’’ نیوکلیئر ٹائی ٹینک‘‘

ندیم سبحان میو  اتوار 20 مئ 2018
ماضی کے مقابلے میں انسان آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے سہارے قدرت کے ان گنت رازوں سے واقف ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

ماضی کے مقابلے میں انسان آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے سہارے قدرت کے ان گنت رازوں سے واقف ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

کئی ترقی یافتہ ممالک بجلی حاصل کرنے کے روایتی ذرایع جیسے کوئلے سے چلنے والے اور ایٹمی بجلی گھروں سے نجات پانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ ان کا سارا زور ماحول دوست ذرایع سے بجلی پیدا کرنے پر ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ دھوپ اور ہوا کی توانائی کو کام میں لارہے ہیں۔

یہ ممالک شمسی پینلز اور ونڈٹربائن پر انحصار بڑھا رہے ہیں اور روایتی ذرایع سے بجلی کی پیداوار گھٹاتے جارہے ہیں۔ کئی اقوام بجلی کی پیداوار میں تیل، کوئلے اور ایٹمی توانائی کا استعمال ترک کرچکی ہیں۔

جرمنی نے ایٹمی بجلی گھروں سے چھٹکارا پانے کے لیے 2022ء کا سال مقرر کیا ہے۔ تاہم دنیا کی ایک بڑی طاقت روس نیوکلیائی توانائی پر انحصار کم کرنے کے بجائے بڑھا رہا ہے۔ یہ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کررہا ہے۔ خشکی پر بجلی گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سطح سمندر پر تیرنے والے ایٹمی بجلی گھر بھی بنائے جارہے ہیں۔’’نیوکلیئر ٹائی ٹینک‘‘ ایک ایسا ہی روسی بجلی گھر ہے جو ایک بہت بڑے بحری جہاز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر دیوقامت بحری جہاز کو پاورپلانٹ کی شکل دی گئی ہے۔ دیکھنے میں یہ تاریخی ٹائی ٹینک جہاز سے مشابہ ہے۔ اسی بنا پر اسے ’’نیوکلیئر ٹائی ٹینک‘‘ کی عرفیت دی گئی ہے۔ اس کا اصل نام Akademik Lomonosov ہے۔ یہ پاور پلانٹ روس کے انتہائی شمال اور مشرق میں واقع دورافتادہ علاقوں کو بجلی مہیا کرے گا۔

سطح سمندر پر ڈولتا روس کا پہلا بحری بجلی گھر کئی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔ اس کی صورت میں قطب شمالی میں واقع دوردراز علاقوں کو بجلی کی فراہمی پر آنے والی لاگت نمایاں طور پر کم ہوگئی ہے۔ خشکی پر بجلی گھر کی تعمیر اور پھر وہاں مشینری کی منتقلی اور تنصیب میں کثیرلاگت آنی تھی جو اس ’’نیوکلیئر ٹائی ٹینک‘‘ کی وجہ سے کئی گنا کم ہوگئی۔ دوسری بات یہ کہ متحرک بجلی گھر کو ضرورت کے مطابق کہیں بھی لے جایا جاسکے گا۔ نیوکلیئر ٹائی ٹینک کی لمبائی 472 فٹ اور چوڑائی 98 فٹ ہے۔ عملے کی تعداد 69 ہے۔ اس کی پیداواری گنجائش 70 میگاواٹ ہے۔

اکادمک لومونوسوف سنکت پیٹرزبرگ کے شپ یارڈ میں تعمیر کیا گیا۔ جہاز پر ایٹمی ری ایکٹر ابتدائی طور پر یہیں نصب کیا جانا تھا، مگر حفاظتی نقطۂ نظر سے اب بحر منجمد شمالی ہی میں اس پر ری ایکٹر نصب کیا جائے گا اور اس کی آزمائش کی جائے گی۔

اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو پھر یہ بجلی گھر روس کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوگا مگر ایٹمی ماہر اور ماہرین ماحولیات خدشات کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی قدرتی آفت کے نتیجے یہ بجلی گھر ایک نیا ماحولیاتی المیہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کے ماہر برائے وسطی اور شمالی یورپ جان ہیورکمپ کہتے ہیں کہ سونامی یا کسی بھی دوسری قدرتی آفت کے نتیجے میں یہ متحرک بجلی گھر دوسرا چرنوبل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

چرنوبل کا حادثہ اپریل 1986ء میں ہوا تھا جب روسی شہر پرییپات میں واقع چرنوبل ایٹمی پلانٹ میں ری ایکٹر دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں بڑی مقدار میں تاب کار مواد کا اخراج ہوا تھا۔ یہ تاب کار مواد ہوا میں شامل ہوکر یوکرین اور یورپ کے کئی ملکوں تک پھیل گیا تھا۔ اس حادثے میں فوری طور پر اکتیس ہلاکتیں ہوئی تھیں جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق تاب کار مواد کی ہلاکت خیزی سے آنے والے برسوں میں ہلاک ہونے والے انسانوں کا اندازہ دس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان لگایا گیا۔

بحری بجلی گھر بنانے والی کمپنی روساتوم نے کسی بھی حادثے کے امکان کو رد کردیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ لومونوسوف کی تیاری میں حفاظت کے پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ متحرک ایٹمی بجلی گھر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مقررکردہ معیارات پر پورا اترتا ہے اور ماحول کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

روس بحری جہاز پر بنے ہوئے ایٹمی بجلی گھروں کی افادیت کے پیش نظر ایسے مزید یونٹ بنانا چاہتا ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق دوسرا تیرتا ہوا ایٹمی بجلی گھر آئندہ برس تیار ہوجائے گا۔ روسی حکومت کو یہ تجویز بھی دی جارہی ہے ایسے مزید بجلی گھر تیار کرکے دوسرے ممالک کو فروخت کیے جائیں تو کثیرزرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔

اکادمک لومونوسوف دنیا کا پہلا تیرتا ہوائی ایٹمی بجلی گھر نہیں ہے۔ اس نوع کا اولین بجلی گھر ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی فوج کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ایٹمی بجلی گھر کی پیداواری گنجائش دس میگاواٹ تھی اور یہ 1976ء تک امریکی فوج کو بجلی فراہم کرتا رہا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ایٹمی بجلی گھر میں نصب ری ایکٹر کو ناکارہ بنانے اور اس کے حصے علیٰحدہ کرنے کا عمل چار دہائیاں گزرنے کے باوجود جاری ہے۔ اس کی وجہ بجلی گھر میں تاب کاری کی انتہائی بلند سطح کا ہونا ہے۔

مریخ ایک اور خلائی جہاز کی میزبانی کے لیے تیار

InSight سُرخ سیارے کی تخلیق کے بارے میں معلومات حاصل کرے گا

زمین کا ہم سایہ مریخ خلائی تحقیق دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے۔ زمانۂ قدیم میں فلکیات داں انفرادی طور پر خلائی اسرار کو سمجھنے کی سعی کیا کرتے تھے۔ پھر گذشتہ صدی میں جب ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا اور طاقت وَر ممالک میں خلائی تحقیق کے ادارے قائم ہوگئے اور وسائل بھی میسر ہوئے تو اجتماعی طور پر خلائی رازوں سے پردہ اٹھانے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں مصنوعی سیارے، راکٹ اور خلائی جہاز بنائے گئے تاکہ انسان ازخود ارضی مدار میں اور اس سے بھی پرے جاکر اسرارکائنات کو سمجھنے کے قابل ہوسکے۔

ماضی کے مقابلے میں انسان آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے سہارے قدرت کے ان گنت رازوں سے واقف ہوچکا ہے مگر اب بھی بہت کچھ اس کے فہم و ادراک سے باہر ہے، کیوں کہ یہ کائنات اتنی وسیع ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ خلائے بسیط کی وسعتوں میں جانے کیا کیا پنہاں ہے۔ انسان اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ اس کائنات میں جس کی انتہا اس کے ادراک سے باہر ہے، وہ تنہا نہیں ہے، زندگی کسی نہ کسی صورت کرۂ ارض سے باہر بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔

ٹیکنالوجی کے سہارے وہ خلائی مخلوق کو تلاشنے کی سعی کررہا ہے۔ اس ضمن میں زمین کا پڑوسی سیارہ اس کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریخ کی جانب چار عشروں کے دوران چودہ خلائی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔ ان میں سے چار آج بھی ’ سرخ سیارے‘ کی سرزمین پر تحقیق میں مصروف ہیں۔ یہ سب کی سب روبوٹک گاڑیاں ہیں کیوںکہ انسان اب تک چاند سے آگے نہیں جاسکا۔ ان گاڑیوں کا رابطہ ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے زمینی مراکز سے ہے۔ تحقیقی خلائی گاڑیوں نے مریخ کے بارے میں زمین پر قیمتی معلومات ارسال کی ہیں۔ مریخ پر برف کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ سائنس داں حاصل شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ماضی میں مریخ پر سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔

مریخ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی غرض سے اب امریکا اور یورپ نے مشترکہ طور پر ایک اور خلائی مشن روانہ کردیا ہے۔ یہ مشن ایک روبوٹک تحقیقی گاڑی اور دو مصنوعی سیاروں پر مشتمل ہے۔ اس خلائی گاڑی یا خلائی جہاز کو InSight  کا نام دیا گیا ہے۔ یہ روبوٹک گاڑی مریخ کی اندرونی سطح کا تجزیہ کرے گی۔ جدیدآلات سے لیس یہ محقق روبوٹ مریخ کی زمین میں سولہ فٹ تک گڑھا کھود سکے گا۔ زمین کی گہرائی میں سے مٹی، پتھر اور دوسرے اجزا حاصل کرنے کے بعد ان کا تجزیہ کرے گا۔ جہاز پر نصب انتہائی حساس کیمروں کے ذریعے ناسا کے مرکز میں بیٹھے ہوئے سائنس داں براہ راست روبوٹک گاڑی کی کارروائی کا مشاہدہ کرسکیں گے اور بہ وقت ضرورت اسے ہدایات بھی دے سکیں گے۔ مٹی، پتھر اور دوسرے مواد کے تجزیے سے سائنس دانوں کو امید ہے کہ مریخ اور اس جیسے دوسرے چٹانی سیاروں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں گی۔

ان سائٹ کا قطر 20 فٹ اور وزن 360 کلوگرام ہے۔ جدید آلات سے لیس یہ روبوٹ اسپیس کرافٹ سرخ سیارے کی سطح پر 26نومبر کو اترے گا۔ قبل ازیں مریخ کی زمین کو چھے برس قبل کسی خلائی جہاز نے چُھوا تھا۔

ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری کے چیف سائنٹسٹ بروس بینرڈٹ کہتے ہیں کہ مریخ زمین کے مقابلے میں چھوٹا اور ارضیاتی طور پر کم فعال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیارے پر ابتدائی ارتقائی مراحل کے شواہد موجود ہوں گے جن کے ذریعے مریخ اور اس سے مشابہ سیاروں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔

اس مشن میں بریف کیس جتنی جسامت کے حامل دو مصنوعی سیارے بھی ان سائٹ کے ہمراہ ہیں۔ خلا میں پہنچنے کے بعد یہ ان سائٹ سے علیٰحدہ ہوکر اسی سمت میں سفر جاری رکھیں گے۔ گویا یہ خلائی جہاز کے تعاقب میں رہیں گے۔ ان سائٹ مریخ پر اترجائے لیکن یہ مصنوعی سیارے جنھیں  CubeSatsکا نام دیا گیا ہے، اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ مصنوعی سیارے بھیجنے سے سائنس دانوں کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ آیا مریخ پر اترتے ہوئے خلائی جہاز کے ساتھ ان مصنوعی سیاروں کا مواصلاتی رابطہ برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔