54 ارب کے قرض معاف
بینکوں کے اربوں کے قرض لے کر معاف کرانے کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔
پاکستان میں اشرافیائی کرپشن کی جتنی بڑی بڑی اقسام ہیں ، ان میں سے ایک بڑی قسم بینکوں سے قرض لے کر معاف کرانا ہے ۔ قرض بہرحال قرض ہوتا ہے ہم نے بھی ایک ادارے سے ایک لاکھ قرض لیا تھا ، اس ایک لاکھ کے عوض ہم نے تقریباً دو لاکھ روپے ادا کیے لیکن صورت حال کچھ یوں تھی قرض بڑھتا گیا، جوں جوں ادائیگی کی ۔ ہم مطمئن تھے کہ اصل سے دو گنا کے قریب ادا کردیے گئے ہیں اگر کچھ بقایا پھر بھی رہ جاتا ہے تو ادا کردیں گے۔
اس اطمینان میں شب و روز گزر رہے تھے کہ ایک دن دو چار لوگ ہمارے گھر آئے اور فرمایا کہ ہم آپ کا گھر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ جواب ملا آپ کا گھر نیلام ہونے والا ہے ہم خریدنا چاہتے ہیں۔ ہماری سٹی گم ہوگئی ہم نے سوداگروں کو رخصت کیا اور دوسرے دن اس محترم آفس گئے اور رسیدیں دکھائیں کہ ہم قرض سے دوگنا زیادہ ادا کرچکے ہیں پھر ہمارے گھر کو نیلام کرنے کی وجہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں نوٹس دیا جانا چاہیے تھا جو نہیں دیا گیا۔
جواب ملا بے شک آپ نے لیے ہوئے قرض سے زیادہ رقم جمع کردی ہے لیکن ہمارے حساب سے اب بھی آپ کی طرف ادارے کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ روپے نکلتے ہیں۔ ہماری سٹی گم ہوگئی کہ ماجرا کیا ہے۔ کلرک صاحب نے فائل ہمارے سامنے رکھ دی اور بتایا کہ سود در سود کی وجہ قرضے کی رقم اصل سے ڈبل سے زیادہ ہوجاتی ہے بہرحال مشکل سے پہلی قسط کے طور پر پچاس ہزار کی رقم جمع کی اور گھر کو بڑی مشکل سے نیلامی سے بچایا۔ اس قسم کے ادارے عموماً گھر کی تعمیر کے لیے قرض دیتے ہیں لیکن ان اداروں میں سود در سود کا ایسا نظام ہے جو اصل رقم کو دوگنے سے زیادہ کردیتا ہے۔
آج اس مسئلے پر قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پڑی ہے کہ اخبارات میں یہ پانچ کالمی خبر چھپی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ''سیاسی بنیادوں پر معاف قرضے واپس نہ کرنے والوں کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس حوالے سے پرانے دبائے ہوئے مقدمات نکلوا رہا ہوں۔ 54 ارب روپے معاف کرائے گئے قرضوں کی اسٹیٹ بینک سمری پیش کرے۔
اس حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ 223 قرضے معافی کے مقدمات مشکوک ہیں بینکوں کے اربوں کے قرض لے کر معاف کرانے کا مسئلہ بہت پرانا ہے، اس سے قبل اس حوالے سے میڈیا میں جو خبریں آتی رہیں اس میں قرض معاف کرانے والی رقم ڈھائی کھرب بتائی جاتی رہی ہے، جس میں سے سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرانے والی رقم 54 ارب بتائی جا رہی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بھاری قرضوں کی جعلی طریقوں سے رقم معاف کرانا ایک سنگین جرم ہے۔
ہمارے چیف جسٹس پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ وہ دودھ اور پانی میں ملاوٹ کی چیکنگ کرتے پھر رہے ہیں۔ اس قسم کے اعتراضات کرنے والے ان اربوں روپوں کی کرپشن کی تحقیق کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ اب چیف جسٹس صاحب نے 54 ارب روپے ''سیاسی بنیادوں'' پر معاف کرائے گئے قرضوں کا نوٹس لیا ہے تو دودھ اور پانی میں ملاوٹ کی چیکنگ کرنے کا اعتراض مسخرہ پن لگتا ہے۔ ہمارے ملک کے 20 کروڑ غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں ایسے ملک میں سیاسی بنیادوں پر 54 ارب کے بینک لون معاف کرانا ایسا جرم ہے جس کی سزا سخت سے سخت ہونی چاہیے۔
حکمران طبقات کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ اور اس کے محترم ججوں کے خلاف جو جارحانہ بلکہ تضحیک آمیز رویہ جاری ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار محترم اشرافیہ کے گلے پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرانے والے کون لوگ ہیں اور 54 ارب کی غیر معمولی رقم کے قرضے کن بنیادوں پر معاف کرائے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے نہیں بلکہ عشروں سے جاری و ساری ہے اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی حکومت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اربوں کھربوں کے قرض معاف کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ خود حکومتیں اس نیک کام میں مددگار رہی ہیں۔
پاکستان ایک غریب اور انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں کی آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے ایسے غریب ملک کے امرا اگر 54 ارب کے قرضے معاف کرالیں تو اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے یہ 54 ارب روپے غریبوں کی کمائی ہوئی دولت ہے جسے ہماری محترم اشرافیہ جاگیر سمجھ کر استعمال کر رہی ہے۔ اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے جب اس غیر انسانی جرم کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے تو اشرافیہ نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ ہمارے ساتھ انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہ انتقامی کارروائی نہیں بلکہ جرائم کے خلاف قانونی اور اخلاقی اقدامات ہیں، عوام کی محنت کی کمائی پر پرتعیش زندگی گزارنے والے ایسے مجرم ہیں جنھیں قرار واقعی سزائیں دے کر لوٹ مار کی اس سیاست کے گلے میں رسی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں جو دن رات اپنا پسینہ بہا کر ملک میں اشیائے صرف کے انبار لگاتے ہیں اور اس کا معاوضہ انھیں پندرہ ہزار روپوں کی شکل میں ملتا ہے۔ کیا حکومت کا کوئی معاشی ماہر آٹھ دس افراد کے 15 ہزار ماہانہ میں گزارے کا بجٹ بناکر دے سکتا ہے؟ اصل میں ہماری حکمران اشرافیہ نے کبھی غریب عوام کو انسان سمجھا ہی نہیں اگر انھیں انسان سمجھا جاتا تو انھیں ان کی محنت کا کم ازکم معاوضہ اتنا تو دیا جاتا کہ انھیں چائے روٹی، پیاز روٹی سے اپنا پیٹ نہ بھرنا پڑتا۔ جب 54 ارب کا سرمایہ مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھوں میں بددیانتی سے مرکوز ہوجائے گا تو اس ملک کے عوام کو پیاز روٹی سے اپنا پیٹ بھرنا ہی پڑے گا۔
ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں جن کے کارکن بھی غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں بجلی اور پانی کے مسئلے پر روڈ بلاک کرسکتی ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں کھربوں کی کرپشن کے خلاف اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر کیوں نہیں لاتیں۔ 54 ارب کے سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرانے والے نہ مزدور ہیں نہ کسان، نہ سیاسی کارکن اس بھاری کرپشن کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی غریب ہی ہوتے ہیں کیا انھیں ایک آسودہ زندگی گزارنے کا حق نہیں؟ یہ حق ہمارے ملک کی اشرافیہ غصب کر رہی ہے۔
مذہبی جماعتیں منظم ہیں ان کے کارکن قیادت کے فیصلوں پر دل و جان سے عمل کرنے والے ہیں بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج بہت جائز ہے لیکن بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور عوام کی زندگی کو جہنم بنانے والے شیطانوں کے خلاف کارکنوں کو سڑکوں پر لانا اور پرامن احتجاج کرنا ضروری نہیں؟