کوئی نئی حکومت اور بے چین قوم
ایک کارکن صحافی اپنے کام سے رات گئے فارغ ہوتا ہے۔ میں اخبار کا رپورٹر تھا اور اخبار کی آخری ...
ایک کارکن صحافی اپنے کام سے رات گئے فارغ ہوتا ہے۔ میں اخبار کا رپورٹر تھا اور اخبار کی آخری کاپی کے پریس جانے تک حاضر رہتا تھا کہ اس دوران کوئی خبر نہ آ جائے پھر جانے سے پہلے ڈیڈ ہائوس ضرور فون کرتا کہ کوئی میت تو نہیں آ گئی۔ ان دنوں لاہور کے قرب و جوار میں بھی قتل کی کوئی واردات ہوتی تو میت لاہور کے ڈیڈ ہائوس میں ہی آتی جو میو اسپتال میں واقع تھا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات جس میں سویا جاتا ہے وہ نصف گزرنے کے بعد آتی تھی اور دوسری صبح کو گیارہ بجے رپورٹنگ اسٹاف کی میٹنگ بھی ہوتی تھی۔
میرا نیند کا یہی معمول رہا ،کوئی دو چار برس پہلے میں بیمار ہو گیا اور اسپتال میں لٹا دیا گیا جس سے نیند کا معمول بالکل ہی بدل بلکہ بگڑ گیا مگر اس آزادی میں اتنا لطف آیا کہ جب میں صحت یاب ہو کر گھر آ گیا تو سونے جاگنے کا یہ آزادانہ معمول جاری رہا لیکن بات وہی ہے کہ میں کس خیال میں ہوں اور آسمان کے کیا ارادے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ارادے کچھ اور تھے چنانچہ اس نے پہلا کامیاب اور مرادوں بھرا حملہ بجلی پر کیا۔ وزیر صاحب نے اور ان کی وزارت نے تو اربوں روپے کما لیے لیکن ہماری نیندیں غارت کر دیں۔ پاکستانی عوام کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی قلت یعنی لوڈ شیڈنگ بن گیا۔ اس سے قبل اگر تھا بھی تو برائے نام اور ہم کالم نویسوں کا ایک موضوع، یہ سب عرض کرنے کا مقصد اپنا رونا رونا ہے، میں رات بھر جاگا ہوں اور اب اپنے سوتے جاگتے ہوش و حواس کو سنبھال کر یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔
روزانہ کالم لکھنے میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ بہت مشکل ہو جاتا ہے، جب نیت خراب ہوتی ہے اور چھٹی کی بات کی جاتی ہے تو ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری صاحب سوال کرتے ہیں کہ میں یہ خالی جگہ کس طرح بھروں اور قارئین کو کیا جواب دوں۔ قارئین کے سوال و جواب تو وہ تکلفاً کہتے ہیں۔ البتہ خالی جگہ ایک مسئلہ ہوتا ہے چنانچہ رات بھر کا جاگا ہوا آپ کا یہ کالم نویس بجلی پیدا کرنے کے گھریلو نظام کی ناکامی پر نالاں ہے اور میں آپ سے کیا عرض کروں کہ آپ شاید مجھ سے بھی زیادہ زخم خوردہ ہوں اور یقیناً ہوں گے کیونکہ بجلی اگر میرے گھر نہیں ہے تو آپ کے گھر کیسے ہو گی کیونکہ میری آمدن اور اثر و رسوخ آپ سے زیادہ ہے، اس لیے مناسب یہی ہو گا کہ ہم سب مل کر بجلی سے محرومی کا ماتم کریں۔ ہمارا یہ دکھ ساجھا ہے۔ گرمی اور پسینہ ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے۔
جب سے موبائل فون آیا ہے، میرا گائوں سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ کل پرسوں کی بات ہے کہ جب فصل کا پوچھا اور معلوم ہوا کہ کھیت گندم کی کٹی ہوئی فصل سے بھر گئے اور اب گندم کی یہ گڈیاں اٹھا کر کھلیان کی طرف لے جائی جا رہی ہیں۔ روایتی طور پر گرمی کا یہ شدید موسم وہاں ایسا ہے کہ راتوں کو موٹا کھیس اوڑھنا پڑتا ہے ورنہ سردی میں نیند نہیں آتی، میں نے یہ سن کر فون بند کر دیا کہ اس وقت میں گرمی سے گھبرایا ہوا تھا اور اپنی نوکری سے ناراض ہو رہا تھا کہ میں نے گائوں میں ہی اپنی روزی کیوں نہ تلاش کر لی۔ میرا ایک عزیز بتا رہا تھا کہ وہ تو رات کو چھت پر سوتا ہے اور مجھے وہ دن یاد آئے جب ہم چھت پر سویا کرتے تھے اور صبح دھوپ سے بچانے کے لیے ہماری پارٹی کے گرد ایک چارپائی کھڑی کر دی جاتی تھی، دھوپ کے سامنے، یہ محرومیاں محض اس لیے ہیں کہ روزی روزگار کے ذریعے شہروں میں سمٹ آئے ہیں۔
صنعت شہروں میں ہے جب کہ اس کا خام مال دیہات سے آتا ہے اور مزدور بھی لیکن فی الحال ایسے منصوبے ان حکمرانوں کے لیے ہیں جن کے دلوں اور ذہنوں میں اس ملک کے مستقبل کی کوئی فکر موجود ہے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سیاستدان صرف الیکشن تک سوچتا ہے لیکن قوم کا لیڈر اس کے بعد کے لیے سوچتا ہے۔ الیکشن تو ہو گئے اب ایسے لیڈروں اور سیاستدانوں کو تلاش کیجیے جو الیکشن کے بعد قومی زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہیں، آپ کو مکمل مایوسی ہو گی۔
قوم اور عوام کو درپیش فوری مسئلے بھی بے حد اہم ہوتے ہیں ورنہ قوم میں بے چینی پھیل جاتی ہے۔ بجلی کی قلت نے پاکستانی زندگی عذاب میں مبتلا کر دی ہے۔ کوئی گھر میں ہے تو وہ گرمی سے گھبرا رہا ہے اور کوئی مزدور ہے تو وہ بجلی نہ ہونے سے روزگار سے محروم ہے اور بجلی کی عدم دستیابی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کچھ لکھنا بے سود ہے سوائے اس کے کہ نئے حکمرانوں سے کہا جائے کہ وہ سب کام چھوڑ کر بجلی کی پیداوار اس کی فراہمی پر کمر بستہ ہو جائیں۔ میں تو رات بھر جاگنے کے بعد پھر بھی یہ سطریں لکھ رہا ہوں کیونکہ مجھے صرف قلم اور کاغذ درکار ہے جو موجود ہے لیکن جس کسی کو کسی مشین پر کام کرنا ہے وہ کیا کرے۔ سوائے صبر کے۔صبر کرنے کے لیے انسانی جسم میں ایک خاص توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو گرمی انسان کے اندر سے کھینچ لیتی ہے۔
ہماری جو جماعتیں الیکشن کی کسی ناانصافی کے خلاف دھرنے دے رہی ہیں، وہ اگر میری مانیں جو وہ نہیں مانیں گی کہ جلد از جلد حکومت سازی کریں اور قوم کو زندہ کرنے میں لگ جائیں۔ پورے پانچ برس تک اس قوم کو مارا پیٹا گیا ہے، ہماری نئی حکومت کو ان پانچ برسوں کے نقصان کا ازالہ بھی کرنا ہے اور ایک نئی زندگی کی نوید بھی دینی ہے۔ قوم بے چینی کے ساتھ منتظر ہے۔