ڈینگی بخار؛ علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے

ڈاکٹر آصف چنڑ  جمعرات 16 اگست 2018
اگست تا دسمبر مچھر کی افزائش کا موزوں ترین وقت، صاف پانی کہیں بھی جمع نہ رہنے دیں۔ فوٹو: رائٹرز

اگست تا دسمبر مچھر کی افزائش کا موزوں ترین وقت، صاف پانی کہیں بھی جمع نہ رہنے دیں۔ فوٹو: رائٹرز

دنیا بھر میں مچھروں کی 3 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے 70 فیصد مچھر ڈینگی وائرس ایڈیز ایجپٹی ہیں، ان خطرناک مچھروں کی تین اقسام ہوتی ہیں، جن میں ایڈیز ایجپٹی (AedesAgepti) اینو فلیز (Anophles) اور کیولیکس(Culex) شامل ہیں۔

یہ مچھر پانی کے جہاز اور ٹرینوں سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں، ڈینگی وائرس پھیلانے والی مادہ مچھر 22ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں انڈے نہیں دیتی جس کی وجہ سے ان مچھروں کی افزائش کا عمل رک جاتا ہے، تاہم ان مچھروں کے دیے جانے والے انڈے محفوظ رہتے ہیں اور اپنی نسل کی افزائش کے لیے بہترین موسم کا انتظار کرتے ہیں، اگست سے دسمبر تک ان مچھروں کے انڈوں سے تیزی سے افزائش ہوتی ہے۔تاہم سردموسم میں ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے، ڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر کو اپنے انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، مادہ مچھر پروٹین کی تلاش میں انڈے کے مقام سے 25 سے 30 کلومیٹر دور پالتوں جانوروں، بھینسوں کے باڑوں میں جانوروں کا کاٹ کر اپنی غذا اور پروٹین کو حاصل کرتی ہے، تاہم جانور نہ ملنے کی صورت میں مادہ مچھر انسانوں کو کاٹتی ہے تو اپنے ڈنگ سے 8سے 10 سیکنڈ کے لیے اس جگہ کو سن کر دیتی ہے اور اس دوران اس کے سیلیویا میں پیرا سائیٹ کو منتقل کر دیتی ہے جو انسانی جسم میں 2  سے7 دن تک کی سائیکل مکمل کر لیتا ہے، انسانی قوت مدافعت کمزور ہونے سے جگر بھی متاثر ہوتا ہے۔

پاکستان میں 1994 ء میں پہلی مرتبہ ڈینگی سے متاثرہ افراد دیکھے گئے، تاہم یہ وائرس سب سے پہلے فلپائن اور تھائی لینڈ میں پایا گیا تھا، جو بعدازاں لاطینی امریکہ سے مصر میں منتقل ہو گیا۔ ڈینگی وائرس کی 1950ء میں پہلی بار ایشیائی ممالک میں تشخیص کی گئی تھی، یہ وائرس سب سے پہلے فلپائن اور تھائی لینڈ میں پایا گیا تھا جس کے بعد ڈینگی وائرس تیزی سے بھارت، پاکستان، افریقہ،مشرق و سطی، جنوب مشرق ایشیا اور ویسٹرن پیسفک کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔

ڈینگی کے پھیلائو کی بڑی وجہ مناسب آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے، جس کے باعث عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دراصل ڈینگی ایک انفیکشن ہے، جو ایک خاص وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیماری ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے، جس کی ٹانگیں عام مچھروں کی نسبت ذرا لمبی ہوتی ہیں۔ پھر کسی متاثرہ شخص کو کاٹنے سے یہ وائرس اس مچھرمیں آجاتا ہے اور اس کے بعد اگر یہ مچھر کسی دوسرے شخص کو کاٹ لے تو یہ وائرس اس میں منتقل ہو جاتا ہے۔

ڈینگی بخار عموماً ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ چار مختلف اقسام کے وائرس انسانوں میںڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ایک قسم کے وائرس کا حملہ صرف ایک بار ہی ہو سکتا ہے۔ دوسری مرتبہ ڈینگی بخار دوسری قسم کے وائرس سے ہو سکتا ہے اور یوں زندگی میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چار مرتبہ یہ عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈینگی بخار کا دوسرا نام بریک بون فیور(Break Bone Fever) بھی ہے۔

اسے یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اس بخار کے دوران ہڈیوں اور پٹھوں میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ بیماری گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم بروقت علاج سے اس مرض سے صحت یابی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور 99 فیصد مریض اس سے مکمل طور پر صحت یات ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم لوگوں میں یہ مہلک شکل اختیار کرتا ہے۔

دیگر مچھروں کے برعکس ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے، گندے تالابوں اور جوہڑوں کی بجائے یہ مچھر گھریلو واٹر کولر، ٹینکوں کے قرب و جوار، صاف پانی سے بھرے برتنوں، پودوں کے گملوں، غسل خانوں اور بارش کے صاف پانی میںتقریباً سارا سال ہی پلتا رہتا ہے، تاہم برسات کے موسم میں تیزی سے افزائش نسل کرتا ہے۔ عموماً یہ مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کیوں کہ مچھر دن کے کسی بھی حصے میں کاٹ سکتے ہیں۔ وائرس زدہ مچھر کے صرف ایک ہی بار کاٹنے سے یہ بیماری انسان میں منتقل ہو جاتی ہے۔

یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیماری براہ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتی بلکہ مخصوص مچھر ہی اس کے انتقال کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ڈینگی سے متاثرہ مریض سے علیحدہ ہونے کے بجائے مچھروں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات جو مریض کو علیحدہ رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ متاثرہ شخص کو کاٹ کر مچھر مزید بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ وائرس کو لے جانے والے مچھر کے کاٹنے کے چار سے سات روز کے اندر ڈینگی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔

ان علامات میںتیز بخار، سردی لگنا، جسم میں شدید درد اور کمزوری، بیماری کے پہلے گھنٹے کے دوران ٹانگوں اور جوڑوں میں شدید درد، سر درد اور بعض مریضوں میں آنکھوں کے پیچھے شدید دور، منہ کا ذائقہ کڑوا ہونا، رفتار قلب میں کمی، چہرہ سرخ ہو جانا یا ہلکے گلابی رنگ کے دانوں سے بھر جانا شامل ہے۔ ڈینگی بخار کی یہ علامات دو تا چاردن رہنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ مریض کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور نارمل محسوس کرنے لگتا ہے مگر بہتری کی یہ حالت تقریباً ایک دن رہتی ہے، جس کے بعد بخار دوبارہ تیزی سے چڑھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم پر باریک دانے نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس بار چہرہ محفوظ رہتا ہے البتہ ہتھیلیاں اور مسوڑھے سوج کر سرخ ہو جاتے ہیں۔

ڈینگی بخار کی شدید شکل جو بہت خطرناک اور جان لیوا ہو سکتی ہے اسے ڈینگی ہیمریجک فیور(Dengue Hemorragic Fever) کہتے ہیں۔ اس سے دس سال کی عمر تک کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی نمایاں علامات میں آنکھوں کے پیچھے شدید درد، پیٹ درد اور جسم کے مختلف حصوں دانتوں، مسوڑھوں، ناک اور مقعد سے خون رسنا ہے، جس سے خون میں platelet  ذرات کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو سکتی ہے۔ خون کی نالیوں سے خون رسنے سے ان میں موجود پانی باہر رستا ہے جس سے خون کے دبائو میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

اس حالت کو Dengue Shock Syndrom کہا جاتا ہے جو کہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ البتہ اس کی شرح بہت کم ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور آکسیجن لگانے یا خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈینگی بخار کی تشخیص دو طریقوں سے ہوتی ہے۔مریض کی علامات سے اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے۔ ابتداء میں اس کا انحصار علامات پر ہوتا ہے جیسے بخار جلد پر سرخ دھبے بننا، جسم میں درد اور آنکھوں کے پیچھے درد وغیرہ۔ خون کے ٹیسٹ میں  platelets  کی تعداد میں کمی ہونے سے تشخیص ہوتی ہے۔

دوسری قسم کے ٹیسٹ میں ڈینگی کے خلاف خون میں اینٹی باڈیز کی شناخت کرنا ہے۔ سب سے زیادہ کیا جانے والا ٹیسٹ  Dengue igM کہلاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اگر ابتدائی علامات میں کروا لیا جائے تو Negative بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عام طور پر اس اینٹی باڈی کو جسم میں بننے اور شناخت کرنے میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔ اس بیماری کے علاج کے لیے مریض کو  supportive therapy دی جاتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ Paracetamol کی ضرورت پڑتی ہے۔

اگر مریض زیادہ کھاپی نہ رہا ہو تو Drip لگانی چاہیے۔ اگر platelets بہت کم ہو جائیں، جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صورت میں platelets کی  Drip لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔ مریض کو مسلسل زیر نگرانی رکھ کر اس کے خون کے دبائو، درجہ حرارت اور خون کے نظام کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو دوا لگی مچھر دانی میں رکھنا چاہیے۔

پرہیز علاج سے یقینا بہتر ہوتا ہے اور ڈینگی بخار کے پھیلائو کو روکنے اور اس سے بچائو تب ہی ممکن ہے جب ہم اس کے مخصوص مچھر کو پھلنے پھولنے سے روک دیں۔ اس سے اہم بات ایسی جگہوں پر سپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کھڑے پانی کو نکالنے کا انتظام کیا جائے۔ مچھر دانی کا استعمال کیا جائے، گھروں میں گملوں کا پانی روزانہ تبدیل کیا جائے۔ ڈینگی کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کیا جائے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد ماحول کی صفائی کا خیال رکھیں تو اس سے نہ صرف ہم ڈینگی بخار بلکہ بہت سی دیگر بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ڈینگی بخار کی تشخیص ہو جائے تو گھبرانے کی بجائے بروقت علاج اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں۔ اس طرح ہم باآسانی اس مرض کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ابتدائی علامات

ڈینگی وائرس بخار کی علامات شروع میں اس طرح ہوتی ہیں۔

-1 تیز بخار‘-2 سر درد‘-3آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد‘-4 تمام جسم کی ہڈیاں اور گوشت یہاں تک جوڑ جوڑ میں درد‘-5 بھوک کا مر جانا اور متلی ہونا‘ -6گردن میں اکڑائو آجاتا ہے اور-7 نیند نہیں آتی۔

یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین چار دنوں میں بخار میں کمی آجاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچائو صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچائو ہے۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو وہاں اس کے لیے مچھر مار دوائوں کا ستعمال کثرت سے کریں۔ مشرقی طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا دوسرا نام Denguehemormagicfever  ہے۔ یہی وہ بخار ہے جس میں جسم سے خون بھی بہتا ہے۔ جس کا عرف عام نام ڈینگی ہے۔ یہ وائرس بھی کئی اقسام کے ہیں۔ اس بیماری کا پھیلائو انسانوں میں ایک خاص قسم کے مچھر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب یہ مچھر ایک بیمار شدہ مریض کو کاٹ کر کسی صحت مند شخص کو کاٹتا ہے تو یہ بیماری پھیل سکتی ہے۔ یہ بیماری عام طور پر دنیا میں گرم مرطوب علاقوں میں ہوتی ہے۔اس بیماری کا پھیلائو ملیریا کی طرح ہے۔اس بیماری کے ایکٹیو جینز میں مریض شاک میں جا سکتا ہے اور بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے۔ پائوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندونی اور بیرونی حصوں پر باریک دانے ہو جاتے ہیں۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانا صرف حکومت کے بس میں نہیں بلکہ پوری آبادی کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو اور وہ خود مچھروں کے کاٹنے سے بچیں۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ جہاں جہاں پانی کھڑا ہے وہاں اسپرے کریں اور عوام کا کام ہے کہ ایسی جگہوں کی نشادہی کریں اور گھروں میں صاف پانی کو ڈھانپ کر کھیں کیونکہ یہ مچھر صاف پانی میں ہی ہوتے ہیں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور این جی اوز کا بھی یہ فرض ہے کہ عوام کو اس مرض کے بارے میں بتائیں اور اس سے بچنے اور اس کے برقت علاج کا شعور دیں۔

شدید حملہ

ڈینگی بخار کی ابتدائی علامات میں بخار ، کمزوری، پسینہ آنا، اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظام پر اثر کرتی ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillary کہتے ہیں، وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے نمایاں ہوں وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے۔ جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے توفالج، بے ہوشی، لقوہ جیسی علامات ہوتی ہیں، جس سے مریض کے جسم کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا مریض بے ہوش ہو جاتا ہے اور یہ سب ابتدائی علامات کے ایک دن بعد ہی ہو جاتا ہے۔

علاج

اس بیماری کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔

-1 مریض کو Supporivetheropy  دی جاتی ہے۔

-2 مریض سے کہا جاتا ہے کہ وہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے۔

-3 اگر مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر Drip لگانی چاہیے۔

-4 اگر platelets  بہت کم ہو جائیں جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صورت میں Platelets  کی Drip  لگانا ضروری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ـ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ا س مچھر (AedesAegypti) کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روک دیں۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جہاں بھی پانی کھڑا ہو جائے وہاں پانی کو کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ گھروں میں مچھر کے بچائو کی تدابیر کرنی چاہئیں جن میں مچھر دانی یعنی Mosquitenet کا استعمال ضروری ہے۔ طب یونانی (اسلامی) یا ہربل سسٹم آف میڈیسن اس مرض کے علاج کے حوالے سے دیگر طریقہ ہائے علاج کی طرح خاموش نہیں بلکہ دنیا بھر کے معالجین کی رہنمائی کرتا ہے اور جدید طریقہ ہائے علاج کے معالجین بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ شہد ڈینگی فیور کے لیے ایک بہترین علاج ہے۔ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔

پروپولس( رائل جیلی) جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے ایک طاقتور اینٹی انفیکشن ، اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل ہے۔یورپ میں یہ عام دستیاب ہے۔ لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالتے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوپہر شام اور رات، دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، جس سے پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دوتازہ پتے یا ان کارس صبح شام پینے سے Platelets  حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بہتر ہو جاتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔