مٹی پر حکمرانی بے معنی ہے
اتنے میں جپسی گاتا اور سارنگی بجاتا وہاں سے گزرا تو ایک اجنبی خشک گھاس سے کود کر اس کے سامنے آگیا۔
ہنگری کی حکایت ہے کہ ایک دفعہ جپسی ایک سرائے میں داخل ہوا۔ اور اس نے اپنی سارنگی پر اس قدر دل گیر ، غم ناک اور بے حد مو ثر گیت سنایا کہ گھاس اور جھاڑیوں کے پتے شبنم سے تر ہوگئے جیسے کہ وہ آنسو بہار ہے ہوں اس کا یہ گیت ایک شکوہ 'ایک پکار اور ایک التجا تھی کہ ازل سے غربت ' حقارت ، بیزاری ، اور ابدی سفر کیوں اس کے حصے میں آیا ہے ۔۔۔ اس مد ہو ش کن لیکن غم ناک مو سیقی کو مغرب کی ہوا نے اپنے دوش پر دور دور تک پہنچا دیا اور جب یہ ہوا دور جھاڑیو ں اور پودوں میں سے گزری تو وہ آواز بازگشت میں بدل گئی ۔ جس میں خانہ بدوش کی روح کے صدیوں پرانے غم کی پکار تھی ۔ شیطان ایک دلدل کے کنارے مرغزار میں رہتا تھا ۔ اس نے پکار سنی اور اس کا دل رحم سے بھر گیا اور اس نے جپسی کی مدد کر نے کا ارادہ کر لیا۔
اتنے میں جپسی گاتا اور سارنگی بجاتا وہاں سے گزرا تو ایک اجنبی خشک گھاس سے کود کر اس کے سامنے آگیا۔ وہ شکل صورت سے ایک جرمن معلوم ہوتا تھا ۔ اس کے منہ میں پائپ جسم پر فرام کوٹ اور سر پر مخملی ٹوپی تھی ۔ جپسی سرائے سے اتنی دور اجنبی کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ کیابات ہے ؟ شیطان نے اسے سر تاپا دیکھتے ہوئے پوچھا کیا مجھ سے ڈر گئے ہو، گانا بجانا کیوں بند کر دیاہے ۔ میں کاہے کو ڈروں مسٹر جرمن ! جپسی نے چالاکی سے جواب دیا۔ کیونکہ اس نے اجنبی کے سر پر دو سینگ دیکھ لیے تھے ۔ جو شیطان کا مخصو ص ہے ۔ اور سینگ ٹوپی میںاچھی طرح چھپے ہوئے نہ تھے ۔ اچھا ۔۔۔ اگرمیں شیطان ہوتا تو کیا تم مجھ سے ڈرتے آہ ۔۔۔۔۔ جپسی نے اپنا سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔ کیا شیطان جرمن سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت شیطان ہی سے ملنے کا خواہش مند ہوں ۔ شاید میرے اس برے وقت میں وہ میری کوئی مدد کر سکتا۔ خوب خوب ! شیطان نے جواب دیا۔ اگر یہ معاملہ ہے تو کہو ۔ میں ہی وہ ہوں جس کی تمہیں تلاش ہے ۔ میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔
'' بے شک تم میری مدد ضرور کر وگے ۔ جپسی نے جواب دیا۔ لیکن تم نے یہ روپ کس مقصد کے لیے دھارا ہے مجھے تو اس کی پروا نہیں کہ تم شیطان ہو یا جرمن ۔۔۔ میں تو صرف امداد چاہتاہوں۔ بہت اچھا شیطان نے جواب دیا۔ لیکن تمہیں وہ چیزدینی پڑے گی جو تمہیں سب سے عزیز ہے ۔ میرے پاس ہے ہی کیا، جسے میں عزیز سمجھتا ہوں۔ البتہ یہ سارنگی ہے۔ '' ہاں یہی '' شیطان نے جلدی سے کہا ۔ '' تم مجھے اپنی سارنگی دے دو '' ۔''آہ'' سوچ میں ڈوبتے ہوئے جپسی کے منہ سے نکلا اور کچھ دیر بعد لب مسکراتے ہوئے اس نے پوچھا ۔ مسٹر شیطان تم اس سارنگی کا کیاکروگے ؟ میں اسے بجائوں گا اور میری خواہش کے مطابق لوگ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں گے '' بہت خوب ۔ مگر پہلے تم وعدہ تو پورا کرو ۔'' بڑی خوشی سے میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں ۔ لیکن یاد رہے کہ تمہاری سارنگی اب میری ہو چکی ہے۔ دوسری صورت میں اس کا نتیجہ تمہارے لیے بہتر نہ ہوگا۔
اب اس دلدلی گھاس پر یوں بیٹھ جائو ۔ جیسے کہ ایک گھوڑا ہے۔ اور میرے پیچھے چلے آئو ۔ جپسی نے شیطان کا حکم مانا۔ اور دوسرے لمحے وہ دونوں مشرق کی سمت ہوا میں اڑنے لگے ۔ سورج غروب ہورہا تھا ۔ جب شیطان اور جپسی اپنے ہوائی گھوڑوں سے دریائے یاموس کے کنارے اترے ۔ یہ دریا بلند چٹانوں میں بہہ رہاتھا ۔ شیطان نے جپسی کا ہاتھ پکڑا اور آبشار کی طرف لے چلا ۔ جہاں پانی بہت کم تھا۔ وہاں سے مٹھی بھر گیلی مٹی اٹھا کر جپسی کو دی '' میرا وعدہ تو یہ ہے '' شیطان نے کہا '' اس دریا کی مٹی اور اس آبشار کے پیچھے غار سونے سے بھرے پڑی ہے ۔ یہ سب تمہارا ہے ۔ اب سارنگی میرے حوالے کردو '' ۔ جپسی نے حیرانگی سے مٹی کو دیکھا ، جو سونے کی مانند چمک رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد جیسے کہ اسے یقین نہ آتا ہو ۔ وہ فوراً آگے بڑھا اور مٹی و ریت کو اٹھایا واقعی وہ اصل سونا تھا۔''بے شک تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیاہے ''جپسی نے کہا '' اب میری باری ہے ۔ مگر مجھے اتنی اجازت دو کہ آخری بار سارنگی بجالوں ۔ ''
پھر جپسی نے ایسے دردناک انداز میں سارنگی بجائی کہ نہ صرف شیطان بلکہ آسمان کے بھی آنسو نکل پڑے جپسی نے آخری لے کے بعد سارنگی کو چوما اور ایک سوراخ پراپنے ہونٹ رکھ کر زور سے سانس کھینچ لیا۔ پھر سارنگی شیطان کے حوالے کر دی ۔ جو فوراً دھند کی مانند غائب ہو گیا۔ جپسی نے اپنا پائپ بھرا اور اسے سلگا کر بڑے اطمینان سے دریا کی تہہ میں سونا نکالنے میں مصروف ہوگیا۔ تین دن بعد جپسی بڑا مالدار ہوچکا تھا ۔ لیکن سارنگی کے لیے اس کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ وہ تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ بوجھل دل سے سونے کے ایک انبار پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ شیطان تم بڑے چالاک بنتے پھرتے ہولیکن میں بھی کوئی احمق نہیں میں نے تمہیں سارنگی دی ہے اپنی روح نہیں۔ جو اس کے تاروں پر کھیلتی تھی اچانک وہاں شیطان نمودار ہوا اور سارنگی کو واپس کر تے ہوئے بولا ۔ '' میں بڑے گھاٹے میں رہا تمہارے پاس تو سونا ہے لیکن یہ سارنگی لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کے بجائے بھگا دیتی ہے ۔
جب میں اسے بجاتا ہوں تو لوگ خو ف زدہ ہوکر وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن رخصت ہونے سے پہلے مجھے اتنا تو بتائو کہ جب تم سارنگی بجاتے ہو تو اس میں جادو کیسے بھر جاتا ہے ؟ ''یہ تو معمولی بات ہے ۔ جپسی نے سارنگی لیتے ہوئے کہا ۔ میں نے تمہیں وعدے کے مطابق ساز دیا تھا لیکن روح نہیں''۔ہماری قومی سیاست میں عوام ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا انتہائی کثرت سے بے دردانہ استعمال ہوتا آیا ہے ۔ عوام کے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے اس لفظ کو انتہائی منافقت کے ساتھ اپنے لیے بار بار استعمال کیا ہر غیر آئینی اور ناجائز کام کو عوامی خواہشات کا نام دیا جاتا رہا ۔ عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ملک غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی توڑی اور عوامی خواہشات ہی کے لیے اسمبلی کے مسلم لیگی اراکین ایک رات ہی میں ری پبلکن اراکین میں تبدیل ہوگئے۔ 1956کے آئین کو عوامی خواہشات کا آئینہ قرار دیاگیا جب کہ ایوب خان نے اسی آئین کو منسوخ کر کے مار شل لا نافذ کر نے کو عوامی بھلائی کا اقدام قرار دیا۔
1971میں بادل نخواستہ اقتدار عوام کے حوالے کیا گیالیکن جلد ہی مذہبی اور سیاسی یتیم اقلیتی گروہ عوام کے خلاف اتحاد کر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے گلی اور بازاروں میں نکل پڑے اور لاٹھی کھانے ، گولی کھانے، آنسو گیس برداشت کرنے ، گرفتار ی دینے لگے اور پھر مرد مو من میدان سیاست میں آگیا اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے اچانک احساس ہوا کہ پاکستان کے 97%مسلمان تو اچھے مسلمان ہی نہیں ہیں چنانچہ وہ انہیں اچھے مسلمان بنانے کے لیے 11 سال اقتدار کی کرسی پر چمٹا رہا پھر اس کے بعد ایک اور صاحب عوام کا نام لے کر اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر اقتدار پر قابض ہو گئے اور وہ بھی11سال تک عوام کی ہی خاطر اقتدار سے چمٹے رہے پاکستان کے عوام انتہائی باشعور اور سمجھدار ہیں وہ سب جانتے اور سمجھتے ہیں انہیں بے وقوف بنانا ناممکن ہے ۔
وہ اپنے دوستوں ، خیر خواہوں اور دشمنوں کو اچھی طرح سے جانتے اور پہچانتے ہیں ان کے جسموں کو غلام بنایا جاسکتا ہے ان کے اقتدار پر جبر ی قبضہ کیاجا سکتا ہے لیکن ان کی روحوں اور دل کو کوئی غلام نہیں بناسکتا اور نہ ہی ان پر قبضہ کر سکتاہے جبر ، زبردستی کی کوشش سے آپ ان سے سارنگی تو لے سکتے ہیں لیکن ان کی روح ہرگز نہیں لے سکتے ، جبر اور زبردستی سے جسم پر قبضہ کیاجاسکتا ہے روح پر نہیں۔ پاکستان کے عوام کی روحیں ان کے حقیقی لیڈروں کے پاس ہیں جن کا جینا اور مرنا عوام کے ساتھ ہے روح کے بغیر جسم صرف مٹی ہے اور مٹی پر حکمرانی بے معنیٰ ہے ہمیں عوام کو جیتنے کی کو شش کرنی چاہیے نہ کہ انہیں ہرانے کے لیے ۔ عوام کی ہار پاکستان کی ہار ہے پاکستان کے استحکام ، خوشحالی اور ترقی کی ہارہے ۔