کرائے کی کوکھ؛ ایک حل؟

امبر ظفر سندھو  ہفتہ 7 اپريل 2018
سروگیسی کے بارے میں تحفظات دور کرکے کرکے انگنت بے اولاد خواتین کو طلاق کی ہروقت لٹکتی تلوار سے بچایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سروگیسی کے بارے میں تحفظات دور کرکے کرکے انگنت بے اولاد خواتین کو طلاق کی ہروقت لٹکتی تلوار سے بچایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سنی لیون کو کون نہیں جانتا۔ انہوں نے اور ان کے شوہر ڈینیل ویبر نے گزشتہ برس ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اب ان کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے جس کا اعلان انہوں نے 5 مارچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے کیا اور ساتھ ہی بچوں کی تصاویر بھی شیئر کیں۔

مجھے دیکھ کر بہت اچھا لگا اور خوشی ہوئی کہ دونوں کا پروفیشن جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، مگر ایک فطری اور ارتقائی تسلسل کو برقرار رکھنے اور اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کےلیے انہوں نے جو بھی کیا وہ خاصی حد تک درست تھا۔ خاصی حد تک اس لیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ سنی کو طبی مسائل تھے یا وہ اپنی مصروفیات کی بناء پر اس طریقہ تولید کو اپنانے پر آمادہ ہوئیں۔ خیر، وجہ جو بھی ہو، میں ڈینیل ویبر کو اس بات کےلیے سراہتی ہوں کہ اگر وہ روایتی پاکستانی مردوں کی طرح ہوتا تو سنی لیون کو نہ جانے کن کن القابات سے نوازتا اور سب کچھ کرلینے کے بعد شاید اسے برا بھلا کہنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا۔

مجھے سیروگیسی کے بارے میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ انڈیا میں غیر شادی شدہ ہونے کے باوجود فلم ساز کرن جوہر نے بھی سروگیسی کے ذریعے 2 جڑواں بچے پیدا کر رکھے ہیں جب کہ ادکار تشار کپور نے بھی شادی سے قبل ہی اسی سہولت کے ذریعے بیٹا پیدا کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں بولی ووڈ کے بادشاہ، شاہ رخ خان نے بھی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سروگیسی کے ذریعے ہی پیدا کیا جب کہ عامر خان بھی اسی سہولت کے ذریعے ایک بیٹے کی پیدائش کرچکے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ’’سروگیسی‘‘ ہے کیا؟

تو جناب جب بیوی کسی وجہ سے خود بچے کو جنم نہ دے سکے تو میاں کے نطفے اور بیوی کے بیضے سے لیبارٹری میں جنین (بارور بیضہ) تیار کرکے اسے کسی صحت مند عورت کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں یہ قدرتی عمل سے گزر کر ایک بچہ بننے کے بعد مقررہ وقت پر پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جسے ’’سروگیسی‘‘ (surrogacy) کہا جاتا ہے۔ اس طرح بچے کو جنم دینے والی خاتون کو ’’سروگیٹ مدر‘‘ (surrogate mother) یا متبادل ماں کہا جاتا ہے۔ یہ عورت اگرچہ اس بچے کی حقیقی ماں نہیں ہوتی لیکن اس کے رحم میں جنین منتقل کردیا جاتا ہے جسے وہ نو مہینے اپنے رحم میں پالتی ہے اور جنم دیتی ہے۔

اب پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں بچہ نہ ہونے پر طلاقیں ہونا ایک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کا راستہ اختیار کرنے کی متعدد وجوہ ہیں۔ اکثر اوقات اس کی ایک وجہ جوڑوں کا ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہونا ہے اور بعض اوقات اس کے پیچھے جہیز سے جڑے ہوئے مسائل ہیں، یا دوسری عورت… جبکہ اس کے پیچھے ایک وجہ عورت کا بانجھ ہونا بھی ہے۔ مرد، عورت کو طلاق دے کر کسی اور عورت کو بیاہ لیتا ہے جو اس کے خیال میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔

میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ طلاق دینے کےلیے بچہ پیدا کرنے کی اہل نہ ہونے کی وجہ بتانا بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر کسی وجہ سے جوڑا بچہ پیدا نہیں کرسکا تو بچہ گود لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ بچہ ان کا نہیں ہوگا، باپ چاہتا ہے کہ بچہ اس کا اپنا ہو، جس کی رگوں میں اس کا اپنا خون دوڑ رہا ہو۔

اس خیال نے مجھے بہت پریشان کیا ہوا ہے اور میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس وجہ سے ہونے والی طلاقوں کو روکنے کےلیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ بہت غور و خوص کے بعد میں ایک غیر روایتی خیال تک پہنچی… ایک ایسا خیال جو ہمارے معاشرے میں سوچنا بھی ممنوع ہے۔ اور وہ ہے surrogacy یعنی کرائے کی ماں حاصل کرنا۔

اس عمل میں تولیدی مادہ مصنوعی ذرائع سے کسی دوسری عورت کے رحم میں داخل کرکے، اس کی کوکھ میں اپنا بچہ پالا جاتا ہے اور کوئی دوسری عورت اسے اس عورت کےلیے جنم دیتی ہے جو بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے قاصر ہے۔ جب مجھے سروگیسی کی بابت معلوم ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ طریقہ اختیار کرکے کسی عورت کو طلاق سے بچایا جاسکتا ہے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی عورت اس بات کی سزا کیوں پائے جو اس کے اختیار ہی میں نہیں۔ مگر سروگیسی کو سمجھنے کےلیے تین مختلف تناظر ہیں: پہلا پاکستان میں کمزور قانونی ڈھانچہ اور امن و امان کی ابتر صورت حال؛ دوسرا پاکستان کا اسلامی ریاست ہونے اور اسلامی اصولوں کے ساتھ جڑا رہنے کا دعویٰ؛ اور تیسرا پاکستان میں میڈیکل سائنس کے میدان میں ترقی نہ کرسکنا۔

سروگیسی کو عمل میں لانے کےلیے اولاً والدین کو متبادل ماں (Surrogate Mother) کو پاکباز سمجھنا ہوگا، یعنی انہیں قانونی لحاظ سے مکمل تحفظ حاصل ہو تاکہ کوئی قانونی الجھن، پیچیدگی یا مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دو تناظر کو خاطر میں لانا از بس ضروری ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ جہاں سروگیسی کے عمل کا معاملہ سیدھا سادا سا معاملہ ہے وہیں اس پر عملدرآمد اتنا ہی پیچیدہ ہے۔

اسے ایک بار پھر واضح کرنے کےلیے بتادوں کہ اس عمل میں کوئی عورت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کے شوہر کے مادہ تولید/ مادہ منویہ کو ہمبستری کے ذریعے اس عورت میں منتقل ہو، بلکہ مصنوعی طریقے سے کسی دوسری عورت، جسے Surrogate Mother (متبادل ماں) کے طور پر حاصل کیا گیا ہو، کے رحم میں داخل کرنے کی اجازت دیتی ہے تاکہ اس سے جو بچہ پیدا ہو وہ جنم کے بعد حاصل کرلیا جائے۔ اس عمل میں اکثر آئی وی ایف (In Vitro Fertilization) المعروف ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ کا عمل دخل بھی ہوتا ہے جس میں عورت کا بیضہ (egg)، اسی کے شوہر کے مادہ منویہ سے بارور (فرٹیلائز) کیا جاتا ہے اور پھر اسے کسی دوسری عورت کے رحم میں مصنوعی طریقے سے داخل کیا جاتا ہے۔

پس یہ جان لینا چاہیے کہ اس عمل میں مادہ تو بچہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے میاں بیوی ہی کا استعمال ہوتا ہے تاہم Surrogate Mother کا جسم استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے بچے کی اپنے رحم میں پرورش کرے اور اسے جنم دے۔

یہ صرف ماں ہی ہے جو بچے کا حمل اپنے رحم میں ٹھہراتی (Conceive کرتی) اور جنم دیتی ہے۔ لیکن پھر بھی، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماں وہ ہے جو اپنا بیضہ دیتی ہے؟ یا وہ جس کے بطن میں کسی دوسری عورت کا بیضہ بارور ہوتا ہے اور جو بچے کو جنم دیتی ہے؟ اس لئے جب مذہب کی بات آتی ہے تو بہت سے سوالات ایسے اٹھتے ہیں جن سے تسلی بخش انداز میں نمٹنا نہایت ضروری ہے تاکہ اسلامی ریاست میں Surrogacy کو محفوظ اور قابل عمل بنایا جائے۔

Surrogacy کے حوالے سے موجود تحفظات کو نظرانداز کرکے ان گنت خواتین کو طلاق کی تلوار سے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا وہ امر ہے جو عورت کے بس میں نہیں۔ لیکن اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ بہت مہنگا بھی ہے تو اسے ہر کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں اس حوالے سے تو میڈیکل سائنس ترقی یافتہ نہیں ہوئی بلکہ اس کی کمی ہی کمی ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ ہم اس حوالے سے سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں اور شاید مستقبل میں صورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

امبر ظفر سندھو

امبر ظفر سندھو

مصنفہ ایک نجی ادارے میں کوالٹی کنٹرول انالسٹ ہیں۔ آپ نے ایم ایس سی پلانٹ سائنسز کیا ہوا ہے اور معاشرتی مسائل پر بلاگنگ آپ کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔