نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے، قرضہ لینا پڑے گا، حکومتی اقتصادی ٹیم

پیداواری لاگت پرنظرثانی ضروری ہے،پرویزملک۔ فوٹو: ایکسپریس

پیداواری لاگت پرنظرثانی ضروری ہے،پرویزملک۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر نے کہا ہے کہ حکومت آئندہ سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گی۔

ایکسپریس پبلی کیشنز کے زیراہتمام پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر نے کہا ہے کہ حکومت آئندہ سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گی مگرنان فائلرز کے لیے نان فائلرزرہنامشکل ہوجائے گا۔ سیمینار کی میزبانی کے فرائض ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے انجام دیے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم ٹیکس ادائیگی کے لیے تیار نہیں، ہمارے ہاں رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کا رحجان کم ہے، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افرادکی آمدنی زیادتی ہوتی ہے مگر ظاہر کم کرتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹیکسوں کا رضاکارانہ نظام نہیں بلکہ اسے نافذ کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں ایف بی آر کی جانب سے جس شخص کو ٹیکس کانوٹس ملتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اسے ادارے کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار یا قابل ٹیکس آمدنی والے شخص کو ٹیکس نوٹس ملنا ہراسگی کے زمرے میں نہیں آتا، دنیا کا کوئی بھی ملک ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ملک سے باہر پڑا ہوا پیسہ واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوا، یہ اسکیم محض ایک ترغیب ہوتی ہے، ٹیکس سے بچنے اور ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے کے ڈر سے لوگ اپنا پیسہ باہر رکھتے ہیں، ایف بی آر کو اچھی قیادت دی جائے تویہ بہترین کام کرے گا۔

ہارون اختر نے کہا کہ حکومت دفاعی اخراجات، ترقیاتی پروگراموں، بجلی پیداوار سمیت دیگر اقدامات کے لیے فنڈز میں کمی نہیں کرسکتی، ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث گزشتہ 7 سال سے سرمایہ کاری نہیں کررہی۔

انھوں نے کہا یہ حقیقت ہے روپے کی قدر میں کمی کرکے حکومت نے بہت فائدہ اٹھایا ہے تاہم یہ مستقل حل نہیں،ہمیں پیداواری شعبوں کی ترقی پر توجہ دینا ہوگی، حکومت اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تجارتی خسارے کو کم نہ کرسکی تو جی ڈی پی کا سات فیصد ہدف حاصل نہیںہوپائے گا۔ مختلف ملکوں سے آزاد تجارتی معاہدے کرنے سے برآمدات بڑھی ہیں اور مقامی صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے کہا کہ ہمسایہ ملک میں 70 سال سے ایک ہی نظام چل رہا ہے جس سے وہاں بہتری آئی، پاکستان میں کسی ایک نظام کا جاری نہ رہنا بدقسمتی ہے، پالیسی سطح پر بعض فیصلے ایسے ہیں جس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہلے کیوں نہیں ہوئے۔

رانا محمد افضل نے کہا کہ حکومت کو ٹیکس کے حصول کے لیے قوانین پر عملدرآمد کرنے کوکہا جاتا ہے لیکن ٹیکس چورکی نشاندہی کی کوئی جرات نہیں کرتا، ہم ٹیکس وصولی 1.9 ٹریلین سے بڑھاکر 4 ٹریلین تک لے آئے ہیں، 10 سال میں جی ڈی پی 5 فیصد سے اوپر آئی ہے، معیشت پر ذمے دارانہ سوچ کیساتھ سیاست ہونی چاہیے، حکومت پر قرضے لینے کا الزام لگایا جاتا ہے تاہم ہر بجٹ میں 5 ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران 25 ارب کے قرضے زندہ رہنے اور انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کیلیے  لیے گئے، حکومت 2 ماہ میں مدت پوری کرکے چلی جائے گی، ہمیں قرضہ لینا پڑیگا تاکہ نئی آنے والی حکومت کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑ کر جائیں، ترقی کے لیے قرضہ لینا ضروری ہے کیونکہ اگلے سال وہ منصوبہ 15 فیصد مہنگا ہوجائے گا۔

رانا محمد افضل نے کہا کہ ہمارے دور میں ٹیکس وصولیاں دگنا ہوگئی ہیں، اسمگلنگ والے بارڈرز پر باڑ لگائی جارہی ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز پر ٹریکر لگادیے ہیں، تمام ٹریڈ باڈیز کو یقین دلاتا ہوں تمام مسائل کو دیکھ رہے ہیں، ودہولڈنگ ٹیکس کے ماڈل میں کوئی نقص نہیں، چار لاکھ کی ٹیکس سلیب کو اوپر لیکر جانا چاہتے ہیں۔

وزیر تجارت وٹیکسٹائل پرویز ملک نے کہا آزاد تجارتی معاہدوں پر مشاورت کے بعد انھیں برآمدات کے لیے سازگار بنایا جاسکتا ہے، ترکی، چین اور دیگر ملکوں کیساتھ اس سلسلے میں با ت کر رہے ہیں، چین کیساتھ انڈرانوائسنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات ایڈوانس سطح پر ہیں، ایران کیساتھ بینکاری کے شعبے میں تعلقات کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے، جلد پاکستانی بینک ایران میں کام کرنا شروع کردیںگے، ملکی برآمدات اس سال 24 ارب ڈالر تک پہنچ جائیںگی جو گزشتہ سال سے 4 ارب ڈالر زیادہ ہوںگی۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال بھی مارچ میں برآمدات میں اضافہ ہوا، برآمدات کو مدد دینے کے لیے کرنسی کی ری ایڈجسمنٹ ہوئی، پیداواری لاگت پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

سرمایہ کا ری بورڈ کے چیئرمین نعیم زمیندار نے کہا کہ ہمیں اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان میں انوسمنٹ لیول 18 جبکہ باقی ملکوں میں 25 فیصد ہے، ہمیں اپنی انوسٹمنٹ پلاننگ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، سی پیک کے تحت اقتصادی زون ایک بڑا قدم ہے، ہم چاہتے ہیں ہمارے کاروباری ادارے جدت لائیں، ہمیں اپنی کمپنیوں کو کامیاب بنانا ہے، سمارٹ فون کی مقامی سطح پر تیاری کی ضرورت ہے۔

پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل ( پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف ظفر نے کہا فوڈ سیکیورٹی، نیشنل سیکیورٹی کیساتھ لنک ہے تاہم ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں فرٹیلائزر اور مشینری کی قیمت زیادہ ہے، ہمیں ان پٹ کاسٹ کو کم کرنا ہوگا، حکومت زرعی سیکٹر کی بہتری کے لیے بلا سود 30 ہزار سولر ٹیوب ویل کی اسکیم لارہی ہے، دالوں کی پیداوار میں اضافہ اور کھانے کے تیل پر نئے منصوبے شروع کررہے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے کونسل ممبر اور چیئرمین ٹیکسیشن کمیٹی اشفاق تولہ نے کہا کہ ٹیکسیشن پالیسی کو بزنس کے ماتحت ہو نا پڑے گا، ہماری ٹیکسیشن پالیسی بزنس فرینڈلی نہیں، 70 فیصد ڈائریکٹ اور 30 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہونا چاہیے، اگر کسی نے کوئی ایمنسٹی لانی ہے تو ایک مر تبہ لائے۔

معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ خرم جاہ نے کہا کہ بجٹ کے عمل کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ ہوناچاہیے تاکہ سرمایہ کاروںکو ملکی پالیسیوں کے بارے میں آگاہی ہو، جب تک سالانہ بجٹ میں سسپنس رہے گا تو صورتحال بہتر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، دنیا بھر میں ایز آف ڈوئنگ بزنس میں پاکستان درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے جب تک اس درجہ بندی کو بہتر نہ بنایا جاتا بیرونی دنیا سے سرمایہ کار نہیں آئیںگے۔

خرم جاہ نے کہاکہ  افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ٹیکس چوری کا سب سے بڑا روٹ ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں پاکستانی تاجروں کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں، نظریہ ضرورت کے تحت ایمنسٹی اسکیم چل سکتی ہے مگر بیرونی دنیا سے زرمبادلہ لانے کے لیے ٹھوس اقداما ت کرنے ہوںگے، جتنا بھی پیسہ باہر سے لایا جائے گا اس کے لیے یہ لازم ہوکہ اس کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسد زمان نے کہا کہ معاشی شعبے میں بہتری لانے کے لیے ہمیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا ہوگی، ہمیں ملک میں یکجہتی کی ضرورت ہے۔

سابق چئیرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد ارشاد نے کہا کہ ٹیکس اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ان دونوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا، جب معیشت بہتر ہو رہی ہوگی تو ٹیکس بہتر ہوںگے، حکومت کو معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لیے بجٹ خسارے پر قابو پانا ہوگا، یہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے، ٹیکس اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، حکومت سیلز ٹیکس کا ریٹ بڑھاتی ہے تو ٹیکس چوری کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے، جو لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں، ان کے لیے مشکلات ہیں، اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں، ٹیکس گوشوارے  جمع کرانے کا نظام بہت پیچیدہ ہے، اس کو آسان بنانا ہوگا تاکہ نچلی سطح پر ریٹیلرز بھی گوشوارے آسانی سے فائل کرسکیں۔

ڈاکٹر ارشاد نے پبلک فنانس اینڈ ٹیکسیشن اور کسٹمز اسکول کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اس طرح کے ادارے موجود ہیں مگر ہم اس شعبے میں بہت پیچھے ہیں، ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے ٹیکس کی فلاسفی کو بدلنا ہوگا، ٹیکس کے سارے نظام پر نظرثانی کرنا ہوگی، ایف بی آر میں انٹرنل آڈٹ کے نظام کو دوبارہ لانا ہوگا، اگر ایف بی آر کے افسران کو مراعات دی جائیں تو کرپشن پچاس فیصد تک کم ہوجائے گی۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عامر وحید شیخ نے کہا کہ ایف بی آر کو صرف ٹیکس وصولی کرنی چاہیے مگر عملدرآمد کسی اور ادارے کو کرنا چاہیے، قابل ٹیکس آمدن والے افراد کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کی وجوہ جاننی چاہئیں، ٹیکس نوٹسز سے لوگ خائف ہوجاتے ہیں، اس طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا معاشی شعبے کی مشکلات انتہا کو پہنچ چکی ہیں، ریونیو ڈویژن کی کارکردگی بہتر ہے تاہم سرکلر ڈیٹ کا حل تلا ش نہیں کیا جاسکا ہے، سرکلر ڈیٹ اضافے کی جانب سے جار ہاہے، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معاشی صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے، سی پی کی وجہ سے صورتحال بہتر ہوئی تھی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا تھا اور لوگ سرمایہ کاری کرنا شروع ہوئے تھے تاہم اب سب کو خطرہ لاحق ہے، حکومت نے اپنے نظم وضبط کو خراب کر دیا ہے، اخراجات پوری رفتار سے جاری ہیں جبکہ آمدنی نہیں ہورہی، موجودہ حکومت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے، اگر حکومت ڈیڑھ ماہ قبل بجٹ دے گی تو بجٹ کے لوازمات پورے نہیں کر پائے گی، اکنامک سروے گروتھ ریٹ سمیت دس ماہ کے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہوںگے، موجودہ حکومت کے لیے آئینی طور پر یہ لازم نہیں کہ یہ بجٹ دے۔

ایس ڈی پی آئی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر عرفان احمد چٹھہ نے کہاکہ  تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بین الوزارتی کوآرڈی نیشن  بڑھانی چاہیے، اداروں کو مضبوط اور اسمگلنگ خاتمے کے لیے اقدمات کیے جائیں۔ سابق وزیرمملکت برائے خزانہ عمر ایوب نے کہا ترقیاتی بجٹ کا پیمانہ عوام اور ملک کا فائدہ ہونا چاہیے، بجٹ سازی میں ہمیں نوجوانوں کے لیے با عزت روزگارکی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ اس وقت ملک میں 60 سے 70 فیصد نوجوان بے رو زگار ہیں، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانی ہیں، ہمیں آج 30 سے 40 سال آگے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

چیف اکانومسٹ آف پاکستان ڈاکٹر محمد ندیم جا وید نے کہا ہمیں معیشت میں اسٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ کی ضرور ت ہے، انفرااسٹرکچر سیکٹر لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری کے لیے اہم کر دار ادا کر تا ہے۔

ایف بی آر کے سابق ممبر شاہد حسین اسد نے کہا کہ اگر معیشت ٹھیک نہیں چل رہی تو ٹیکس ہدف بڑھانا زیادتی ہے جس کا اثر کاروباری برادری پر پڑتا ہے،ایڈوانس ٹیکس کے لیے ہمیں سابقہ سسٹم کی طرف جانا چاہیے، لوگ نان فائلر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، فائلر پر اضافی ودہولڈنگ ٹیکس نہیں ہونا چاہیے ، پیداواری لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے۔

ورلڈ بینک کے سابق ایڈ وائزر ڈاکٹر عابد حسن نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے لیے ٹیکس فارم کو سادہ بنایا جائے، ایف بی آر فائلرز کو چھوڑ دے اور نان فائلرز پر فوکس کر ے، ہر سال 20 سے 30 فیصد پی ایس ڈی پی ضائع ہو جاتا ہے، پی ایس ڈی پی 500 سے 600 ارب ہونا چاہیے، سبسڈی کا فیصلہ صوبوں کی جانب سے کیا جا نا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔