با کردار قیادت

سپریم کورٹ کے ججز نے کہا ہے کہ ’’ہمارا مقصد ملک کو با کردار قیادت فراہم کرنا ہے‘‘ عدالتوں کے فیصلے آتے رہے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari April 24, 2018
[email protected]

سپریم کورٹ نے نواز شریف اور پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے حوالے سے سابقہ نا اہلی کے فیصلے کے تسلسل میں فیصلہ دیتے ہوئیآئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح کردی ہے۔ یوں اس آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہی سمجھی جائے گی۔

سپریم کورٹ کے ججز نے کہا ہے کہ ''ہمارا مقصد ملک کو با کردار قیادت فراہم کرنا ہے'' عدالتوں کے فیصلے آتے رہے ہیں اور ان کی حمایت اور مخالفت بھی کی جاتی ہے لیکن مذکورہ بالا فیصلے کے ساتھ جج حضرات نے جو اہم بات کی ہے وہ یہ ہے کہ عدلیہ کا مقصد ملک کو ''با کردار قیادت'' فراہم کرنا ہے۔

اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ ہمارے ملک میں ابتدائی چند سالوں کے بعد جو سیاسی قیادت متعارف ہوئی ہے اس کے بارے میں مختصراً صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''با کرداری'' سے اس نصف صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی سیاست کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ صرف اور صرف اس قیادت کا تعلق لوٹ مار، اقربا پروری اور اربوں کی کرپشن سے رہا ہے اور یہ صورتحال اب بھی جاری ہے۔ عوام کے سروں پر ٹارزن کی طرح مسلط ہونے والے جن کا عوام سے تعلق صرف الیکشن سے کچھ پہلے ہوتا ہے مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار صرف عوام کو حاصل ہے۔

بلاشبہ جمہوری ملکوں میں سیاسی فیصلے عوام ہی کرتے ہیں اور وہ بھی انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں اور ہمارے حکمران عوام کو مستقل یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام کے ہاتھوں میں ووٹ ایک ایسی طاقت ہے جو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

اول تو آج تک عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہے نہ وہ اپنا ووٹ معاشرے اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ اشرافیہ نے عوام کی سادہ لوحی کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے ووٹ کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا ہے اور اقتدار کو عوام کے اربوں روپوں کی لوٹ مار کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کلچر اس قدر مستحکم ہوگیا ہے اور اس کی جڑیں اس قدر گہرائی میں پیوست کردی گئی ہیں کہ اس کلچر سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں رنگ، نسل، زبان کے حوالے سے عوام کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کو نہ صرف پارہ پارہ کردیاگیا ہے، بلکہ اس حوالے سے صوبوں پر اس مضبوطی سے قبضہ کرلیاگیا ہے کہ اس قبضے کو چھڑانا ناممکن نہ سہی انتہائی مشکل ضرور ہے۔ زبان، قومیت کو ایسی دو دھاری تلوار بنادیاگیا ہے جس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے جمہوریت کا ڈراما رچایا جاتا ہے۔

عدالت عظمیٰ اس کلچر کو بدلنے کی کوشش کررہی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کررہی ہے، اسے ان حدود میں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ سماجی مسائل تک اپنے آپ کو محدود کرے سیاسی فیصلے کرنے سے دور رہے۔ اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ سیاسی فیصلوں کو اختیار عوام کے ووٹ کو حاصل ہوتا ہے اور ووٹ ہی کے ذریعے ملک میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں لیکن ووٹ کی خرید و فروخت نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک جس طرح پھیل گئی ہے اس کا اندازہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں ہونے والی ووٹوں کی خرید و فروخت سے کیا جاسکتا ہے۔

اس میں بھی ذرا برابر فرق نہیں کہ جمہوری معاشروں میں ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار کے اندر رہ کر کام کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت جب آمر یافتہ ہوکر رہ جاتی ہے تو کسی نہ کسی ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز کرنا پڑتا ہے جب ایسا ہوتا ہے تو جمہوریت کا غول بیابانی جمہوریت کا راگ اس قدر سے سناتا ہے کہ عوام کے کان بہرے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس کے وہ لکھاری جن کا تعلق جمہوریت سے عشق کی طرح ہوتا ہے وہ نہ پچھلے 70 سال کی جمہوریت پر نظر ڈالنے کی زحمت کرتے ہیں نہ موجودہ شاہی جمہوریت کے اسرار و رموز پر نظر ڈالنے کی زحمت کرتے ہیں۔

کیا ایسے جمہوریت دوست حضرات اس بد نما حقیقت پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری اشرافیہ نے باضابطہ ولی عہدی نظام کو اس طرح پھلادیا ہے اور مضبوط و مستحکم کردیا ہے کہ وہ ولی عہدوں کی یہ لائن اتنی لمبی ہے کہ اس صدی میں اس کے ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ کیا اس زندہ حقیقت کے باوجود اس فراڈ جمہوریت کا راگِ ویتاگ گانا جائز ہے؟

اس خانقاہی جمہوریت کو توڑنے کے لیے کسی طرف سے بھی کوئی اقدام کیا جاتا ہے تو اس کی حمایت کرنا غلط اور غیر جمہوری ہے۔ 70 سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا کیا اس طویل عرصے میں ایک قدم بھی عوامی جمہوریت کی طرف اٹھایا گیا ہے؟ کیا آج بھی سیاست کی بلکہ جمہوریت کی منڈی میں عوام کے ووٹ کی خرید و فروخت کا بدنما سلسلہ جاری و ساری نہیں ہے۔ کیا اس کا تعلق جمہوریت سے ہے۔

سپریم کورٹ ملک و قوم کو ایک با کردار قیادت دینا چاہتی ہے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کیا ارب پتیوں پر مشتمل اس جمہوریت میں جو اختیار اور دولت سے لیس سیاسی مافیا کی موجودگی میں جو زبان اور قومیت کے نام پر عوام پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے با کردار قیادت کو آگے لانا آسان ہے؟ سب سے پہلے اس انتخابی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے جس میں کروڑوں بلکہ اربوں کی سرمایہ کاری اشرافیہ کررہی ہے اور اس سرمائے کو سو گنا سود کے ساتھ وصول کررہی ہے۔ با کردار قیادت کو آگے لانے کے لیے سرمائے کے ارتکاز کے ساتھ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے اہل لوگوں کو انتخابی نظام میں آسانی سے شرکت کے مواقعے فراہم کرنا ضروری ہے۔

آج کا دور میڈیا کی برتری کا دور ہے اور میڈیا کے بھرپور تعاون کے بغیر باکردار قیادت کو نہ متعارف کرایاجاسکتا ہے نہ آگے لایا جاسکتا ہے۔ مڈل کلاس کے ایک دو اچھی شہریت رکھنے والوں کو آگے لانے سے با کردار قیادت کو آگے نہیں لایا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں چھ کروڑ سے زیادہ مزدور ہیں ۔ دیہی آبادی کا 60 فی صد کسان ہیں، اہل اور ایماندار صحافی ہیں، وکلا ہیں، ڈاکٹر ہیں، دانشور ہیں، مفکر ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں انھیں آگے لائے بغیر با کردار قیادت نہیں ابھاری جاسکتی اور انھیں آگے لانے میں میڈیا کا ایک منظم اور مربوط طریقے سے کردار ادا کرنا پڑے گا اور شاہوں، ولی عہدوں کی پبلسٹی سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں