بات کچھ یوں ہے دراصل

شہلا اعجاز  پير 27 اگست 2018

کوئی نہیں جانتا تھا کہ جب لندن اور پیرس میں اس وقت ساٹھ ہزار سے بھی زائد باشندے نہ تھے تب ہرات شہر میں ڈھائی لاکھ کے قریب آبادی تھی۔ اس شہر کی گولائی نو ہزار فٹ سے زائد تھی، شہر میں کئی سو مدرسے تھے، تین ہزار کے قریب حجام اور دس ہزار دکانیں تھیں، اس وقت پیرس میں مکتب تھے لیکن لندن کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں کسی مکتب و مدرسے کا ذکر نہیں تھا، ہوا سے چلنے والی بڑی بڑی چکیاں تھیں، جو نہروں سے کھینچ کر پانی کو کھیتوں کو سیراب کرتیں۔ تیمور لنگ نے جب ہرات کو فتح کیا تو اسے اندازہ نہ تھا کہ یہ شہر قدرتی نعمتوں اور انسانی اذہان کی کارکردگی کی بدولت اس قدر ترقی یافتہ ہوگا، اندازاً یہ 1368-69 کا دور تھا۔

تیمور نے بے انتہا فتوحات کیں، تاریخ اسے ایک عظیم، جابر، عقل مند، زیرک فاتح قرار دیتی ہے لیکن خود اس نے اپنے آپ کو ’’میں۔۔۔تیمور۔۔۔خدا کا بندہ‘‘ لکھ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے یا ثابت کیا ہے کہ کوئی کتنا ہی عظیم انسان ہو فاتح ہو، جابر ہو یا ظالم ہو سب کو اسی خدا کے حضور پیش ہونا ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اس کے لیے تیمور کا اپنے لیے یہ تعارف خدا کا بندہ عاجزی و انکساری کو ظاہر کرتا ہے۔

عاجزی و انکساری کسی بھی حکمران کے لیے بہت اہم ہے، جو اسے احساس دلاتی ہے کہ وہ بھی ایک عام انسان کی مانند خاک سے بنا خطا کا پتلا ہے، جسے ایک دن اپنے پروردگار کو اپنے اعمالوں کا حساب کتاب دینا ہے کہ اس کے کھاتے میں پوری قوم و ملک کی ذمے داری بھی شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ جو قوم جس طرح کے طرز عمل اختیار کرتی ہے، قدرت کی جانب سے اس پر اسی طرح کا حکمران نازل کردیا جاتا ہے، تبدیلی کے نعرے سے آنے والی نئی حکومت سے لوگوں کو بہت سی توقعات ہیں لیکن یہ عجب اتفاق ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے آنے سے قبل ہی ان چند دنوں میں لوگوں نے اتنی شکلیں بدلیں کہ طبیعت حیران رہ گئی۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں سے لے کر سرپھرے شہریوں نے بھی تبدیلی کے لفظ کو شاید غلط انداز میں لیا۔

عظیم تیمور کی مانند خان جی نے کراچی کو فتح تو نہیں کیا البتہ معرکہ تو مار ہی لیا لیکن شہر ہرات کی مانند کراچی مالا مال ہونے کے باوجود دلچسپ انداز میں زبوں حالی کا شکار ہے، مثلاً کراچی کی سڑکوں کے اردگرد پلوں کے نیچے، بڑے بڑے میدانوں میں ریلوے لائنوں کے اطراف جنوبی پنجاب سے آئے بھائی لوگ ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں، کیونکہ ان کے اپنے علاقوں میں معاشرتی اور معاشی لحاظ سے ابتری ہے اور روزی روٹی کی تلاش انھیں کراچی، لاہور اور ان جیسے دیگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، اس وجہ سے ملک کے بڑے شہر خاص کر کراچی آبادی کے بوجھ تلے دب رہا ہے، صرف یہی نہیں جرائم کے لحاظ سے بھی یہ شرح اب بڑھتی ہی جا رہی ہے، پہلے صرف مرد حضرات ہی چوری چکاری، ڈکیتی، اغوا اور لوٹ مار میں ملوث نظر آتے تھے پر اب خواتین بھی نہایت منظم طریقے سے گھروں میں یہ فرائض انجام دے رہی ہیں۔

لاہور سے ایک نہایت معزز پیشے سے منسلک صاحب نے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے گھروں میں کام کرنے والی چند خواتین کی تصاویر شیئر کی تھیں جو گھروں میں کام کرکے اپنے مالکوں کے دل میں پہلے گھر کرتی ہیں اور پھر موقع پاکر قیمتی سامان جس میں نقدی و زیورات کے علاوہ موبائل فونز اور قیمتی ملبوسات بھی شامل ہوتے ہیں، اڑا کر خود بھی شہر سے ایسے غائب ہوتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

سننے میں آیا تھا کہ پہلے لوگوں نے بہت حیل و حجت کی لیکن مزید صوبوں کے فیصلے پر راضی نہ ہوئے پر اب جنوبی پنجاب کے صوبے پر اتفاق ہوگیا ہے، شکر ہے کہ اب بہت سی ناانصافیوں کے ساتھ بہت سے مسائل بھی حل ہوسکیں گے، لیکن اب بھی سندھ میں مسائل مکھیوں کی مانند بھنبھنا رہے ہیں۔

ان میں زمینوں کے حوالے سے قبضہ گروپ کی کارکردگی سر فہرست ہے۔ جبکہ گنجان علاقوں میں گھروں کو گرا کر پورشنز بنانے کے رواج سے علاقوں کی حالت نہایت گمبھیر صورتحال اختیار کرچکی ہے اور ہر دوسرا علاقہ کھارا در بن رہا ہے، جہاں پہلے صرف ایک یا دو خاندان ایک گھر میں رہائش پذیر تھے وہاں چھ خاندان زندگی گزار رہے ہیں، مہنگے داموں پر دستیاب یہ پورشن پانی کی کمی، بجلی کی خرابی، گیس کے مسائل اور رہائش دیگر دشواریوں کے ساتھ عجیب طوفان بدتمیزی کا نمونہ پیش کرتے ہیں، سڑک کے اردگرد فٹ پاتھ پر جگہ گھیر گھار کر رہائشی جگہوں میں شامل کرلیا گیا ہے، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی قطاروں کا نہ پوچھیے، اس پر چلتے ہوئے راہ گیروں کی بھیڑ ہر دم ایک طوفان بپا رکھتی ہے، لیکن کاروباری اعتبار سے ایجنٹ حضرات اپنے نفع کی خاطر شہر کو سر پر سوار کرتے چلے جا رہے ہیں۔

نوکریوں کے حوالے سے بھی بڑے وعدے تو کیے گئے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ پرچہ گروپ نے ناک میں دم کر رکھا ہے، کیا اسکول اور کیا کالج۔ یونیورسٹیوں کا بھی کیا کہنا۔ کمیشن پر بکنے والے درجے اور گریڈز نے اہلیت کو بھی چمکتے شوکیس میں قید کر رکھا ہے۔ ہم جیسے تو بس احتجاج ہی کرتے خالی کشکول رہ گئے، لیکن نئی نسل کے لیے پھر بھی پرامید ہیں کہ ہمارے نوجوان کسی ذہنی اذیت میں مبتلا نہ ہوں اور اس قومیتی ڈپریشن سے نکل سکیں۔

نئی حکومت کے حوالے سے ہمیں عمران خان کے ساتھ بلاول بھٹو سے بھی بہت امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اندرون سندھ کی قدیم روایات کو نہ بھولیں، پانی کی کمی، وسائل کی عدم دستیابی نے اندرون سندھ کے کئی گاؤں ویران کردیے۔ سندھ کی اپنی روایات ہیں لیکن ووٹوں کی اتھل پتھل اس روایتی تبدیلی کو دیمک لگا رہی ہے۔ کراچی شہر کی کھینچا تانی میں سندھ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، اگر یہ سمجھا جائے کہ اندرون سندھ کے باسیوں کو کراچی میں بسا کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا تو ہمارے حکمرانوں کو اب ہوش میں آجانا چاہیے کہ اس چکر میں ہمارے عظیم سندھ کے عظیم حکمرانوں کی محنت اور کوششوں سے بنائے گئے قدیم علاقوں کو خاک میں ملانے کی مذموم کوشش کسی سیاسی اتھل پتھل نہیں بلکہ ان کے نفس کی شرارت کا اثر ہے اور یاد رہے کہ نفس کی شرارت تباہی کے دہانے پر لاکر تنہا چھوڑ دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔