انتخابات عوام کو کیا دیں گے

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  منگل 7 مئ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں امریکی دلچسپی، مفادات اور مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، طویل عرصے سے آئے دن امریکی آفیشلز ہمارے ہوم ورک کا جائزہ لیتے اور ڈکٹیشن دیتے رہے ہیں۔ جمہوریت کے علمبردار اس ملک نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی کی ہے، صدر پرویز مشرف کی آمریت کی حمایت کرتے ہوئے اس کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ پرویز حکومت پر حملہ، امریکا اپنے اوپر حملہ تصور کرے گا۔

پچھلے عام انتخابات کے بعد نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ ’’پاکستان میں ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی جس سے امریکی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہو، امریکی انتظامیہ کو اب نئے اتحادی بنانا پڑیں گے تا کہ اس کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے۔ امریکا کے پاس اس کا کوئی متبادل راستہ نہیں۔ نیا سیاسی اتحاد پرویز مشرف کی اکثر پالیسیوں کو مسترد کر دے گا، ہو سکتا ہے صدر کو عہدہ بھی چھوڑنا پڑ جائے‘‘۔

نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل اور اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف کی امریکا کے لیے ناگزیریت نہایت قابل غور رہے ہیں اور ہماری سیاست کا محور بھی ہیں۔ پچھلے قومی انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار حکومتی اتحاد کو بھاری اکثریت سے اس بات کا کھلا اختیار ملا تھا کہ وہ پرویز حکومت کے 8 برسوں کے آمرانہ اقدامات اور غلط پالیسیوں کے تسلسل کو ختم کر کے حقیقت پسندانہ و صحت مندانہ سیاسی نظام اور خالصتاً ملکی مفادات کی حامل اقتصادی پالیسی تشکیل دے کر تباہ شدہ قومی اداروں کو پھر سے موثر و فعال بنا کر عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کا آغاز کرے۔

لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ آمرانہ حکومت کی انھی پالیسیوں کا تسلسل مزید تیز رفتاری سے جاری رہا، قومی اداروں کو سیاست و مفادات کے اکھاڑے بنا کر تباہی و بربادی سے ہمکنار کر دیا گیا، عدالتوں سے محاذ آرائی کی جاتی رہی، قومی مجرموں کو تحفظ دیا گیا، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، مذہبی و نسلی منافرت، صوبائیت، ریاستی دہشت گردی اور غیر ملکی دہشت گردی اور مداخلت نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن عملاً ماضی پر عمل پیرا رہ کر مستقبل کو دفن کر دیا گیا۔ غیر ملکی مداخلت یہاں تک بڑھی کہ بڑے بڑے شہروں تک پہنچ گئی، جہاں غیر ملکیوں نے پاکستانیوں کے خون سے ہولی بھی کھیلی، ملک کی ایجنسیوں، اداروں اور عدالتوں تک کو بے اثر کر کے قومی وقار کی دھجیاں اڑائیں۔

جنرل پرویز مشرف کے عطا کردہ قومی مفاہمتی آرڈیننس نے لوٹ مار، طاقت کی اطاعت اور خوشامد کا سرطان اس تیزی سے پھیلایا کہ یہ ادارے عدالتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے بلکہ سرکاری سرپرستی میں عدالتوں کی تذلیل و تحقیر اور ان کے خلاف پروپیگنڈا کر کے عوام کے عدالتوں اور قانون پر اعتماد کو متزلزل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔

قومی مفاہمتی آرڈیننس سول و فوجی بیوروکریسی اور سیاسی قزاقوں کے لیے قومی دولت اور عوامی مفادات پر ڈاکا ڈالنے کا قومی اختیار ثابت ہوا۔ مفرور ملزمان ملک میں وارد ہو کر اہم ترین اور اپنے من پسند و مرغوب عہدوں پر براجمان ہوئے، صرف کابینہ میں ایسے 15 وزرا شامل تھے جو جیل کاٹ چکے تھے یا مقدمات میں نامزد تھے۔ مشرف کے دور سے زیر عتاب مسلم لیگ (ن) سیاسی جدوجہد کے سارے عمل میں خواہ اے آر ڈی ہو یا اے پی ایم ڈی وہ میثاق جمہوریت ہو یا اعلان مری یا پھر اسلام آباد، دبئی اور لندن مذاکرات، نہ کچھ قوم کو دلوا سکی نہ خود کچھ حاصل کر سکی ماسوائے فرینڈلی اپوزیشن اور مک مکاؤ کے الزامات کے جو طاہر القادری اور عمران کی سیاست اور پروپیگنڈے کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔ نواز شریف ججز بحالی پر بضد اور اٹل تھے۔

پی پی پی کے سربراہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ انھیں ججز بحالی کا نہیں روٹی، کپڑے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ گیلانی برملا کہتے رہے ہیں کہ صدر کہیں تو ایک منٹ میں بحالی کے احکامات جاری کر دوں گا جب کہ صدر صاحب کے ارشادات اس قسم کے تھے کہ ’’ججز کو جیل جانے کی عادت پڑ گئی ہے کہیں جمہوری حکومت کے ہاتھوں بھی ایسا نہ ہو جائے، ججز انصاف پسند فیصلہ کرتے تو میں اتنے عرصے جیل میں کیوں رہتا۔‘‘ پی پی پی کے بلامقابلہ وزیراعظم، صدر اور اسپیکر منتخب کرانے، اس کی غیر مشروط حمایت کرنے والے نواز شریف کچھ ہی عرصے بعد احتجاجاً وفاقی وزارتوں سے مستعفی ہو گئے البتہ پی پی پی کے وزرا نے پنجاب حکومت سے استعفے نہیں دیے۔ پی پی پی کی ٹیم سے علیحدگی کے موقعے پر مشاہد حسین نے کہا تھا کہ آج پی پی پی اور (ن) لیگ کا نکاح ٹوٹ گیا ہے حالانکہ اہل نظر کو اس نکاح کی ممکنہ مدت کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔

راقم نے پچھلے انتخابات سے قبل اپنے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ انتخابات کی صورت میں قیاس یہی کیا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد حکومتی یوٹرن کی اپنائی جانے والی پالیسیاں مزید تیز رفتاری سے اپنا سفر جاری رکھیں گی، عوام کے نصیب میں صرف محرومیاں، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری، مہنگائی، ظلم و ناانصافی، لوڈشیڈنگ جیسی نعمتیں اور ارباب اقتدار کی دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی پر مبنی خوش کن تقریریں ہی آئیں گی۔ آٹھ سالہ حکومت میں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہنے والے پرویز مشرف کو جب ان کے پیشرو نے عزت و توقیر کے ساتھ گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا تو وہ دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے خطابات اور انٹرویوز میں اسی پروپیگنڈے کا پرچار کرتے رہے۔ پاکستان، کشمیر اور اسرائیل کے بارے میں وہ بیانات دیے جو غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔

اب یہ آمر قوم کے مسیحا کے روپ میں ایک مرتبہ پھر اسی ایجنڈے کے تحت ملک میں وارد ہوا ہے جس طرح کچھ عرصہ قبل علامہ طاہر القادری وارد ہوئے تھے جو انتخابات کے عمل کو گناہ اور غیر آئینی قرار دے کر انتخابات کے دن دھرنوں کا ڈائنامائٹ ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ عمران خان کی ساز و آواز اور مزدور لیڈر نما جلسوں اور تقریروں اور جملہ بازیوں میں بھی حد تنقید صرف اور صرف (ن) لیگ ہی ہوا کرتی ہے، برسر اقتدار پارٹی یا کسی دوسری جماعت کا ذکر ضمناً اور بیلنس کرنے کے لیے ہی آتا ہے جیسے پیڑا بنانے کے لیے خشکے یا پانی کا استعمال ہو۔ پرویز مشرف، عمران خان اور طاہر القادری کے سیاسی افق پر نمودار ہونے میں نواز شریف کا تعاون اور احسان شامل رہا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے سابقہ مربی و رفیق، عمران خان اور طاہر القادری کی ٹرائیکا موجودہ انتخابات کا سب سے موثر ایلیمنٹ اور پری پلان گیم نظر آتا ہے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کو اقتدار سے نزدیک کرنے میں ضرور سازگار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ موجودہ انتخابی مہم میں تمام سیاسی، لسانی، مذہبی، سیکولر جماعتوں کے مفادات اور عزائم صرف (ن) لیگ سے ٹکراتے ہیں، اس لیے پوری انتخابی مہم صرف اور صرف مائنس نواز شریف پر چل رہی ہے۔

جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی کی حکومت کے ایک نئے اتحادی عمران خان کے ساتھ حکومت بنانے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ بصورت دیگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر طاہر القادری کے ہاتھ میں موجود انتخابی بائیکاٹ کا ڈائنامائٹ اور پرویز مشرف کی اسیری اور ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی بپتا کو بنیاد بنا کر ملک میں انارکی و سول نافرمانی کی صورت حال پیدا کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر (ن) لیگ معمولی اکثریت یا مخلوط اتحاد کے ذریعے مرکز میں حکومت بنا بھی لیتی ہے تو تمام صوبوں میں ملکی حکومت بنانا ناممکن نظر آتا ہے، پھر سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ قانون سازی بھی نہیں کر پائے گی اور شدید مشکلات اور ریشہ دوانیوں کا شکار رہے گی۔ لہٰذا انتخابات کے نتیجے میں ملک و قوم کو ثمرات ملنے کے امکانات انتہائی معدوم اور مضمرات و مشکلات کے امکانات زیادہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔