کعبے میں جنت کھوگئی۔۔۔

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم  اتوار 10 جون 2018
حرم شریف میں لوگ لیلتہ القدر کی تلاش میں تھے، مگر میں  ماں جی کی تلاش میں مارا مارا پِھر رہا تھا۔ فوٹو : فائل

حرم شریف میں لوگ لیلتہ القدر کی تلاش میں تھے، مگر میں  ماں جی کی تلاش میں مارا مارا پِھر رہا تھا۔ فوٹو : فائل

خانۂ کعبہ میں عصر کی نماز کے بعد روزہ افطار کرنے میں کوئی 30 منٹ باقی ہیں اور 22 واں روزہ ختم ہو نے کو ہے ۔۔۔۔ جی میں آیا کہ مستورات والے حصہ میں جا کر ذرا اپنی بزرگ ماں جی کو دیکھ لیا جائے تاکہ افطاری کے متعلق طے کر لیں کہ کس نے کہاں افطاری کرنی ہے۔ چناںچہ حرم کعبہ کے زنان خوانے میں جب میں گیا تو ماں جی مجھے نظر نہ آئیں، اسی لمحہ مجھے ایسا لگا کہ آج کچھ ہونے والا ہے ، طبیعت پہلے ہی نہ جانے کیوں طواف اور سعی کے دوران مضطرب سی رہی تھی اب دل بھی کچھ بوجھل سا ہوئے جا رہا تھا حرم شریف کے برآمدے گھوما مگر لاحاصل، اسی اثنا افطاری ہو گئی ، سچی بات ہے کہ ماں جی کی عدم موجودگی میں اور خانہ کعبہ میں روزہ افطار کرتے وقت ایک کھجور اور فقط 2 گھونٹ آب زم زم ہی ہی خالی پیٹ میں اتر سکے ۔۔۔

اسی اثنا میں خانہ کعبہ میں مغرب کی جماعت  کھڑی ہو گئی، نماز میں دل نہ لگا، سچی بات ہے کہ بھول ہی گیا تھا کہ میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہوں کیوںکہ میری ساری توجہ تو اپنی ماں جی کی طرف لگی ہو ئی تھی۔ جنت ارضی (مدینہ المنورہ) سے پہلے تو مجھے میرے اپنے ہمزاد نے نکال کر دم لیا تھا ، اب میری اپنی جنت (یعنی ماں جی) کو بھی مجھ سے جدا کر دیا گیا ہے، بہت سٹپٹایا کہ یہ کیا ہو گیا ہے، مدینہ شریف سے نکل جانے کا زخم ابھی بھرا نہیں تھا کہ مجھے ایک اور صدمے نے آن گھیرا کیوںکہ دونوں جنتیں جو مجھ سے جدا ہوگئی تھیں۔ عشاء اور تراویح ادا کیے کوئی گھنٹہ بیت چلا تھا، حرم کعبہ کا ایک ایک کونہ چھان مارا تھا، مگر گم شدہ ماں جی کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔

باب صفا کے نزدیک گُم شدہ چیزوں کی تلاش میں ایک دفتر موجود ہے جہاں لوگ آتے ہیں اور اپنی اپنی چیزیں تلاش کر کے لے جاتے ہیں، مگر ۔۔۔ مگر (میں سوچنے لگا) ۔۔۔ ماں جی کوئی چیز تو نہیں ہیں جو میں باب صفاء میں واقع اس دفتر میں جا کر تلاش کروں! وہ تو ماں جی ہیں ۔۔۔ میری ماں جی ۔۔۔جو اپنی بھوک بڑھالیتی تھیں مگر میری بھوک بڑھنے نہ دیتیں۔ خود صدمے سہہ لیتیں تھیں مگر مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو اپنی آغوش میں محفوظ رکھتیں ۔۔۔ جہاں ہمیں کوئی ڈر نہ لگتا، کوئی خوف طاری نہ ہوتا، بھلا جنت کی آغوش میں بھی کوئی ڈرتا ہے۔

شب کے 12 بج چکے ہیں اور میں مسلسل اسی سوچ میں ہوں کہ وہ بھی میری تلاش میں کہیں ماری ماری نہ پھر رہی ہوں اور نہ جانے افطاری کے وقت ماں جی نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں۔ بالکل بھی نہیں کھایا ہوگا (میرا دل بول اٹھا تھا ۔۔۔۔ کیسے خاموش رہتا ۔۔۔ کسی کی جنت کا معاملہ ہو اور وہ خاموش رہے کبھی نہیں ہو سکتا ۔۔۔ کہہ رہا تھا۔۔۔) کہ انہیں ڈھونڈو ۔۔۔۔ انہیں تلاش کرو ۔۔۔کیا اکیلے پاکستان جانا گوارہ کرلو گے! نہیں ۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔بلکہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ۔۔۔ میں اٹھا ۔۔۔۔ میں دوڑا ۔۔۔ ۔۔۔صفاء کے مقام پر پہنچا ۔۔۔۔ گم شدہ اشیاء کے لیے تعمیر کیے جانے والے دفتر میں پرس، ٹوپیاں، بریف کیس، پاسپورٹ، نقدی اور روتے بچوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا ۔۔۔ کوئی پاکستانی خاتون کہیں بھی نظر آتی ۔۔۔۔ بھاگا اس کے پاس جاتا ۔۔۔ ماں جی کی گم شدگی کے متعلق بتاتا ۔۔۔ پاسپورٹ پر لگی ان کی تصویر دکھاتا ۔۔۔ مگر ہر ایک کی گردن پنڈولم کی طرح دائیں بائیں گھوم جاتی ۔۔۔ جی میں آیا کہ حرم شریف کے منتظمین کے پاس چلا جائے ۔۔۔ شاید لائوڈ اسپیکر سے کیا جانے والا اعلان میری جنت اور مجھ میں حائل فاصلے کو کم کرنے میں مدد دے دے ۔۔۔۔اور ماں جی مجھ سے مل سکیں ۔۔۔مگر منتظمین لائوڈ اسپیکر میں اعلان کے لیے راضی نہ ہوئے ۔۔۔ چناںچہ میں تھک ہار کر حرم کعبہ کے برآمدوں میں جا بیٹھا ۔۔۔۔

سوچ ابھری کہ ماں جی ۔۔۔۔کہیں وضو کرنے کے لیے حرم شریف کے ایک طرف بنائے جانے والے 2 منزلہ غسل خانے میں نہ چلی گئیں ہوں جو خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ جیسے سوچ پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی اسی طرح پھر سوچ ابھرتی کہ کہیں ماں جی کسی غسل خانے میں یا استنجا خانے میں ہی بیٹھی نہ رہ گئی ہوں ۔۔۔۔ 2 منزلہ زمین دوز غسل خانے کی اس عمارت میں جہاں مردوں کا داخلہ قطعی بند ہے ۔۔۔ پتا نہیں وہ کس منزل پر ہوں ۔۔۔ کہاں بیٹھی ہوں ۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا (مجھے جھرجھری سی آئی) ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔میرا دعویٰ ہے بلکہ یقین ۔۔۔ بلکہ میرا ایمان ہے کہ ماں جی اپنی زندگی کی آخری سانسیں اس جگہ نہیں لے سکتیں ۔۔۔ بلکہ وہ تو پاک صاف اور منزہ کاموں میں زندگی بھر مصروف رہی ہیں ۔۔۔ اپنے بچوں کو امتی بننے کا درس دیتی رہی ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی سانسوں کو بھی محبوب العٰلمین ﷺ کی محبت کے لیے وقف کر رکھا ہے ، ایسے میں ان کی زندگی کے آخری سانس یہاں اس غسل خانے میں لی جائیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ ہرگز نہیں ہو سکتا۔

رات کے 2 بج چکے ہیں ۔۔۔حرم شریف کے ارد گرد مسجد کے اندر باہر کوئی جگہ ایسی نہ ہو گی جہاں والدہ محترمہ کی تلاش مجھے نہ لے کر گئی ہو ۔۔۔۔ اپنی مدد کے لیے جدہ میں مقیم اپنے چچا لعل دین سے بھی رابطے کی کوشش کی جو بے سود رہی ۔۔۔۔ادھر والدہ کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کہ وہ کس حال میں ہیں ۔۔۔ اب اب میں کہاں جائوں ۔۔۔ ماں جی کہاں تلاش کروں ۔۔۔ یا رئوف جل جلالہ ۔۔۔ مجھ سے کون سی غلطی سرزد ہو گئی ہے ۔۔۔اپنے گھر بلا کر مجھے کن گناہوں کی سزا دی جارہی ہے ۔۔۔۔یہ تو امان والی جگہ ہے ۔۔۔میرا تو یہاں سکون بھی چھن گیا ہے ۔۔۔ مجھے رسوا تو نہ کرو ۔۔۔۔پاکستان میں میرے گھر والے ۔۔۔ میرے رشتہ دار ۔۔۔مجھے کیا کہیں گے ۔۔۔کہ اپنی والدہ کی بھی دیکھ بھال نہ کرسکا ۔۔۔ وہ بزرگ تھیں ۔۔۔ بڑھاپے میں تھیں ۔۔۔۔تم تو نوجوان تھے ۔۔۔۔تم نے انہیں اکیلا کیوں چھوڑا۔

یا باری تعالیٰ ۔۔۔۔یا قوی جل جلالہ ۔۔۔اب کیا کروں! بندہ مر کھپ جائے تو دل کو تسلی ہوجاتی ہے ۔۔۔۔چین مل جاتا ہے ۔۔۔کہ تو نے اپنی امانت واپس لے لی ۔۔۔۔اور پھر حجاز مقدس میں دفن ہونا تو مومن کے لیے ایک بہت بڑی سعادت سمجھا جاتا ہے ۔۔۔اور لوگ تو اس سعادت کے حصول کے لیے ترستے بلکہ تڑپتے رہتے ہیں ۔۔۔ مگر گم شدہ بندوں کے لواحقین تو زندہ درگور ہو جاتے ہیں ۔۔۔ نہ مرتے ہیں ۔۔۔ نہ جیتے ہیں ۔۔۔۔نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ۔۔۔۔نہ سوتے ہیں نہ جاگتے ہیں ۔۔۔بس گھر کے آنگن پر آنکھیں لگائے رکھتے ہیں ۔۔۔کہ کھو جانے والا بندہ اب آیا کہ اب آیا ۔۔۔۔اور پھر ہمیں کیا خبر کہ تو نے اپنے امانت واپس بھی لی ہے کہ نہیں۔

بندے کی اہمیت اگر جانچنا ہو تو تو اسے تھوڑی دیر کے لیے گم کر کے دیکھیں ۔۔۔ کن کن محسوسات سے سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔۔۔گویا گم ہو جانے والی چیز ۔۔۔ بندے کے بند بند میں رچی بسی رہ جاتی ہے ۔۔۔اس وقت ماں جی بھی میرے بند بند میں موجود تھیں، جنھیں مجھ سے بچھڑے اور اللہ کے گھر حرم شریف میں زائرین کعبہ کے ہجوم میں گم ہوئے کوئی 10 گھنٹے ہوچلے ہیں جب کہ طاق رات کی بناء پر حرم شریف میں فرزندان اسلام کی تعداد کوئی 8لاکھ سے تجاوز ہو چکی ہے ۔۔۔ 8 ہزار کے مجمعے میں اگر کوئی بندہ کھو جائے تو اس کا ملنا محال ہوجاتا ہے اور جب بندہ 8 لاکھ کے مردوزن میں گھر جائے تو اس کاملنا کسی کرشمے سے کم نہیں ہوتا اور انہونی باتیں تو المقتدر جل جلالہ کے برگزیدہ بندوں کے دم سے ہی نظر آتی ہیں۔

پچھلے 10 گھنٹوں سے میں بھی کسی کرشمے کامنتظر تھا مگر اپنی عصیاں کاری کی بدولت القادر جل جلالہ کا قرب نہ پا سکا تھا، تبھی تو ماں جی مجھ سے جدا ہوگئی تھیں ۔۔۔۔کرشمہ تو بڑی دور کی بات ہے مگر اتنا ضرور ہوا کہ مجھے ہر عورت کے چہرے پر ماں جی کی شباہت کا گمان ہونے لگتا مگر قریب جانے پر اس چہرے سے ماں جی کے خدوخال غائب ہو جاتے ۔۔۔ایک ہی جگہ سے بار بار گزرنے پر کئی عورتوں نے مجھے پہچاننا بھی شروع کر دیا تھا اور دل ہی دل میں میرے بارے ہم دردانہ تاثرات اپنے چہرے پر بھی لانے کی کوشش کرتی رہتیں۔

امام کعبہ کے پیچھے تہجد کی نماز پڑھی۔ امی کی تلاش میں پھر نکلنے لگا ۔۔۔مگر ٹانگوں کے ساتھ اب آنکھیں بھی جواب دے گئی تھیں، ٹانگیں سستانا چاہ رہی تھیں ۔۔۔جب کہ آنسو ۔۔۔ آنکھوں سے ٹپکنے کا جواز ڈھونڈ رہے تھے۔ بابِ عمرؓ کے نزدیک بیٹھ کر میں نے ٹانگوں اور آنکھوں کے ساتھ زبان، سانس اور دل کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے وجود کا ایک ایک عضو، میری تکلیف اور ذہنی اذیت کو محسوس کرکے خود بھی ماتم کررہا ہو، احتجاج کر رہا ہو، پائوں کا کام چلنا ہے، ماں جی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ بے بس تھے، آنکھوں کا کام دیکھنا ہے، والدہ کی بازیابی میں ناکامی پر وہ بھی دھندلے دھندلے سے منظر دکھا کر چہروں کو گڈمڈ کیے جا رہی تھیں، زبان کا کام بولنا ہے، ہر پاکستانی خاتون سے پوچھ پوچھ کر وہ بھی اپنی قوت گویائی کھو بیٹھی تھی۔ اسی طرح دل کے دھڑکنے کا انداز تبدیل ہوگیا تھا۔ اس کی دھڑکن، تڑپ میں ڈھل چکی تھی، پیٹ میں کچھ نہ تھا مگر بھوک اس سے کوسوں دور تھی، آنکھیں نیند لاتی ہیں مگر وہ بھی آس پاس نہ تھی گویا میرا ہر عضو سراپا درد تھا۔

باب عمرؓ کے نزدیک بیٹھا تھا کہ مجھے چچا لعل دین دور کھڑے نظر آئے۔ غیروں کو دیکھتے دیکھتے جب اچانک کوئی اپنا دکھائی دے تو بندے کا رواں رواں کھل اُٹھتا ہے۔ چناںچہ میں خوشی سے اٹھ کر دیوانہ وار ان کی طرف بھاگنے لگا، مگر دوسرے ہی لمحے مایوس ہوکر پھر بیٹھ گیا کہ جس طرح ہر عورت کا چہرہ مجھے ماں جی کا چہرہ دکھائی دیتا تھا اور قریب جا نے پر وہ کسی اور خاتون کی شکل بن جاتی ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے ہی میرے اندر کی خواہش بھی چچا لعل دین کو ہی دیکھنا چاہ رہی ہو اور قریب جانے پر شاید وہ کسی اور کی شکل بن جائے۔ نہیں نہیں (میں خود کلامی میں گویا ہوا) میں چچا لعل دین کے پاس نہیں جائوں گا، بس یہیں بیٹھا رہتا ہوں، یہیں پر میں نہیں چاہتا کہ چچا لعل دین بھی ماں جی کی طرح غائب ہو جائیں۔

“تبسم آئو چلیں، تمھاری والدہ کدھر ہیں!” چچا لعل دین کی آواز گویا میرے مردہ تن میں جان ڈال گئی ہو، آبِ حیات کا کام کر گئی ہو ، میں عالم دیوانگی میں حرم شریف کے فرش سے اٹھا اور چچا جان کہتے ہوئے ان سے لپٹ گیا۔۔۔۔ 12گھنٹوں سے ماں جی کا لاپتا ہونے کا سُن کر چچا لعل دین مجھ سے بھی زیادہ متفکر ہوگئے ان کی بیگم یعنی خالہ جان بھی بے چین ہو کر مطاف کی طرف چلی گئیں کہ شاید ماں جی کہیں اپنے بیٹے کی عدم موجودگی سے پریشان ہو کر اس کی بازیابی کے لیے اللہ کے گھر کی چوکھٹ پر ہی ڈیرے نہ ڈالے بیٹھی ہوں جب کہ چچا جان حرم شریف کے برآمدوں میں گھومنے لگے ۔ ماں جی کی تلاش میں ان دونوں کی موجودگی اور پھر ان کی تگ و دو سے مجھے ایک نیا حوصلہ مل رہا تھا۔ ماں جی کو پانے کی جستجو مجھ میں پہلے سے زیادہ ہوگئی۔

رمضان شریف کی 23ویں شب تھی اور لوگ اللہ کے گھر میں خشوع و خضوع سے حمد و ثناء میں مگن تھے، عبادت کر رہے تھے لیلتہ القدر کی تلاش میں تھے، لیکن خانہ کعبہ میں میرا دل نماز میں بھی نہیں لگ رہا تھا اور چچا لعل دین و خالہ جان کے ساتھ اللہ کے گھر میں مارا مارا پھر رہا تھا، جنت تلاش کر رہا تھا اپنی جنت کا کھوج نکالنا بھی تو کسی عبادت سے کم نہیں۔ ماں جی کو تلاش کرنے میں کئی بار ہم تینوں کا آمنا سامنا ہو جاتا اور ہر کوئی چہرے پر رقصاں مایوسی دیکھ کر آگے بڑھ جاتا۔

صبح کے 4 بج چکے ہیں لوگ اگلا روزہ رکھنے کی تیاریوں میں ہیں مگر میں نے تو ابھی پچھلے روزے کا بھی حال چال نہیں پوچھا تھا۔ سحری کھانے کے لیے زائرین کعبہ تیاریاں مجھے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ خالہ جان اور چچا لعل دین ماں جی کی عدم بازیابی پر مایوسی کے عالم میں چپ چاپ کھڑے تھے سوچ رہے ہوں گے وہ کس عذاب میں پھنس گئے ہیں، کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر تھکاوٹ ان کے چہروں پر بھی نمایاں محسوس کی جا سکتی ہے کہ وہ کب گھر پہنچیں گے اور کب روزہ رکھیں گے۔

مگر ان کا یوں میرے ساتھ ہونا مجھے کسی نعمت سے کم نہیں لگا۔ خانہ کعبہ کی سمت 15،20قدم بڑھا کر حرم شریف کے برآمدے میں کھڑا ہو گیا۔ بیت اللہ شریف کو آنکھوں میں لیا جس سے میری سوچ ، میری توجہ اور میری روح خود بخود رب کعبہ کی جانب مڑ گئی کہنے لگا۔

’’یا مجید جل جلالہ، یا حی جل جلالہ، یا ولی جل جلالہ یا سمیع جل جلالہ ۔۔۔ تو بزرگ ہے ، تو زندہ ہے تو دوست ہے اور تو تو سننے والا ہے۔ میرے پیچھے کھڑے چچا لعل دین اور خالہ جان اس وقت صرف میری وجہ سے پریشان ہیں۔ انہیں ابھی اپنے گھر واقع جدہ بھی پہنچنا ہے اور سحری بھی کرنی ہے۔ اپنی گاڑی پر مکہ سے جدہ ایک گھنٹے کی مسافت ہے 5بج کر 30منٹ پر آج کے روزہ رکھنے کا وقت ختم ہو جانا ہے اور اب گھڑی کی سوئیاں4 بج کر 5 منٹ پر ہیں مزہ تب ہے ماں جی بھی مل جائیں، جدے میں واقع چچا لعل دین کے ہم گھر بھی پہنچ جائیں اور سحری بھی ان کے گھر جاکر ہی کریں، آمین۔‘‘

ہاتھوں کو منہ پر لگایا، آنکھوں کی نمی انگلیوں کے پوروں میں جذب ہوگئی، بائیں طرف مُڑا، چار پانچ قدم کے فاصلے پر حرم شریف کی صفائی کرنے والا دکھائی دیا جو شکل و صورت میں پاکستانی خد و خال لیے ہوئے تھا، میرے قدم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی جانب اٹھنے لگے۔ پاسپورٹ پر چسپاں تصویر اسے دکھا کر ماں جی کے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگا،’’یار! تم کافی دیر سے ادھر ادھر گھوم رہے ہو، اچھا ہم بھی کوشش کرتے ہیں تمھاری والدہ کو ڈھونڈنے کی۔‘‘

حرم شریف میں گزرنے والے18گھنٹوں کی اس کشمکش میں پہلی دفعہ کسی غیر کی زبان سے ہم دردانہ بول سنے تو ایسے لگا کہ جیسے میری بکھری ذات کے سمٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہو ۔۔۔ جیسے مضطرب جسم میں روح واپس پلٹ آئی ہو۔۔۔جیسے صفائی کرنے والے کے بولوں نے کانوں میں رس گھول دیا ہو، بہت مسرور ہو کہ چلو ایک ناواقف نے بھی ماں جی کو تلاش کرنے کی حامی بھرلی اور یوں دو مزید آنکھیں انہیں ڈھونڈنے لگ گئی ہیں۔ اس سے بات کرکے دو تین قدم ابھی پیچھے پلٹا ہی تھا کہ اسی شخص نے مجھے یوں آواز دی:

’’بھائی جان! ذرا بات سننا‘‘ اس کی جانب پلٹا تو وہی شخص مجھ سے پھر گویا ہوا،’’بھائی جان وہ سامنے ایک خاتون کافی دیر سے پریشان پھر رہی ہے ۔۔۔ کہیں وہ آپ کی والدہ تو نہیں۔‘‘

میں نے اس جانب دیکھا تو مجھے وہی چہرہ نظر آنے لگا جس کی شباہت میرے اپنے چہرے پر نقش ہے مجھے وہی آغوش نظر آنے لگی جس کی دوری نے مجھے ادھ موا کر کے رکھ دیا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹھکا کہ شاید یہ میرا وہم ہو اور قریب جانے پر شاید اس چہرے کے خدوخال بدل جائیں مگر جب یہی آغوش میری جانب بڑھنے لگی تو میری زبان سے بے اختیار۔ بے اختیار ماں جی کا لفظ نکل گیا، یہ لفظ اگرچہ میری آنکھوں میں برسات بن کے اترا تھا مگر حرم شریف میں میرے ارد گرد کھڑے تمام احباب کے چہروں پر موسم بہار رقصاں تھا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔