشن اور سینیٹ کا چیئرمین گویا کھلی کتاب ہوگیا، تمام مبصر، تمام سیاستدان اپنے اپنے تجزیے کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ پورا پاکستان جانتا ہے یہی آخری جملہ کہانی کا سینٹرل آئیڈیا بن گیا ہے، بلوچستان کا سینیٹ چیئرمین تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہے، ماسوائے (ن) لیگ کے۔

مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ جمہوریت پر شب خون مارا گیا اور 6 آزاد سینیٹرز کی حمایت رکھنے والا کیسے طاقتور بن گیا؟ 13 بھی 6 میں جا ملے اور 23 بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) حمایتی سیاسی جماعتیں مطلب حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود اپنا سینیٹ چیئرمین نہ بنا سکی ہاں وہ اداروں کو جس طرح تذلیل کے ساتھ اپنے جلسوں میں پیش کر رہے ہیں جس طرح ججز کو وہ ’’پانچ لوگ‘‘ فرما رہے ہیں اس کا انجام یہی یا پھر اس سے بھی برا نظر آرہا ہے ہر پاکستانی کو اور وہی آخری جملہ ہر پاکستانی جانتا ہے۔

بہت سمجھانے پر بھی نواز شریف اور مریم نواز اگر یوں ہی تصادم کی سیاست کرتے رہے تو اس کو قطعاً سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ ذاتیات اپنی جگہ مگر ایک ملک کا وزیر اعظم کروڑوں لوگوں کی امانتوں کا امین ہے وہ چھوٹی خواہشات اور چھوٹی بات کیوں کر کرسکتا ہے۔ بڑے عہدے، بڑے نام، قربانیوں سے ہی بنتے ہیں چاہے وہ آپ کا اپنا گھر ہو یا ملک آپ اپنے گھر کے Head ہیں یا اپنے ملک کے آپ کو اپنی ذاتی خواہشات، ذاتی ضروریات سے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔

ذاتی دوستیاں، خواہشات یہ سب ملک کی عزت سے ملک کی سلامتی سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اگرکہیں ایسا ہو رہا ہے تو مطلب راستے کا انتخاب غلط ہوگیا ہے۔ افراد کا انتخاب غلط ہوگیا ہے۔کروڑوں آزاد لوگ چند لوگوں کی غلامی نہیں کرسکتے، یہ ملک فلاحی ریاست کے نام پر بنا اور فلاحی ریاست کے نام پر چلتا ہے مگر دور دور تک عوام کی فلاح و بہبود نظر نہیں آتی۔

برطانیہ میں شاہی خاندان کے شہزادے بھر پور طور پر تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر، مختلف اداروں کے ساتھ عملی طور پر کام کرتے نظر آتے ہیں، شہزادہ ہنری اپنی افواج کے ساتھ افغانستان میں لڑتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ برطانوی شاہی خاندان کی خواتین پورے قرینے اور سلیقے کے ساتھ اپنی عوام کے اجتماعات میں نظر آتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ خواہشات بے حساب ہوتی ہیں، عام افراد بھی بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے کا شوق رکھتے ہیں مگر کامیاب وہی ہوتے ہیں جو محنت، لگن، علم، روایات، پاسداری کو لے کر چلتے ہیں، ہر مقام، ہر عہدہ قربانیاں مانگتا ہے۔ مائیں بھی اپنے دن رات ایک کرتی ہیں تو نسل پروان چڑھاتی ہیں۔ تھالی میں رکھا ہوا مل بھی جائے تو کھانے کا سلیقہ آنا ضروری ہوجاتا ہے۔

ایک بادشاہ نے ایک فقیر خاتون سے شادی کی، محل میں لایا، ملکہ بنایا، فقیرنی کے لیے محل اور اس کی آسائشات کسی خواب سے بڑھ کر نہ تھی، بادشاہ سلامت جب ملکہ کے ساتھ کھانے کی سجی سجائی ٹیبل پر کھانا کھانے بیٹھے تو ملکہ کو بہت بے آرام پایا، ملکہ دل سے لگن سے کچھ کھاتی ہی نہیں تھی، بادشاہ پریشان ہوا، ملکہ نے اپنے لیے ایک چھوٹا کمرہ بنوانے کی فرمائش کی جس میں روشن دان بنائے گئے اینٹوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے سوراخ چھوڑے گئے جب کمرہ تیار ہوگیا تو ملکہ اس میں رات میں کچھ وقت گزارنے لگی۔ بادشاہ کو ملکہ پہلے سے بہتر لگی، مگر تجسس ہوا کہ آخر اس کمرے میں ایسا کیا ہے جو ملکہ کو سکون دیتا ہے۔

تجسس بادشاہ کو چوری چھپے ملکہ کے کمرے میں لے گیا اپنے چند مشیروں کے ساتھ بادشاہ کمرے میں گیا دیکھتا ہے کہ اینٹوں کے درمیان سوراخوں میں جا بجا پڑیاں رکھی ہوئی ہیں، بادشاہ حیران ہوا اس نے ایک پڑیا نکالی اسے کھولا تو اور بھی حیران ہوا کہ اس میں روٹی کے چند ٹکڑے تھے، پھر دوسری، تیسری پڑیا کھولی تو اس میں بھی کچھ بچا کچھا کھانا ملا۔ بادشاہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے ملکہ سے ان سب کے بارے میں پوچھا۔ ملکہ نے آنکھیں نیچی کرکے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت! آپ نے مجھے ملکہ تو بنادیا مگر میری فقیری والی فطرت ختم نہ ہوسکی، بھرے بھرے ٹیبل، کھانے سے بھری ہوئی پلیٹیں، مختلف لذیذ میٹھے، مجھے تسلی نہیں دے رہے، اسی لیے میں نے یہ کمرہ تیار کروایا کہ اپنی فطرت کو سکون دے سکوں۔ میں سونے سے پہلے اس کمرے میں اسی لیے وقت گزارتی ہوں کہ جو بچا کچھا کھانا میں چھپا چھپا کر رکھتی ہوں اس کو زمین میں بیٹھ کر کھاتی ہوں اور اپنی فطرت کو سکون دیتی ہوں۔

ہر عہدہ، ہر مقام تعلیم و تربیت کا مرہون منت ہے۔ اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش رکھنے والے والدین شروع کلاسوں سے ہی بچے کے ذہن کو، اس کی پڑھائی کو لے کر چلتے ہیں۔ وکیل بننے کے شوقین، وکالت پڑھتے ہیں، کورٹ میں لڑتے ہیں علم اور عقل سے لڑائی لڑی جاتی ہے اور قابل اور لائق جج کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں، پولیس میں کام کرنے والے عام ٹریننگ حاصل کرتے ہیں محنت کرتے ہیں، دن و رات بے خوف و خطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں پھر کہیں اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے ہیں۔

ملک کی حفاظت کرنے والے بچپن سے شوق رکھتے ہیں، بے انتہا سخت ٹریننگ، گھر والوں سے دوری، تنہائی، خواہشات کی قربانیاں تب کہیں جاکر اعلیٰ مقام حاصل کرپاتے ہیں۔ اپنی جانوں کے نذرانے، بھری جوانیوں کی شہادتیں، بوڑھے والدین، جوان بیویاں، معصوم بچے سب چھوڑ کر اپنے ملک پر نثار ہوجاتے ہیں اور شہادتوں کے درجے پر پہنچتے ہیں۔ چھوٹے صفائی کرنے والے سے لے کر اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے والے اپنی اپنی قربانیوں کی کہانیاں رکھتے ہیں۔

ہمارے انبیا اور نبیوں کی حیات طیبہ بے انتہا جدوجہد سے عبارت ہے۔ اللہ پاک کے حکم پر چلنے والے نہ جانے کیسی کیسی قربانیاں دے گئے ہیں کہ قیامت تک دہرائی جائیں گی۔

نہ محل چھوڑ کر گئے نہ خزانے، مگر ان تمام کے نام روشن چمکتے ہوئے چاند ستاروں جیسے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ عظمت کو قربانیوں نے، محنت و لگن نے، علم نے، دیانت داری نے پنپا ہے۔ اور رہتی دنیا تک صرف اور صرف اللہ پاک کے ہی بنائے گئے اصول اور ضابطے ہی رہیں گے، بحیثیت انسان ہم ضرور تجربے کرتے رہیں گے، پھر سے فرعونیت پیدا کریں گے، پھر سے یزید بننے کی کوشش کریں گے مگر اللہ پاک ہمیں پھر سے اسی طرح نیست و نابود کردے گا جیسے کہ اس نے پچھلوں کے ساتھ کیا ہے، یہ سب ہم پر، ہماری سوچ و بوجھ پر ہے کہ ہم کیا سنتے ہیں اور کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اختیارات کی جنگ شروع دنیا سے ہے اور آخر تک رہے گی، تباہیاں بھی ہوں گی اور ترقیاں بھی ہوں گی مگر سب اپنے اپنے کردار سے اپنے اپنے اعمال سے پہچانے جائیں گے اور یہی ہم پر ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس مقام تک لے کر جاتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہم وہ خوش نصیب ہیں کہ تمام زندگی کے ضابطے، زندگی کے قرینے ہمیں سکھا دیے گئے ہیں۔ ایک بہترین اللہ کے احکام کی کتاب ہمیں دے دی گئی ہے، ہماری رہنمائی کے لیے اللہ کے رسول اور نبی بہترین نمونہ ہیں۔کافروں سے معاملات ہوں یا جنگیں ہوں، اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے بہترین علم اور اعمال ہمیں سکھائے۔

تباہی ہمیشہ شروع ہوتی ہے جب انسان اپنی منطق اپنے ضابطے بناتا ہے اور باقی سب پر بھی ان کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر انسان اپنی جگہ پوری انسانیت کا وارث ہے۔ میرا اور آپ کا ہر قدم اور ہر عمل نہ صرف میرے لیے بلکہ ہم سب کے لیے Value رکھتا ہے۔ اور ہر انسان کے اپنے اپنے اعمال اور کردار سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

علم سے محبت لازم زندگی ہے، جھوٹ ، و مکر وفریب اور لالچ ہی شیطان بننے کے لیے کافی ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے صدقہ جاریہ بنیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، اور ایک بہترین معاشرہ بنائیں۔ جنگیں تو دشمنوں سے ہوتی ہیں اپنوں سے نہیں، جس ملک کے ہم شہری ہیں لازم ہے کہ اس سے وفاداری نبھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔