اقتدار میں کوئی بھی آئے، تبدیلی کبھی نہیں آئے گی!

احتشام بشیر  جمعـء 29 جون 2018
تبدیلی کے نعرے لگتے رہیں گے لیکن غریب آئندہ 5 سال اسی طرح اپنے مسائل کے حل کےلیے سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تبدیلی کے نعرے لگتے رہیں گے لیکن غریب آئندہ 5 سال اسی طرح اپنے مسائل کے حل کےلیے سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کروڑوں روپے مالیت کی کالے رنگ کی گاڑی سے ایک شخص کو سفید رنگ کا کاٹن سوٹ پہننے، ہاتھ میں 90 ہزار کا موبائل سیٹ پکڑے اور ہاتھ میں برینڈڈ گھڑی پہنے اترتے دیکھا۔ خیال تو یہی آیا کہ ایسے ٹھاٹھ باٹ والے بڑے خان کا ہم پلّہ تو پورے علاقے میں کوئی نہیں، تو پھر ہم جیسے غریبوں کے علاقے میں ایسی شخصیت کا کیا لینا دینا؟ اسی تعجب میں نظریں اسی پر تھیں کہ مسلح گارڈز اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے، اس کے گاڑی سے نیچے اترتے ہی لوگ جھنڈے اٹھائے اس کے قریب آگئے اور ’’زندہ باد! زندہ باد!‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔

پھر وہ خان صاحب ایئرکنڈیشنڈ گاڑی سے اترتے ہی پسینے میں شرابور اپنے غریب ووٹر کے پاس گئے اور ان سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ کے مسائل سے آگاہ ہوں، مجھے آپ کے دکھوں کا احساس ہے اور آپ مجھے ووٹ دے کر کامیاب کریں تو اسمبلی میں پہنچ کر آپ کے مسائل کےلیے آواز اٹھاؤں گا۔ پرتعیش زندگی گزارنے والے خان اور غریب آدمی کے درمیان اس مکالمے سے عقدہ یہ کھلا کہ الیکشن ہونے جارہے ہیں اور یہ تو ووٹ مانگنے کا موسم ہے۔ اس طرح کے خان، وڈیرے، جاگیردار اب گلی کوچوں میں ووٹ مانگتے نظر آئیں گے۔

2018 کا انتخابی دنگل سج چکا ہے۔ ہر علاقے، شہر اور قصبے میں اسی طرح کے ڈرامے ہوتے نظر آئیں گے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی پہلوان میدان میں اتار دیئے ہیں۔ امیدواروں کے اعلان کے بعد اب انتخابی مہم میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ملک بھر میں اس وقت سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں سمیت الیکشن میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار بھی اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ بڑے بڑے شہر کے شہر، قصبے اور دیہات امیدواروں کے بینرز، سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اور جدید دور کے پینافلیکس سے سج گئے ہیں۔ گلی گلی امیدوارں کی تشہیری مہم جاری ہے، امیدواروں کے حمایتی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، ووٹ کے حصول کےلیے ووٹرز کو کسی نہ کسی طریقے سے قائل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ شخصیت، برادری، قومیت اور نام و نمود وغیرہ کے نام پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ ہر امیدوار کی بھرپور کوشش ہے کہ ووٹر کسی صورت اس سے ناراض نہ ہو اور کم سے کم پولنگ تک ووٹر راضی رہے۔

ایسے عوامی نمائندے جو گرمی کے چار مہینے ایئرکنڈیشنڈ کمروں اور ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھومتے نظر آتے تھے، وہ عوامی نمائندے آج کل گلی گلی ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں گھر گھر ووٹ مانگنے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ ووٹر اس بات پر خوش دکھائی دیتا ہے کہ امیدوار ووٹ مانگنے ان کے گھر چل کر آیا ہے اسی لیے ہر امیدوار ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم میں مصروف ہے۔ اب بھی شہر ہو یا گاؤں، امیدوار گھر گھر جاکر اپنے ووٹرز سے ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔

لیکن ووٹرز کی توقعات بھی اب بڑھ گئی ہیں۔ ووٹر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ جس امیدوار کو اس نے پہلے ووٹ دیا، اس کا جیتنے کے بعد پورے پانچ سال میں اس سے یا اہل علاقہ سے رویہ کیسا رہا؟ اس کی غمی خوشی میں وہ کس حد تک شریک رہا اور اس کے مسائل حل کرنے میں عوامی نمائندے کی کتنی دلچسپی رہی؟ پورے پانچ سال کی کارکردگی کا نتیجہ اب عوام عام انتخابات میں دینے لگے ہیں۔ ہر امیدوار کی پانچ سالہ کارکردگی کا ایکسرے کیا جاتا ہے پھر جاکر ووٹر یہ فیصلہ کرنے تک پہنچتا ہے کہ اسے ووٹ کس کو دینا ہے۔

خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی پہلوان انتخابی دنگل میں کود پڑے ہیں اور ہر امیدوار کی جانب سے ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ تک پہنچنے والے وہ عوامی نمائندے جو رمضان المبارک کے دنوں میں دور دور تک نظر نہیں آتے تھے، اس بار وہ اپنے ووٹرز کی افطاریوں میں مصروف نظر آئے۔ عید کے دنوں میں جن کے دروازے صرف چند افراد کےلیے کھلے ہوا کرتے تھے، الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر، حجرے، دفتر کے دروازے پر کھڑے نظر آئے۔

انتخابی مہم کے دوران ہر امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر کڑی تنقید کرتا اور اس کی خامیاں گنواتا نظر آتا ہے۔ مستقبل میں عوام کی متوقع نمائندگی کرنے والے ایک دوسرے کی خامیوں کو اجاگر کرکے علاقے کے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کررہے ہیں۔

دن کے کام کاج کے بعد رات کو امیدواروں کے الیکشن آفس آباد ہونے لگے ہیں۔ وہ امیدوار جو کبھی دس روپے بھی کسی غریب آدمی کو دینے کو تیار نہیں ہوا کرتے تھے، اب لاکھوں روپے دفاتر کے خرچوں پر اڑا رہے ہیں۔ الیکشن کےلیے قائم دفاتر میں صبح سے شروع ہونے والا مہمان نوازی کا سلسلہ شام ہونے تک خوب زور پکڑ لیتا ہے۔ گرم موسم کی مناسبت سے شربت، ٹھنڈے مشروبات اور چائے قہوے کے دور چلتے رہتے ہیں۔ رات کے کھانے کے انتظامات بھی کیے جارہے ہیں۔ ہر امیدوار اپنے طریقے سے انتخابی مہم شروع کیے ہوئے ہے لیکن ایک بات روایتی اور پرانی برقرار ہے: وہی وعدے وعید کیے جارہے ہیں، کسی کو نوکری کا جھانسہ دیا جارہا ہے توکسی کو علاقے میں گیس کی فراہمی، اور کسی علاقے کی گلیاں نالیاں بنانے کے وعدے کیے جارہے ہیں۔

بات تو اب اس سے بڑھ کر موبائل فونز اور موٹرسائیکل دینے تک پہنچ گئی ہے۔ ہر امیداور کے حمایتی اپنے طریقے سے ووٹرز کو قائل کررہے ہیں۔ امیدوار اپنی انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق کو بھی بھول گئے ہیں۔ جو امیدوار اپنی غریبی کا رونا رویا کرتے تھے، اب لاکھوں روپے ان کا روزانہ کا خرچہ ہورہا ہے۔ بازاروں، دیواروں، گلیوں، شاہراہوں اور چوراہوں پر لگے قد آور پینافلیکس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم کےلیے تجوریوں کے تالے کیسے کھول دیئے گئے ہیں۔

ابھی تو انتخابی مہم کی ابتداء ہے۔ الیکشن میں پورا ایک مہینہ باقی ہے اور حیرانی ان جماعتوں پر بھی ہوتی ہے جو کرپشن، اقربا پروری، خاندانی سیاست کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ خرچے کروڑوں تک پہنچ گئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کےلیے جلسہ کرنا کوئی آسان کام نہیں، ایک جلسے کا خرچہ کم از کم پچاس لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں ڈی جے، ساؤنڈ سسٹم، کرسیوں کا کرایہ، اور کنٹینرز تک کا کرایہ بھی شامل ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی جو حد مقرر کی گئی ہے، وہ تو ایک ہی جلسے میں پوری ہوجاتی ہے۔

اگر یہی اخراجات عوام کی فلاح و بہود پر کیے جائیں تو عوام کو کیوں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں؟

انتخابی مہم کے دوران جو ڈرامے بازی چل رہی ہے، الیکشن تک جاری رہے گی۔ الیکشن بھی ہو جائیں گے اور پھر ووٹ لینے والے عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد اپنے مسائل کے بھنور میں بھی پھنس جائیں گے۔ غریب اسی طرح اپنے مسائل کے حل کےلیے سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہے گا، سلسلہ اسی طرح پانچ سال چلتا رہے گا اور تبدیلی کے نعرے لگتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔