سیاسی جماعتیں کراچی میں کامیابی کے لیے متحرک ہو گئیں

جی ایم جمالی  بدھ 27 جون 2018
 پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہےفوٹو : فائل

پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہےفوٹو : فائل

 کراچی: پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہے کراچی اور سندھ کے بعض دیگر اضلاع میں دلچسپ مقابلوں کی توقع ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے کر دیا ہے انہوں نے کراچی کو گود لینے اور اسے پیرس بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے ) اور دیگرسیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز میں شروع کر دی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے پی آئی بی اور بہادر آباد کے دونوں دھڑے یکجا ہو گئے ہیں اور ’’ پتنگ ‘‘ کے انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایم کیو ایم کے سینئر رہنما شاہد پاشا نے ایک اور دھڑا بنا دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی ) اور مہاجر قومی موومنٹ ( آفاق ) نے بھی اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں۔ کراچی میں انتخابی صورت حال انتہائی دلچسپ ہو گئی ہے۔

تقریباً تین عشروں سے زیادہ عرصے کے بعد کراچی ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ’’اوپن ‘‘ ہو گیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں نے بھی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے امکانات پیدا کر دیئے ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہاز شریف کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ بات بھی لوگوں کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہے۔ بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 246 کراچی جنوبی 1 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ حلقہ پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں کوئی دوسری سیاسی جماعت بشمول پاکستان تحریک انصاف بلاول بھٹو زرداری کے لیے چیلنج نہیں بن سکی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اگر کہیں کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے تو وہ لیاری سے پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنوں سے آ سکتی ہے۔

میاں شہباز شریف کراچی غربی کے حلقہ این اے ۔ 249 سے امیدوار ہیں۔ یہ حلقہ بلدیہ، سعید آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے، جہاں اردو بولنے والوں کی کثرت ہے۔ ان علاقوں کو ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حمایت زیادہ نہیں ہے۔ نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 249 میں شامل علاقے پہلے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے ۔ 240 اور 241 میں شامل تھے۔ ان دونوں حلقوں میں 2013 ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدواروں نے بالترتیب 87805 اور 95584 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم ( لندن) کے مابین لندن میں کوئی معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت میاں شہباز شریف نے کراچی میں ایم کیو ایم کے گڑھ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بھی الزام عائد کر رہی ہے کہ سندھ گورنر ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے الیکشن سیل چلائے جا رہے ہیں۔ ان باتوں میں کس قدر حقیقت ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔البتہ میاں شہباز شریف نے اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران خطاب میں کراچی کے لوگوں سے بڑے وعدے کیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی ، صفائی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل تین سال میں حل کردیے جائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ان وعدوں پر انہیں ووٹ دیں گے یا نہیں لیکن پیپلز پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام گمراہ نہیں ہوئے۔

کراچی کے حلقہ این اے  243 ضلع شرقی کراچی پر بھی دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا، ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کیٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ یہ حلقہ بھی عمران خان کی جیت کے لیے آسان نہیں ہو گا۔

دوسری طرف سندھ کے دیگر اضلاع میں خصوصا گھوٹکی، جیکب آباد، دادو ، سانگھڑ ، نوشہروفیروز ، بدین ، لٹھی ، تھرپارکر وغیرہ میں بھی دلچسپ مقابلوں کی توقع ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے یہ الیکشن ماضی کے عام انتخابات کی طرح آسان نہیں ہو گا ۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس مذکورہ بالا اضلاع میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو سخت مقابلے سے دوچار کر سکتا ہے۔ انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہیں، صورت حال بہت دلچسپ ہو رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔