گرم پانی، مچھلیوں کا دیس اور مولا چٹوک

ببرک کارمل جمالی  اتوار 26 اگست 2018
آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے گَدھوں پر سوار برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ فوٹو : فائل

آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے گَدھوں پر سوار برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ فوٹو : فائل

پیارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلندوبالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوب صورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔

بلوچستان میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج الگ الگ ہیں۔ مثلاً سندھ کی ثقافت لسبیلہ کی جانب سے بلوچستان میں داخل ہوئی تو کوئٹہ کی طرف پشتونوں کی ثقافت کے رنگ بکھرے۔ پنجاب کی سرحدوں سے بھی ثقافت کا قافلہ اس خطے میں داخل ہوا، گویا بلوچستان اپنے جغرافیے کی طرح اپنی ثقافت میں بھی متنوع ہے۔

آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے گَدھوں پر سوار برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے انتہائی پُرپیچ گھاٹیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ انہی پتھروں پر چل کر لوگ تجارت کرتے تھے۔ ریشم کی تجارت کی غرض سے دوردور تک سفر کرتے تھے۔

اگر میں اپنے ماضی پر نظر ڈالوں تو یہ نہیں معلوم کہ میں کب ان پہاڑوں کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ میں نے جب پہلی مرتبہ پہاڑ دیکھے تو حیران رہ گیا کہ اللہ تعالی نے کیسے انہیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک رکھا ہے۔ اِس وقت میں دسویں جماعت میں تھا۔ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ ان پہاڑوں کو پار کرکے ان کے پیچھے جو دنیا آباد ہے، وہ دیکھوں، ان کے رسوم و رواج، ان کی ثقافت دیکھوں، پہاڑوں کے اُس پار کیسے لوگ بستے ہیں؟ اور ان کے ہاں کیسے کیسے کھانے پکائے جاتے ہیں؟ اور وہ کیا کچھ کھاتے پیتے ہیں؟ ایک روز میں نے ان پہاڑوں کو عبور کرنے کی کوشش کی تو خوب صورت مناظر میرے سامنے آ گئے جن میں گرم پانی خوب صورت مچھلیوں کا دیس اور مولا چٹوک شامل تھے۔

٭گرم پانی

گرم پانی کی بارے میں بہت سارے لوگوں نے تاریخ کے کتابوں میں ضرور پڑھا ہو گا۔ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر گرم پانی کا ایک چشمہ موجود ہے۔ اس چشمے کے چاروں اطراف بہت لمبے لمبے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں کے اوپر مختلف قسم کے پتھر پائے جاتے ہیں۔ یہ جگہ پہاڑوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے خوفناک بالکل بھی نہیں ہے۔ اس وادی تک پہنچنے کے راستے بہت مشکل سہی مگر اس وادی تک پہنچنے کے بعد اس وادی کی کشش دل میں اتر جاتی ہے، کیوںکہ گرم پانی پہاڑوں کو چیر کر نکلتا ہے اور پانی کی آواز جیسے بلوچی نغمے گنگناتی ہے۔ جانے والا یہی محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی نئی اور عجیب و غریب دنیا میں آ گیا ہے۔ اس وادی میں پہنچنے کے بعد وہاں سے جانے کو دل نہیں چاہتا۔

صبح کا ابھرتا ہوا سورج جب اپنی کرنیں اس گرم پانی پر بکھیرتا ہے تو گرم پانی بہت ہی قابل دید منظر پیش کرتا ہے اور سبز رنگ کا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس جگہ کے مشہور ہونے کی وجہ آبشاروں سے نکلے والا گرم پانی ہی ہے۔ کئی سال پہلے میرے دادا جی پیدل اس جگہ پر جاتے تھے مگر اب صرف موٹر سائیکل پر ہی اس جگہ پہنچا جاسکتا ہے۔ ان پہاڑوں کے بیچ یہ مناظر جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جو شخص گرم پانی کو دیکھنے آتا ہے اور اس پانی سے نہاتا ہے تو پھر اس شخص کا دل بار بار اس جگہ آنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کی وجہ پہاڑوں کا حُسن اور گرم پانی کی کشش ہے۔

راستہ دشوار سہی مگر حسن کے نظارے دیکھنے کے لیے راستے کی دشواری اور طوالت کچھ معنی نہیں رکھتی۔ فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ جگہ قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔ ان وسیع و عریض اور دل کش نظاروں کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔ بلوچستان کے ان پہاڑوں پر بائیکس تیزرفتار سے نہیں چل سکتیں، صرف رینگتی ہیں۔ اس سفر میں اونچے نیچے پہاڑوں پر پھیلے دیدہ زیب نظارے ہر آنے والے کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔

ان پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے بائیک کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر بائیک کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر جان بچنا محال ہوجاتا ہے، جب کہ پہاڑوں کی اترائی بھی کچھ کم مشکل نہیں۔ اترنے کے دوران بائیک کے بریک کو پکڑ کے رکھنا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ نیچے اترا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں لوگ جلدی امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس گرم پانی میں نہانے آتے ہیں اور شفایاب ہوجاتے ہیں۔

بعض مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہاڑوں سے آنے والے اس پانی میں معدنیات کے ذرات شامل ہوتے ہیں، جو جسم کو ٹھنڈک پہنچاتے اور شفا کا باعث بنتے ہیں۔ مگر آج تک اس گرم پانی کا ٹیسٹ بھی کسی لیب میں نہیں کروایا گیا کہ آخر اس پانی میں ایسا کیا ہے جو جسم کو ٹھنڈک اور شفا پہنچاتا ہے۔

اس حوالے سے بے چارہ گوگل کو بھی کچھ پتا نہیں ہے۔ آج تک اس دیدہ زیب جگہ گرم پانی کو حکم رانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ جس روز سی پیک مکمل ہوا اس روز اس جگہ کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی کیوںکہ یہ جگہ سی پیک روڈ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر ان پہاڑوں کی جانب توجہ دی جائے تو سیاحت کے حوالے سے دل فریب مناظر کا حامل یہ علاقہ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ضرور کام یاب ہوگا۔ اس کے علاوہ ان پہاڑوں میں قیمتی معدنیات بھی بھری پڑی ہیں جو ملک کی معیشت میں اہم کردا ادا کرسکتی ہیں۔

٭خوب صورت مچھلیوں کا دیس

بلوچستان میں ایک ایسا علاقہ بھی موجود ہے جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے بے نظیر ہے، مگر عام پاکستانی اس کی خوب صورتی سے ناواقف ہیں۔ اس علاقے کی کئی خصوصیات ہیں۔ خوب صورت پہاڑ، دل کش آبشاریں، تاریخی اور پراسرار مقامات، صحرا ایسا کہ جیپ سواروں کی پسندیدہ ٹریکنگ۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ دور دراز تک پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھر جہاں کے مکین پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے ہیں۔ یہاں چھتل شاہ نورانی کے مزار کے قریب ایک ایسا مقام ہے جہاں پر میٹھا پانی موجود ہے اور اس جگہ پیاری پیاری مچھلیاں رقص کرتی اور انسانوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہیں۔

تحصیل گنداواہ ضلع جھل مگسی میں یہ دل فریب مقام تیزی سے سیاحوں کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہاں پر مچھلیاں انسانوں کو دیکھ کر اپنی خوراک کی امید کرتی ہیں۔ یہ رنگین مچھلیاں اپنے خوب صورت رنگوں، عجیب و غریب بناوٹ اور عام مچھلیوں سے مختلف شکل شباہت کی وجہ سے دیکھنے والوں کے لیے حیرت اور دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ ان رنگین مچھلیوں کے اقسام دیکھنے ملک بھر سے آتے ہیں۔ یہاں بچے دینے والی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انہیں مقامی زبان میں پہاڑوں کی مچھلی کہا جاتا ہے۔

چتھل شاہ نورانی کے مزار کے قریب نکلنے والا پانی آب حیات کہلاتا ہے۔ پانی میں تیرتی یہ خوب صورت مچھلیاں یہاں آنے والے سیاحوں کا دل لبھاتی ہیں۔ پاکستان بھر سے سیاح اس جگہ لطف اندوز ہونے آتے ہیں اور اپنے کھانے کی اشیاء ان مچھلیوں کو دیتے ہیں۔ یہ مچھلیاں سیب، انگور اور گوشت بھی مزے لے کر کھاتی ہیں۔ سخت سردی ہو یا سخت گرمی یہ مچھلیاں اپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتیں۔ مقامی روایت کے جو بھی یہ مچھلی کھائے گا اس کے پیٹ سے یہ مچھلی زندہ باہر نکلے گی، اس لیے مقامی لوگ ان مچھلیوں کو نہیں کھاتے اور نہ ہی کسی اور کو ان مچھلیوں کا شکار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

گذشتہ دو سو سال سے ان مچھلیوں کا شکار نہیں کیا گیا۔ ان مچھلیوں کا شکار غیرقانونی سمجھا جاتا ہے اور مچھلیوں کے شکار میں ملوث افراد کے خلاف ہمیشہ مقامی لوگوں نے مزاحمت کی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ایک مرتبہ ایک سیاح نے ای مچھلی پکڑی اور پھر اسے پکاکر کھانے لگا تو اس کے حلق میں مچھلی کا کانٹا پھنس گیا، جس سے اس کا سانس رُک گیا۔ کانٹا نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ نہیں نکلا اور وہ شخص تڑپ تڑپ کر مرگیا۔

ٹھنڈے اور میٹھے پانی میں تیرتی یہ منفرد مچھلیاں چھتل شاہ نورانی کی خوب صورتی اور شور مچاتی ندیوں کی رونق کہلاتی ہیں۔

اس جگہ کی ایک اور بات بھی مشہور ہے، جو آپ کے لیے یقیناً حیران کُن ہوگی۔ یہاں پر ہم نے ہڈی خور بکریاں بھی دیکھیں۔ ہمارے آس پاس کئی بکریاں مرغی اور دوسرے جانوروں کی ہڈیاں کھا رہی تھیں۔ جب ہم دوست گوشت کھا کے ہڈیاں پھینکتے تھے تو بکریاں کتے اور بلی کی طرح دوڑتی ہوئی آتیں اور ہڈیاں چٹ کرجاتیں۔ بہت سے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان کو کھانے کے لیے سبزہ نہیں ملتا ہے تو بھوک انہیں ہڈیاں چبانے پر مجبور کردیتی ہے۔

٭مولاچٹوک

بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع مولاچٹوک صوبے کے خوب صورت مقامات میں سے ایک ہے۔ مولا چٹوک کی انتہائی خوب صورت آبشاریں دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔ بلوچی میں مولا چھوٹے سے علاقے کو کہا جاتا ہے اور چٹوک آبشار کو کہتے ہیں۔ بعض لوگ اس علاقے کو آبشاروں کا دیس بھی کہتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مولا چٹوک کا پانی سردی میں بھی گرم رہتا ہے۔

آج کل خضدار ملکی سیاحوں کیلئے ایک خوبصورت اور معروف پکنک پوائنٹ بن چکا ہے یہ شہرت مولا چٹوک ہی کی مرہونِ منت ہے۔ مولا چٹوک سطح سمندر سے ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر شفاف پانی کے جھرنوں اور آبشاروں سے گھرا ہوا ایک ایسا قدرتی سوئمنگ پول ہے جس کی تصویروں کی پہلی جھلک ہی آپ کو یہاں پہنچنے کے لیے بے چین کردیتی ہے۔ پانی مسلسل اونچائی سے آبشاروں کی صورت میں نیچے کی طرف آتا رہتا ہے، جس کے باعث ہر آبشار کے سامنے ایک چھوٹا سا تالاب بن گیا ہے، جس میں سیاح تیراکی کرتے ہیں۔ خضدار سے مولا چٹوک جانے کے لیے زیادہ تر لوگ موٹرسائیکل استعمال کرتے ہیں۔ یہ دشوار گزار اور اونچا پہاڑی سلسلہ ہے اور راستے کا بڑا حصہ کچا اور پتھریلا ہے۔

رات کے وقت اگر ان پہاڑوں کی بلندی پر چڑھ کر ان آبشاروں کا نظارہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان کے سارے ستارے اور سیارے زمین پر آکر بچھ گئے ہیں۔ یہاں موجود ایک تالاب انسانی قد کی اونچائی کے برابر گہرا ہے، جب کہ آگے کے تالاب زیادہ گہرے نہیں ہیں۔ شاید کبھی کوئی ہمت والا شخص ان پہاڑوں کے پار موجود ان گنگناتے آبشاروں کے منبع کو بھی دریافت کر لے جہاں سے یہ پانی کیسے پہاڑوں کو چیر کر نکلتا ہے اور پہاڑوں کے درمیان سے ہی نہیں بل کہ دوسری جانب پہاڑ کے اوپر سے بھی نیچے گر رہا ہوتا ہے۔

مولا چٹوک آبشار دراصل دو نسبتاً بڑی اور تین چھوٹی آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ یہی ٹریک آگے جاکر مولا چٹوک آبشاروں سے مل جاتا ہے۔ اس جگہ پیر جمانا یا ہاتھ سے کوئی سہارا لینا ممکن نہیں، لہٰذا آبشاروں کے اندر جانے کی ہمت وہی کریں جنہیں تیرنا آتا ہے۔ ان چٹانوں سے مسلسل سیکڑوں سالوں سے پانی گزرنے کے باعث نقش و نگار اور راستے بن گئے ہیں، جو بہت خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہیں۔ اہل خانہ کے ساتھ مولاچٹوک جانا تکلیف دہ ہوسکتا ہے، یہاں ان دوستوں کے ساتھ جائیں جو ایڈوینچر کے شوقین ہوں۔ یہاں بہت لینڈسلائیڈنگ ہوتی ہے اور سڑکیں مکمل طور پر بہہ جاتی ہیں۔ موٹرسائیکل کسی نہ کسی طرح لے جائی جاسکتی ہے، اسی لیے لوگ یہاں جانے کے لیے موٹرسائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔