اسرائیل کی پھیلتی سرحدیں

سید عاصم محمود  اتوار 27 مئ 2018
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کئی بار مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کئی بار مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی۔ فوٹو: فائل

یہ 2017ء کے اوائل کی بات ہے، اسرائیل کے بیس یہودی خاندانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ امونا نامی علاقے میں نئی بستی تعمیر کریں گے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے (ویسٹ بینک) میں واقع ہے۔ مغربی کنارا مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست میں شامل ہونا ہے۔ اسی لیے اسرائیل میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم بستی کی تعمیر رکوانے کے لیے اپنے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔

مقدمہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے عیسائی جج، سلیم جبران کے سامنے پیش ہوا۔ جج صاحب کو بخوبی علم تھا کہ مغربی کنارے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ ہے مگر اس نے کھلے عام انصاف اور قانون کا خون کر ڈالا۔ جسٹس سلیم جبران نے قرار دیا کہ مغربی کنارے میں جس زمین پر بھی انسانی آبادی موجود نہیں، اسے اسرائیلی حکومت اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ اس زمین پر پھر یہودی بستیاں بن سکتی ہیں یا اسرائیلی حکومت چاہے تو کچھ بھی تعمیر کرلے۔

اسرائیل کے سپریم کورٹ نے گویا شرمناک کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت دے دی۔ جسٹس سلیم جبران نے یہ بھی قرار دیا کہ مغربی کنارے میں آباد تمام اسرائیلی باشندے اسرائیل کے شہری ہیں۔ لہٰذا اسرائیلی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف انہیں زندگی کی تمام سہولیات فراہم کرے بلکہ ان کی حفاظت کا بھی پورا بندوبست کردے۔

دنیا کے تمام ممالک میں لوگوں کو اپنی عدالتوں سے بالعموم انصاف مل جاتا ہے۔ اسرائیل شاید واحد ملک ہے جہاں عدالتیں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرنے میں اپنی ظالم حکومت کا بھر پور ساتھ دیتی ہیں۔ جسٹس سلیم کے حکم پر اب اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بنی تمام یہودی بستیوں کی سکیورٹی کے لیے غیر معمولی اقدامات کررہی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مغربی کنارے میں ’’چھوٹے چھوٹے اسرائیل‘‘ جنم لے رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ یہودی بستیاں مل کر اسرائیلی مملکت میں شامل ہو جائیں گی۔

اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی لیڈر دراصل فلسطین کے علاقوں،مغربی کنارے اور غزہ کو اپنی مملکت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں یہ علاقے یہودکی مملکتوں… یہودا اور سامریہ کا حصہ تھے۔ لہٰذا ان کٹر اسرائیلی لیڈروں کی بھر پور کوشش ہے کہ مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر اسرائیل قابض ہوجائے۔ یہ قبضہ کرنے کا نمایاں ترین طریق کار یہ ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستی بسالی جائے۔

مغربی کنارے کا رقبہ 5655 مربع کلو میٹر ہے۔ علاقے میں تقریباً 33 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 85 فیصد مسلمان ہیں، 12 فیصد یہودی اور بقیہ عیسائی۔ اقوام متحدہ نے 1947ء میں مغربی کنارے کو مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل کیا تھا۔ مگر عربوں نے اقوام متحدہ کا پلان مسترد کردیا۔ بعدازاں اردن کی فوج نے مغربی کنارے میں ڈیرے ڈال دیئے۔

1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا۔ تب سے وہ اس علاقے پر قابض چلا آرہا ہے۔ مغربی کنارے کے کچھ علاقوں میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت ہے مگر درحقیقت یہ برائے نام ہے۔ اسرائیل جب چاہے مغربی کنارے میں ہر قسم کے اقدامات کرسکتا ہے۔ گویا علاقے کی اصل حاکم اسرائیلی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے، اسرائیلی حکومت نے اپنے یہودی شہریوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اپنی بستیاں قائم کرلیں۔ مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننا ہے۔ اسی خطے میں مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام بھی واقع ہے۔

عام مسلمان مگر نہیں جانتے کہ اسرائیلی حکومت نہایت عیاری اور چالاکی سے مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کا رقبہ ہتھیا رہی ہے۔ یوں وہ اپنی سرحدیں زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہتی ہے۔ ایک مدعا یہ بھی ہے کہ بالفرض مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست بن بھی جائے، تو وہ اتنی کمزور ہوکہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔

یہ سچائی تو اب سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام زمین کی خرید و فروخت کے عمل سے وجود میں آیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں امیر کبیر یہود نے فلسطینی مسلمانوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں اور پھر وہاں یہودی گھرانے لا بسائے۔ اس طرح ارض فلسطین میں یہود کی آبادی بڑھنے لگی۔ آخر چند ہی عشروں میں آبادی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ وہ اپنی مملکت بنانے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہ خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں یہود کے ساتھ پورا تعاون کیا۔اب اسرائیلی یہودی مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر بھی زمین کی خریدو فروخت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقبے پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ایک عام حربہ یہ ہے کہ چند یہودی خاندان مغربی کنارے میں غیر آباد رقبے پر جا بستے ہیں۔ وہ قرب و جوار میں فصل اگاتے یا باغ لگاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ دیگر یہودی خاندان وہاں آجاتے ہیں۔ یوں بستی کے حجم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ آخر کار اسرائیلی حکومت یہ آڑ لے کر انہیں سہولیات زندگی بہم پہنچانے لگتی ہے کہ وہ اسرائیلی شہری ہیں۔ یوں وہ بستی آخر کار اسرائیل کی ملکیت قرار پاتی ہے۔

پچھلے پچاس برس کے دوران درج بالا طریق واردات کی مدد سے مغربی کنارے میں ’’125‘‘ یہودی بستیاں وجود میں آچکیں جن میں تقریباً چار لاکھ اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔ ان بستیوں میں سے چار تو ’’شہر‘‘ کا درجہ پاچکی۔ دیگر بستیوں میں بھی یہود کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ نیز مزید یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ بھی کھلے عام جاری ہے۔ مغربی کنارے میں بعض اوقات مسلمان پیسے کے لالچ میں اپنی زمینیں یہود کو فروخت کردیتے ہیں۔ مگر اب فلسطینی مسلمانوں کے درمیان یہود کو زمین فروخت کرنے والا مسلمان ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ اس کو غدار سمجھا جاتا ہے کیونکہ یوں وہ ارض فلسطین پر قبضہ جمانے میں یہود کی مدد کرتا ہے۔ معاشرتی بائیکاٹ سے بچنے کی خاطر ہی اب مغربی کنارے میں شاز ہی کوئی مسلمان یہود کو زمین فروخت کررہا ہے۔ یہود تاہم بے آباد زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں اور اس ناجائز، غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل میں انہیں اسرائیلی حکومت کی بھر پور مدد حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کئی بار مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی مگر اسرائیلی حکومت کھلے بندوں ان کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔وجہ یہی کہ اسے سپر پاور امریکا کی عیاں اور اکثر یورپی مملک کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ویسے بھی اسرائیل بذات خود ایک خطرناک عسکری طاقت بن چکا ہے۔ اسرائیلی سائنس داں دن رات تحقیق و تجربات کے ذریعے نت نئے ہتھیار ایجاد کر رہے ہیں۔

اب وہ ایسی فوجی طاقت ہے  کہ صرف سپر پاورز ہی میدان جنگ میں اس سے ٹکر لے سکتی ہیں۔افسوس ناک امر یہ کہ ترکی اور چند دیگر ملکوں کے حکمرانوں کو چھوڑ کر عالم اسلام کے بقیہ حکمران اپنی سرگرمیوں میں مست الست ہیں۔وہ زیادہ سے زیادہ اسرائیل کے خلاف مذمتی بیان دیتے ہیں۔بہت ہوا تو او آئی سی کی کانفرنس میں شرکت کر لی۔ایسی کانفرنسوں کا نتیجہ ڈھاک کے پات ہی نکلتا ہے۔فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل دیدہ دلیری سے مظالم ڈھا رہا ہے اور عالم اسلام میں کوئی مائی کا لعل نہیں جو اس کو روک سکے۔

ایساکوئی حکمران نہیں جو ارض فلسطین میں یہودی بتسیوں کی ناجائز و غیر اخلاقی تعمیر رکوا دے۔عالم اسلام کے حکمرانوں کے بے عملی اور بے حسی کی وجہ ہی سے اسرائیل نواز امریکی صدر،ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر دے۔اقوام متحدہ کی رو سے بیت المقدس ایک غیر جانب دار علاقہ ہے۔ مگر امریکا کے بظاہر قانون پسند اور انسانی حقوق کے نام لیوا حکمران طبقے نے اقوام عالم کے بنائے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔وہ تو اسرائیلی حکومت کا یہ نقطہ نظر مانتا ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارلحکومت ہے۔

فلسطینی مسلمان پورے یروشلم نہیں صرف مشرقی بیت المقدس کو اپنی آزاد فلسطینی ریاست کا داراحکومت بنانا چاہتے ہیں۔وہ اس لیے کہ یہیں مسجد الاقصی اور قبہ الصخرہ واقع ہیں۔ لیکن مشرقی بیت المقدس پہ مکمل قبضے کی خاطر اسرائیلی حکمران طویل عرصے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔

1967ء میں قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے سب سے پہلے مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمانوں پر مختلف قوانین زبردستی ٹھونس دئیے۔ان کا مقصد اسلامیوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانا تھا۔اور مدعا یہ تھا کہ مسلمان آخر تنگ آ کر مشرقی بیت المقدس سے چلے جائیں۔مذید براں بھاری معاوضہ دے کر مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا پرانا حربہ بھی آزمایا گیا۔جو فلسطینی کمزور تھے،انھیں ڈرا دھمکا کر ان سے زمینیں چھین لی گئیں۔

جب اسرائیل مشرقی بیت المقدس پہ قابض ہوا تو وہاں دو تین ہزار یہودی رہتے تھے۔بقیہ مغربی بیت المقدس چلے گئے تھے۔آج اس علاقے میں ’’دو لاکھ‘‘یہود بستے ہیں… اور یہ تمام یہودی ان زمینوں پر آباد ہیں جن کے مالک کبھی فلسطینی مسلمان تھے۔گویا اسرائیلی حکومت نے نہایت عیارانہ طریقے سے مسلمانوں کو مشرقی بیت المقدس سے بے دخل کیا اور ان کی زمین وجائیداد پر قابض ہو گئی۔زمینوں پر ایسے شاطرانہ انداز میں قبضہ جمانے کی مثال انسانی تاریخ میں کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔

آج مشرقی بیت المقدس میں تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔مگر اسرائیلی حکومت نے مختلف حربے اپنا کر ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔اسی لیے ہر سال بہت سے فلسطینی خاندان اپنا گھر بار اونے پونے داموں بیچ کر مغربی کنارے یا غزہ چلے جاتے ہیں۔چناں چہ مشرقی بیت المقدس میں مسلم آبادی رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔یہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ اس طرح مستقبل میں وہاں یہود کی آبادی بڑھ جائے گی اور اسرائیلی حکومت کا یہی تو مقصد ہے۔یوں اگر آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہود کی اکثریت کے باعث مشرقی بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانا بہت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔

صورت حال سے آشکارا ہے کہ اسرائیل بڑی عیاری وہوشیاری سے بتدریج مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قابض ہو رہا ہے۔اس کی سرحدیں مسلسل پھیل رہی ہیں اور دنیا بھر میں مسلمان غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔مغربی کنارے میں الفتح تنظیم کی حکومت ہے۔اس کے حکمران زبانی کلامی تو اسرائیلی حکمرانوں پر خوب برستے ہیں مگر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے ایک ٹھوس قدم بھی نہیں اٹھا پاتے۔اہم نکتہ یہ کہ الفتح لیڈر اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کے خلاف عملی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ان کے طرزعمل سے ظاہر ہے کہ الفتح لیڈر اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور عوام کو سڑکوں پر لے آئے تو اسرائیلی حکومت ان کی حکومت ختم کر ڈالے گی۔یوں وہ تمام مراعات اور آسائشات زندگی سے محروم ہو جائیں گے۔

غزہ میں اسلامی تنظیم،حماس کی حکومت ہے۔اس کے لیڈر ذاتی مفادات پر اُمت کے مقاصد کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً اسرائیل کے خلاف پرزور احتجاج کرتے ہیں۔حال ہی میں جب بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو غزہ میں ہزارہا مسلمانوں نے اس موقع پر زبردست احتجاج کیا۔تب اسرائیلی فوجی بھوکے کتوں کی طرح ان پہ پل پڑے۔نہتے ہوتے ہوئے بھی دلیر فلسطینی مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھائیں اور دنیا والوں بالخصوص عالم اسلام کے بے حس ہم مذہبوں کے دلوں اور ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔

سچ یہ ہے غزہ اور مغربی کنارے میں بستے لاکھوں فلسطینی مسلمان ایک دیوہیکل قید خانے میں نہایت تکلیف دہ اور مشکلات سے پُر زندگی گذار رہے ہیں۔اپنے لیڈروں کی نااہلی اور عالم اسلام کی بے حسی کی وجہ سے ان کا مستقبل بھی خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔اب تو روایتی طور پر ان کے دوست عرب ممالک کا جھکاؤ بھی اسرائیل کی جانب ہو رہا ہے۔ایسے معاندانہ حالات میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا  ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔